• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے لو، ورنہ. . .

بشریٰ اقبال

دکھ و غم کی علامت ،ایک مشرقی خاتون جو شرم، پردہ، غیرت، عزت اور بےعزتی کی سب صلیبیں اٹھائے اپنے اپنے پابند معاشروں میں باخوشی دھرم و بھرم کے نام پہ قربان ہو رہی ہے اور ایک مشروط زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ معاشرہ چاہے کسی بھی مذہب کی بنیاد پر ہو یا لادین ہی کیوں نہ ہو ،وہاںزیادہ ترخواتین ،صرف روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے اپنی ذہانت اور شخصیت کا سرعام مول لگاتی ہیں۔ وہ اپنی خوشی، شوق اور آزادی کو دریا بُرد کر کے ستی ساوتری اور ’نیک عورت کا تمغہ‘ حاصل کرنے کے لیے کسی مرد رشتےدار کی مرہون منت ہی رہتی ہیں جہاں باعزت زندگی گزارنے کی گارنٹی کسی مرد کی آشیرباد سے وابستہ ہے۔اس کی وجہ معاشرتی سے زیادہ معاشی ہے۔ بہ ظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ صنفِ نازک بھی مال اور جائیداد کی طرح سے ہے، جن کی کفالت اور حفاظت مرد کی ذمہ داری ہے۔ یعنی عورت مرد کے برابر نہیں ، اس سے کم تر ہے۔

کمانے یا کفالت کا یہ رواج ان معاشروں کا ہے، جہاں عورت نے مرد کو اپنے لیے شکار لانے اور کاشت کاری کے لیے پالنا شروع کیا تھا۔ وہاں کچھ خواتین ایسی بھی ہوں گی، جو خود اپنا کام کرتی اور دوسری خواتین کی سُستی اور تن آسانی کو چیلنج کرتی ہوں گی۔ جس طرح آج کل کے معاشروں میں ہے، کوئی عورت ، جو کہتی ہے کہ وہ اپنی روٹی ،کپڑے اور مکان کا بندوبست اپنے زورِ بازو سے کرے گی، بس اس کے بدلے میں مجھے میرے شوق، ہنسی، خوشی، انا، خود داری اور خود اختیاری دے دو، تو ایسا مطالبہ کرنے والی خاتون اپنی ہی ہم صنف کے عتاب کا شکار ہو جاتی ہے۔

سزا دینے والا بے شک مرد ہی ہوتا مگر مرد کو غیرت دلانےوالی اس مرد کی ماں اور بہن ہی ہوتی ہے جو کہتی ہیں، ’’بھائی یابیٹابےغیرت ہوگیا ہے‘‘ یا ’’کیسے باپ ہو‘‘وغیرہ۔یہ ہیں وہ جملے جو مرد کو انسانیت سے الگ کوئی خلائی مخلوق بنا دیتے ہیں۔ مرد کے جذبات، احساسات اور خوشیاں سب چھین کر اس کے ہاتھ میں غصے، رعب، غیرت اور عزت کا ڈنڈا پکڑا دیتے ہیں۔ عورت خود بھی ذمے دار ہے، جو کسی مرد سے اس کا انسان ہونے کا فطری حق چھین لیتی ہے۔ مرد جو ہنسنا، خوش ہونا چاہتا ہے، اسے اپنے خاندان کی عورت کا چوکیدار ،سپاہی اور دیکھ بھال کرنے والا ’روبوٹ ‘بنا دیا جاتا ہے۔

کیا مشرق کی خاتون ’مظلوم‘ ہوتی ہے یا بلاوجہ بنا دی جاتی ہے۔ کیا یہاں مرد ظالم ہے یا اس کو ظالم بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اگر مرد حضرات کو فطری انداز میں رہنے والا ماحول میسر آجائے، جیسا مغربی اور اشتراکی معاشروں نے میسر کیا، جہاں ہر مرد وعورت کو خود اپنا روزگار پیدا کرنا ہے، وہاں ماحول ہی بدل گیا ہے، حالات کے تقاضے ہی بدل گئے ہیں۔

سیاحت، ادب، فلم، میڈیا اور اخبار نے ایک معاشرے کو دوسرے سے متعارف کروا کر ان پابند معاشروں کے باشعوروں کو عورت دشمن قوانین کے خلاف بولنا سکھا دیا ہے۔ دوسری طرف روایت پسند طبقہ رواج، روایت اور مذاہب کو خطرے میں ہونے کا اعلان کر رہا ہے، جس میں عورت برابر کی حصہ دار ہے۔ہر باشعور خاتون جب تک اپنی تقدیر کو خود اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی، تب تک وہ خود کو قانون کی نظر میں مکمل انسان اور شخصیت ثابت نہیں کر پائےگی۔ اس کی حیثیت اک شے کے جیسی ہی رہے گی، جس کا مالک ایک مرد ہوتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں جب خواتین پر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے حکم ران جماعت اور جماعت اسلامی کی طرف سے بل تیار کیا گیا ،تواسے اسمبلی میں پیش ہونے سے قبل ہی شدید اعتراضات کے ساتھ مسترد کردیا گیا۔ کئی سالوں کی مسلسل محنت کے بعد جس شکل میں یہ قانونی مسودہ ہمارے سامنے آیا وہ کسی بھی بہن، بیوی، بیٹی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داد رسی کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیے جانے والے اس گھریلو تشدد کے بل کے نکات کے آرٹیکل نمبر 22 میں تشدد کے معاملے پر شوہر اور والدین کی طرف سے کیے جانے والے ’اصلاحی اقدامات‘ کے خلاف قدم نہ اُٹھانے کی تاکید کی گئی ہے،جبکہ ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے دو سال قبل جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے تقریباً سات ہزار آٹھ سو باون کیسز رجسٹرڈ کیے گئے تھے اور یہ بل انہی شواہد کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا، تاکہ خواتین کو بھیڑ بکری سمجھنے والی سوچ کا خاتمہ ہو ، کیوں کہ عورت کے ساتھ ہونے والی ذیادتی پر، اس کا بولنا احتجاج کرنا، قابل سزا گردانہ جاتا ہے اور اس کے احتجاج کرنے پر اس کے گھر کے مرد اسے مار پیٹ کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ وہ معاشرےمیں شرم وحیا کے ذمہ دار ہیں، اس لیے وہ گھر کی عورت پر تشدد کا حق رکھ سکتے ہیں کہ وہ عورت، لڑکی یا بچی معاشرےمیں بیباکی اور بےحیائی پھیلانے کی قصور وار ہو رہی ہے۔

اگر ہم پاکستان کے مختلف شیلٹر ہومز کا دورہ کریں اور وہاں پناہ لینے والی خواتین کا جائزہ لیں تو پاکستانی معاشرے اور پاکستانی مرد کی غیرت، حیا اور عزت کا پول کھل جاتا ہے۔ کتنی بیوائیں، بیویاں، بہنیں اور مائیں معاشی مسائل کی وجہ سے گھرانوں میں ظلم و تشدد کا شکار ہونے کی وجہ سے مجبوراً یہاں پناہ لینے پرمجبورہوتی ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کو قانونی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی پہلی وجہ مرد وکلاء کی فطرت کے خلاف کی گئی، تربیت اور دوئم قانون کی بے رحمی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کا براحال اور اس حوالے سے ہر شخص کی شریعت کی اپنی تشریحات ناقابل فہم ہیں۔عورت ہی اگر اپنی عقل سے کام لے تو شاید تباہی سے بچ جائے۔ ورنہ یہ نظام ہم کو یہ کہنے پر مجبور کرتاہے کہ عورت ری عورت کیا تیری عقل اب بھی گھاس چرنے گئی ہوئی ہے، اسے واپس بلا لے ایسا نہ ہو کہ وہی بھائی، بیٹا، باپ یا شوہر جس کو وہ کسی اور عورت کے خلاف استعمال کر رہی ہے، خود اس پر ہی تشدد کرے اور وہ قانون اور مرد ذات میں اسی انسانیت کا مطالبہ کرے جو دارلامان جیل خانوں میں اور گھریلو جیل خانوں میں مقید خواتین کر رہی ہیں۔

تازہ ترین