• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
سندھ جی رانیاں

ملک بھر سے اسمبلیوں میں جانے کے ہزاروں خواہش مندامیدوار میدان میں اتر چکے ہیں۔ خوب زور و شور سے انتخابی مہم چلائی گئیں،امیدوار،محلے، بازاروں، گلی کوچوں میں لوگوں سے ووٹ مانگتے نظر آئے۔ ان میں کئی امیدوار ایسے بھی ہیں، جو اس سے پہلے بھی ان ہی اسمبلیوں کے ممبر رہ چکےہیں ، مگر اس بار ایسے کئی امیدوار بھی سامنے آئے ، جو حالات سے تنگ آکر، اپنے لوگوں کی حالت بدلنے کے لیے خود انتخابات میں حصے لے رہے ہیں، تاکہ اسمبلیوں میں جا کر عوام کے مسائل حل کر سکیں، ایسے میںسندھ کی خواتین کہاں پیچھے رہنے والی تھیں، ایک اندازے کے مطابق اس انتخابات میںاندرو ن سندھ اور کراچی سے ریکارڈ تعداد میں خواتین جنرل نشستوں میں حصہ لے رہی ہیں ۔صوبۂ سندھ میں قومی اسمبلی کی 60نشستیں ہیں، جن میں سے 21، کراچی کے 6کے اضلاع میں شامل ہیں، جب کہ سندھ اسمبلی کی 130جنرل نشستوں میں سے 44کراچی میں ہیں، باقی 86سندھ کے دیگر اضلاع میں تقسیم کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں کل 342نشستوں کے ایوان میں خواتین کی 69نشستیں مخصوص ہیں، لیکن عام نشستوں پر بھی خواتین امیدوار ہیں۔ 

الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ عمومی نشستوں پر بھی پانچ فی صد ٹکٹ خواتین امید واروں کو دئیے جائیں۔ قومی اسمبلی کی 272جنرل نشستوں کے لیے 171خواتین امیدوار انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ 105خواتین کو مختلف جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ دئیے ہیں، 66خواتین آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گی۔ سند ھ میں قومی اسمبلی کے لیے 346خواتین امید وار ہیں، جن میں 16آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں، سندھ صوبائی اسمبلی سے کُل 91خواتین امید وار ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، شازیہ مری، نفیسہ شاہ، فریال تالپور ، سسی پلیجو ، شمس النسامیمن عام نشستوں پر الیکشن میںکام یاب ہو کراسمبلیوں میں پہنچیں۔ 2013 عام انتخابات کے بعد 342 رکنی قومی اسمبلی میں 60 خواتین مخصوص نشست پر ایوان میں پہنچی تھیں ،جب کہ صرف 9 خواتین جنرل نشست پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کام یاب رہیں جو کہ ایوان کی کُل نشستوں کا صرف 3.3 فیصد ہے۔انتخابی دنگل میں خواتین امیدواروں کی تعداد میں اضافے کی ایک اہم وجہ تو گزشتہ برس اکتوبر میں پاس ہونے والا الیکشن ایکٹ 2017 ہے جس کے تحت سیاسی جماعتیں مجموعی انتخابی نشستوں میں سے 5 فیصد نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پابند ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے البتہ 58 سیاسی جماعتیں اب بھی ایسی ہیں جنہوں نے کسی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔

دوسری جانب دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہونے والا صحرائے تھر، جہاں آج کل سیاحت کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے، اتنی اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود بھی وہاں کے باسیوں کی زندگیوں میں خاطرخواہ تبدیلی نہیں آئی ، پانی، غذائی قلت، صحت عامہ کے بنیادی مسائل آج بھی تھرکے لوگوں کی اموات کا سبب بنے ہوئے ہیں، مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدلتی یا انہیں بنیادی سہولتیںفراہم کرتی۔اس لیے تھری خواتین نے اب اپنی قسمت خود بدلنے کا ارادہ کرلیا ہے، اسی عزم کے ساتھ وہ سیاسی میدان میں طبع آزمائی کرنے اتریں گی۔ کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ چٹان بن جاتی ہے ، تھر کی خواتین بھی اپنے علاقے کی مضبوط سیاسی جماعتوں کے مد مقابل کھڑی ہو گئی ہیں، کیوں کہ یہ اب اپنے لوگوں کوزندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے مزید ترستا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 ،جب کہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے، جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔عام انتخابات 2018میں سندھ سے جنرل اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخاب لڑنے والی چند خواتین کے بارے میں ملاحظہ کیجیے۔

ڈاکٹرفہمیدہ مرزا

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ،پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹراور کام یاب بزنس وومن ہیں۔ ان کا تعلق ، سندھ کے شہر حیدر آباد سے ہے۔ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان اور مسلم ممالک میںپہلی خاتون ہیں، جواسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ان کو اس عہدہ پر 19 مارچ 2008ء کو منتخب کیا گیا۔وہ لگاتارتین بارعام انتخابات 1997ء، 2002ء اور 2008ء میں کام یاب ہوئیں اور بدین، سندھ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انہوں نے1982میں ، لیاقت میڈیکل کالج ، جام شوروسے طب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی چلاتی تھیں۔ فہمیدا مرزا نے1997میں اپنے شوہر کے آبائی حلقے بدین سےپہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیااور کام یاب ٹھہریں، اس کے بعد ہونے والے تمام عام انتخابات میں وہ اسی حلقے سےمقابلے میں اترتی اور کام یاب ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی ان چند خواتین ارکان میں سے ایک ہیں، جو خواتین کی مختص نشستوں کے بہ جائے جنرل نشست پر کام یاب ہوئیں۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، وہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے لڑے ہیں ، لیکن اب وہ ، بدین کےحلقے این اے 230 سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)سے میدان میں اتررہی ہیں،جہاں ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے رسول بخش چانڈیو، ایم ایم اے کے فتح محمد مہری سے ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب بھی ان کے حلقے کے عوام ڈاکٹر صاحبہ کو کام یابی سے ہم کنار کرواتے ہیں یا نہیں۔

نفیسہ شاہ

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا تعلق سندھ کے شہر خیرپور میرس سے ہے، جہاں آج بھی خواتین پردے کی سختی سے پابندی کرتی ہیں۔وہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی بیٹی ہیں۔یہ نفیسہ کی خوش نصیبی ہے کہ وہ ایک ایسے سندھی گھرانے میں پیدا ہوئیں ،جو سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ وہ اپنی والدہ حسن افروز سے بے حد متاثر ہیں، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائی اور اپنے ارد گرد کی عورتوں کے حالات بدلنے میں دل چسپی لی، ان کے بعد یہ ذمے داری سید قائم علی شاہ نے اٹھائی اور اپنی بیٹیوں کی بہترین تعلیم و تربیت کو یقینی بنایا۔ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے 2011میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے’’سوشل اینڈ کلچرل انتھرا پالاجی‘‘ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ان کی پی ایچ ڈی کا تھیسس بھی کاروکاری اور اس کے باب میں ریاست، ملکی قوانین کا رویہ، اشرافیہ کی طاقت اور اس کے بل بوتے پر غیرت کا نام لے کر کمزور عورتوں اور مردوں کی جان لینے جیسے معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔سیاست ان کے گھر کا اوڑھنا، بچھونا ہے،وہ دو مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں ، 2001-2007تک ضلع خیرپور کی ناظمہ بھی رہ چکی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں خیرپور کی نشست این اے208سے سیاسی دنگل لڑرہی ہیں، جہاں ان کا مقابلہ ایم ایم اے کے مولانا میر محمد اورجی ڈی اے کے سید غوث علی شاہ سے ہوگا۔

ناز بلوچ

پی ٹی آئی کی سابق رہنما ناز بلوچ نے سینٹ جوزف کالج سے معاشیات میں گریجویشن کیا، ان کے والدکا شمار پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے،ناز اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں، جنہوں نے سیاست میں قدم رکھا ۔ 25جولائی 2018کو ہونے والے عام انتخابات میںپی ایس 127سے الیکشن لڑرہی ہیں، جہاں ناز کا مقابلہ مسلم لیگ ن کی شاہین، تحریک انصاف کے شیخ محبوب جیلانی، ایم ایم اے کے محمد صدیق راٹھور پی ایس پی کے سید مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم پاکستا ن کے کنور نوید جمیل، پاسبان پاکستان کے آصف احمد، اے این پی کے عبد الرزاق، مہاجر قومی موومنٹ کے فیضان خان،آل پاکستان مسلم لیگ کی کو ثر شاہین، تحریک لبیک پاکستان کے محمد عدیل، پاکستان مسلم الائنس کے محمد یونس اور آزاد امید واروں سے ہوگا ۔ ناز بلوچ نے 2013 کا انتخاب اس وقت کے حلقہ این اے 240سے پیپلز پارٹی کی جانب سے جنرل نشست کے لیے لڑا تھا اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے ، بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی، لیکن جولائی2017میں وہ دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئیں۔

فریال تالپور

فریال تالپور،پاکستان پیپلز پارٹی، خواتین ونگ کی صدراور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز نوّے کی دَہائی میںپاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سےنواب شاہ کے این اے 160کی نشست پر الیکشن لڑ کر کیا، مگر وہ کام یاب نہ ہو سکیں۔ وہ 2001اور 2005کے لوکل باڈی الیکشن میں لاڑکانہ کی ناظم منتخب ہوئیں۔ 2008کے عام انتخابات میں وہ پہلی بار لاڑکانہ کے این اے 207 سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، بعد ازاں 2013کے عام انتخابات میں لاڑکانہ کے حلقے این اے 207سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں،حالیہ انتخابات میں فریال تالپور پی ایس 10لاڑکانہ سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔جہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیر بخش خان بھٹو، پاکستان سنی تحریک کے حافظ حسین بخش، جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے محمد اسلم اور آزاد امیدواروں سے ہوگا۔

شازیہ عطامری

شازیہ مری کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبول رہنماؤں میں ہوتا ہے، 2013، 2002اور 2008 کے انتخابات میں کام یاب ہوکر صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ 2018کے عام انتخابات میںضلع سانگھڑ کے حلقے این اے 216سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہی ہیں، جہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے محمد اسلم اور جی ڈی اے کے کشن چند پروانی سے ہوگا۔

شہلا رضا

سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی،سیدہ شہلا رضا کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کےان دیرینہ رہنماؤں میںہوتا ہے، جو زمانۂ طالب علمی ہی سے اس جماعت سے وابستہ ہوگئے تھےاور آج تک اسی جماعت سے منسلک ہیں۔انہوں نے 1991 میں جامعۂ کراچی سےفزیولوجی میں ماسٹر زکی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نےاپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ، دوران طالب علمی پاکستان پیپلز پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ میں شامل ہوکر کیا۔ 

2008 ء میں انہوں نے خواتین کی مختص نشست پر انتخاب لڑاتھا2018کے عام انتخابات میں شہلا رضا این اے 243 سے انتخابی میدان میں اتررہی ہیں، جہاں ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ ن کے شیخ محمد جہاں،ایم ایم اے کے اسامہ رضی،ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی،پی ایس پی کے مزمل قریشی، مہاجر قومی موومنٹ کے کامران علی رضوی، اللہ اکبر تحریک کے مزل اقبال ہاشمی اور تحریک لبیک کے سید نواز اللہ سے ہوگا۔

چند کم عمر اُمید وار خواتین

عام انتخابات 2018 کا میلہ سج چکا ہے بس کچھ ہی گھنٹوں میں نتائج سامنے آنے لگیں گے، ہر طرف گہماگہمی ہے۔ ان انتخابات کو اگر نوجوانوں کا الیکشن کہا جائے تو ہر گز بے جا نہ ہو، کیوں کہ جہاں اس برس ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت نسل نو پر مشتمل ہے، وہیں اس بار جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی سیاست کے میدان میں قسمت آزمانے اتر رہے ہیں۔ ذیل میں مختلف جماعتوں سے انتخابات میں حصہ لینے والی چند کم عمر خواتین کا تذکرہ ملاحظہ کیجیے۔

عاصمہ ابڑو

سندھ جی رانیاں

سندھ کے اہم ترین ضلعے لاڑکانہ کے صوبائی حلقے پی ایس 13 سے ایک ایسی امیدوار بھی انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں، جن کی عمر 25 سال ہے، ان کا نام عاصمہ ابڑو ہے۔ قوم پرست جماعت ،سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کی امیدوار پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ عاصمہ ابڑو کم عمری میں ایک ایسے حلقے سے انتخاب لڑ رہی ہیں، جہاں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ نارروا سلوک برتا جاتا ہے،تاہم وہ اس امید اور نعرے سے انتخابی میدان میں اتری ہیں کہ علاقے میں خواتین کی بہبود اور ترقی کے لیے کردار ادا کریں گی۔

شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والی عاصمہ ابڑو نے ایک سال قبل ہی سیاست میں قدم رکھا ہے، اس سے قبل وہ علاقے میں تعلیم اور خصوصی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے متحرک تھیں۔کم آمدنی والے خاندان سے تعلق رکھنے والی عاصمہ ابڑو نہ صرف گھر اور مارکیٹوں میں جاکر عوام سے ووٹ مانگتی نظر آتی ہیں بلکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ عاصمہ کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حزب اللہ بگھیو، تحریک انصاف کے شفقت حسین انڑ،پاکستان تحریک انصاف گلالئی کے دولر علی چانڈیو، جی ڈی اے کے عادل الطاف انڑ اور دیگر آزاد امید واروں سے ہے۔

فیروزہ لاشاری

سندھ جی رانیاں

فیروزہ لاشاری جیکب آباد سے انتخاب لڑنے والی پہلی کم عمر خاتون ہیں۔ سندھ کے ضلع جیکب آباد کے صوبائی حلقے پی ایس2 سے پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہید بھٹو، کی جانب سے ایک خاتون کو انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے، ان کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے سہراب خان، تحریک انصاف کے طاہر حسین کھوسو، ایم ایم اے کے شاہ محمد شاہ سید، تبدیلی پسند پارٹی کے محمد شریف،جی ڈی اے کے مولا بخش،سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے نصر اللہ ابڑواور دیگر آزاد امیدوار شامل ہیں۔ 

حال ہی میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے گریجویشن مکمل کرنے والی فیروزہ لاشاری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے ،کہ وہ شمالی سندھ کے 3 اہم اضلاع جیکب آباد، شکارپور اور کندھ کوٹ ایٹ کشمور سے بھی عام نشست پر انتخاب لڑنے والی پہلی نوجوان خاتون ہیں۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیروزہ لاشاری کے خاندان کا شمار ایسے ہزاروں خاندانوں میں ہوتا ہے ، جو وڈیرے یا جاگیر دار نہیں بلکہ متوسط طبقے سےتعلق رکھتے ہیں۔ 

تازہ ترین