• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ٹنڈو فضل‘‘ افغانی جنگجومدد خان کے ظلم و ستم سے برباد ہوا

تاریخی قصبہ ’’ٹندو فضل‘‘

دھوپ کافی تیز تھی اور روشنی آنکھوں میں چُندھیا رہی تھی،مگر شمال سے آتی ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے ماحول میں کچھ فرحت کا احساس ہورہا تھا۔ ہم ایک ٹیلے پر بنی ،مسجد کے آنگن میں کھڑے تھے، سامنے ایک وسیع منظر تھا۔ کچھ مقبرے ، اپنی شناخت کھوتی گلیاں ، پرانے محلات ، حویلیوں اور گھروں کی خستہ حال دیواریں تھیں۔کچھ خستہ حال آنکگن نظر آرہے تھے، ان میں نہ کوئی نیم کا درخت تھا ، نہ کوئی منڈیر کہ جس پر بیٹھ کر کوّا مہمان کے آنے کی خبر دیتا۔ ان سے آگے چٹیل میدان تھا،جہاںسے ایک وسیع مدرسہ نظر آتا ہے، کسی زمانے میں وہاںسیکڑوں طالب علم ،تعلیم حاصل کرتے تھے،مگر اب بس خاموشی بسیرا کرتی ہے۔ اگر آپ حیدرآباد سے شیخ بھرکیو روڈ پر جائیں گے، تو وہاں سے ایک لنک روڈ نکلتا ہے جو آپ کو ان تاریخی آثار تک لے جائے گا، ان آثار قدیمہ کو مختلف ناموں سے پُکارا جاتا ہے، جیسے’ ’ٹنڈو فضل‘‘، ’’ہنگورانی ماڑیوں‘‘ اور’ ’دھورا ہنگورا۔‘‘

تاریخی قصبہ ’’ٹندو فضل‘‘

میر علی شیر قانع نے لکھا ہے کہ ’’یہ مشہور قصبہ ہے ،جہاں مٹیاری کے سادات کے کئی خاندان آباد ہیں۔ ‘‘ مگر حیرانی کی بات ہے کہ کئی مؤرخین کی آنکھوں سے یہ اہم تاریخی قصبہ اوجھل رہا۔کہا جاتا ہے کہ یہ قصبہ مدد خان کے ظلم و ستم کی وجہ سے تباہ و برباد ہوا۔ جنوبی سندھ کے اکثر بزرگ مدد خان کی وحشت کی کہانیاں سنا تے ہیں۔ ٹنڈو فضل کے آس پاس کی بستیوں میں بسنے والوں میں یہ کہاوت مشہور ہے ’’جڈھں کڈھں سندھڑی، توکھی قندھارؤں جوکھو‘‘ یعنی سندھ کو ہر وقت قندھار سے نقصان پہنچا، اس کہاوت کی بنیاد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سندھ پر اکثر حملے افغانیوں نے کیے۔18 ویں صدی، نہ مغل سلطنت کے لیے اچھی ثابت ہوئی اور نہ سندھ کے کلہوڑو حکمرانوں کے لیے،جب سندھ پر کلہوڑوں کی حکمرانی تھی ،اسی دورمیں سردار مدد خان کو افغانستان سے یہاں بربادی کے لیے بُلایا گیا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں، ’’کلہوڑو، دور کی تنزلی میاں محمد سرفراز خان کی تخت نشینی کے بعد شروع ہوئی، کیوں کہ ان کے دربارمیں سازشیں بہت ہوتی تھیں، آپس کی چپقلشوں نے ان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ وفادار سردار ، سپہ سالار بدگمانی اور بے بسی کی وجہ سے جنگ کے لیے آمادہ ہوئے اور اپنے بادشاہوںکا خود ہی خاتمہ کیا۔

چلیے ماضی سے لوٹ کر ایک بار پھر موجودہ ٹنڈو فضل کا ذکر کرتے ہیں، یہاں دو بڑی شان دار مساجد ہیں، جن کی تعمیر 18 ویں صدی کےوسط میںہوئی ہوگی، کیوں کہ ان دونوں مساجد کا طرزِ تعمیر کلہوڑو،دور کا ہے۔ ایک مسجد ان آثار کے جنوب میں واقع ہے، جب کہ ایک ٹیلے پر بنی ہوئی ہے، وہ مسجد اب بھی کافی اچھی حالت میں موجود ہے۔اس کے آنگن سے شمال کی طرف دیکھیں، تو ایک وسیع اراضی میں کسی بستی کے بکھرے ہوئے آثار دکھائی دیتے ہیں، چوں کہ اس بستی کے مشرق میں ’’لُہانو‘‘ کے نام سے دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ بہتا تھا، اگر یہ بستی اُس بہاؤ پر آباد تھی تو پھر اس کی قدامت پر زیادہ کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔جنوب میں بنی ہوئی مسجد سے نیچے اُتر کر،شمال کی طرف چلیں، تو پیلو کے درخت نظر آتے ہیں، جو پرانی اینٹوں کی گری ہوئی دیواروں میں سے اُگے ہیں۔ پھر آگے کسی بزرگ کی درگاہ ہے اور درگاہ کے مغرب میں کُشادہ راستہ ، راستے کے مغرب میں وہ ماڑیاں ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مٹیاری سیدوں کی ہیں۔

تاریخی قصبہ ’’ٹندو فضل‘‘

یقیناً اپنے زمانے میں یہ دومنزلہ عمارتیں انتہائی شان دااور خوب صورت ہوں گی۔ اینٹوں کی اتنی صاف ستھری اور دیدہ زیب چنائی کم ہی نظر آتی ہے، ساتھ میں اینٹوں کی بناوٹ بھی دیگر عمارتوں سے کافی مختلف ہے، پھر آگے ایک میدان ہے، دراصل یہ میدان نہیں بلکہ دریا کا قدیم بہاؤ ہے، جو اس بستی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، اس کی وجہ سے ٹنڈو فضل کی خوب صورتی میں چار چاند لگتے ہوں گے۔ اس میدان کو پار کر کے سامنے وہ عظیم الشان مسجد اور مدرنظر آتا ہے، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جو عمارت دو سو برس بعد بھی اتنی دل کش ہے، جب تعمیر ہوئی ہوگی، تو اس کی کیا شان ہو گی۔ 

نہ جانے کتنے طلباء یہاں زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر گارغ التحصیل ہوئے ہوں گے۔ مسجد کے شمال میں ایک زینہ بنا ہوا ہے جس پر چڑھ کر آپ مسجد کی چھت پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس مسجد کو بڑی ہی محبت اور مضبوطی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔افسوس کہ ایک وسیع اراضی پر پھیلے ان آثار قدیمہ کو وقت کی بے رحمی نگل رہی ہے۔ اسّی کی دَہائی تک ،تو مسجد کے مغرب میں بھی اس بستی کے آثار دُوردور تک پھیلے نظر آتے تھے ، مگر اب وہاں گنے کے کھیت ہیںاور وہ بھی دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین