• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماجد نظامی

حافظ شیراز قریشی، عبداللہ لیاقت

فیض سیفی، وجیہہ اسلم

پنجاب میں تبدیلی :مگر کیسے؟

ملکی سیاست میں صوبہ پنجاب کو عام انتخابات میں ہمیشہ سے ہی کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ اس صوبہ میںنو ڈویژنز ،36اضلاع اور بنیادی طور پر اسے تین حصوں(پوٹھو ہار، سینٹرل پنجاب ،جنوبی پنجاب) میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 148نشستیں تھیں جو سات نشستوں کی کمی کیساتھ اب141 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 297سیٹیں ہیں۔ یہاں کے ووٹرز کا تاریخی رجحان دیکھاجائے تو یہ عموماً برادری، دھڑے بندی اورسیاسی ’’ہوا‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ یہ پنجابی ووٹر کبوتر کی طرح بنیرے یا دیوار پر بیٹھا رہتاہے اور جہاں دانے دنکے کی بہار دیکھتا ہے ادھر اڑ جاتا ہے۔ یہاں کا رائے دہندہ بھی باقی صوبوں کی طرح اپنا ووٹ ممکنہ طور پر پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو دیتاہے اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ اگر امیدوار کامیاب نہ ہو تو ووٹر اپنا ووٹ ضائع سمجھتا ہے۔ اسی لئے پنجاب میں تیسری پارٹی کا تصور مقبول نہیں ہوسکا.یہاں نظریاتی ووٹرز کے ساتھ ساتھ مذہبی رجحان رکھنے والا ووٹر بھی موجود ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں دیکھا جائے تو مذہبی اور ’’ہوائی‘‘ ووٹرز کا فیصلہ ایک تھا اور عام طور پر ان کا امیدوار بھی مشترکہ تھا جبکہ حالیہ انتخابات میں اس کے برعکس صورتحال دیکھنے میں آئی۔ اس بارمذہبی اور یکی سیاسی کومٹ منٹ نہ رکھنے والے ہوائی ووٹر ز نے جہاں اپنا امیدوار الگ کرلیا وہیں اس کا نقصان ماضی کے مشترکہ امیدوار وں کو ہوا جو پہلے ان کے ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو جاتے تھے۔

2018ء کے الیکشن کی بات کی جائے تو پنجاب میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی ہے۔ اس بار کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی سب سے زیادہ 61نشستیں لیکر پہلے ،ن لیگ60 نشستیں لیکر دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی6 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ق لیگ چار، عوامی مسلم لیگ ایک جبکہ سات آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ دو نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے۔ 2013ء میں ن لیگ133 نشستوں کیساتھ پہلے، پی ٹی آئی پانچ نشستیں لیکر دوسرے اور پیپلزپارٹی تین سیٹیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہی۔ ق لیگ2 ،عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ضیاء ایک ،ایک جبکہ تین آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

دونوں انتخابات کا تقابل کیاجائے تو ن لیگ اپنی 55فیصد نشستیں کھوچکی ہے جبکہ تحریک انصاف نے پانچ کے مقابلے میں اب 61نشستیںحیران کن (1200فیصد اضافہ)حاصل کیں۔پی پی پی نے 3 کے مقابلے میں 6 جبکہ ق لیگ نے بھی 2کے مقابلے میں 4نشستیں حاصل کیں۔ یعنی دونوں نے کم ہی سہی مگر اپنی نشستیں دوگنا کرلیں۔

اسی طرح اگر ووٹوں کا تقابل کیاجائے تو حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی صوبہ پنجاب سے سب سے زیادہ ایک کروڑ 17لاکھ 9ہزار 358 ووٹوں کیساتھ پہلے، ن لیگ ایک کروڑ 13لاکھ 97ہزار541 دوسرے جبکہ پیپلزپارٹی 22لاکھ 19ہزار664 ووٹوں کیساتھ تیسری سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور صرف پنجاب سے 16لاکھ90 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ 2013ء میںن لیگ ایک کروڑ11 لاکھ ووٹ لیکر پہلے، پی ٹی آئی 45لاکھ 3ہزار 73ووٹوں کیساتھ دوسرے اور پی پی پی 25لاکھ 18ہزار924 تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ق لیگ نے 16لاکھ 88 ہزار 985ووٹ حاصل کئے۔

دونوں عام انتخابات کاجائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف نے اپنے ووٹوں میں قریباً150فیصد اضافہ کیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بظاہر ن لیگ کے ووٹوں میں ماضی کے مقابلے میں صرف دو لاکھ کی معمولی کمی ہوئی لیکن ان کی نشستوں میں 55فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی میں نئی مذہبی جماعتوں اور ووٹر لسٹوں میں نئے ووٹرز کا شامل ہونا اہم ہے۔ پی پی پی کے ووٹوں میں 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں تین لاکھ کی کمی ہوئی لیکن ان کی نشستوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ ق لیگ نے 2013ء میں 16لاکھ ووٹ حاصل کرکے صرف دونشستیں حاصل کیں جبکہ حالیہ انتخابات میں صرف 5لاکھ 17ہزار 403 ووٹ لیکر ق نشستیں لیکر کامیاب ہوئی۔

تجزیہ کیاجائے تو ن لیگ کی پنجاب میں کم نشستوں اور تحریک انصاف کی پہلے سے زیادہ اور حیران کن کامیابی کی وجوہات میں نواز شریف اور ان کی جماعت کیخلاف عدالتی فیصلوں، انتخابی گھوڑوں (Electables) کا وفاداریاں بدلنا اور سب سے بڑھ کر یہ تصور کہ اب ن لیگ کی حکومت نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت آئے گی ،نے ووٹوں کے رجحانات کو یکسر تبدیل کردیا اور تحریک انصاف میں150 فیصد ووٹوں کا اضافہ کیا لیکن اس اضافے نے تحریک انصاف کو کرسی اقتدار پر بٹھا دیا۔

پوٹھوہارتحریک انصاف کا غلبہ اور ن لیگ کا صفایا پوٹھوہار ریجن راولپنڈی ڈویژن، چار اضلاع (راولپنڈی، اٹک ،جہلم اور چکوال) قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کے 27حلقوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں یہاں قومی اسمبلی کی14 نشستیں تھیں جو اب13 ہیں۔پچھلے تین جنرل الیکشنز کا جائزہ لیا جائے تو اسے ن لیگ کا گڑھ کہانے کا مستحق تھا۔ حالیہ انتخابات میں ن لیگ کو یہاں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ الیکشن نتائج کے مطابق تحریک انصاف 9،پی پی پی ،عوامی مسلم لیگ اور ق لیگ نے ایک ،ایک نشست حاصل کی ۔ایک نشست پر انتخابات نہیں ہو سکے۔ 2013ء میں ن لیگ یہاں سے 10نشستوں کیساتھ پہلے، پی ٹی آئی 2 نشستوں کیساتھ دوسرے جبکہ عوامی مسلم لیگ ایک اور ایک آزاد ایم این اے منتخب ہوا۔ دونوں الیکشن کا تقابل کیاجائے تو ن لیگ جو ماضی میں یہاں حکمران رہی ،اب کی بار پوٹھو ہار کی ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی۔ پی ٹی آئی نے یہاں سے کلین سویپ کیا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر اس علاقے پر فتح کے جھنڈے گاڑدئیے۔ ووٹوں کے اعتبار سے دیکھاجائے تو حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی11 لاکھ 97ہزار 29ووٹوں کیساتھ سر فہرست رہی۔ ن لیگ 9لاکھ 26ہزار 176ووٹوں کیساتھ دوسرے، پیپلزپارٹی 2لاکھ 33ہزار917 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہی۔ قابل ذکر بات ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے 2لاکھ 64ہزار873ووٹ لئے۔ اٹک اور راولپنڈی تحریک لبیک کے مضبوط گڑھ تصور ہوتے ہیں علامہ خادم حسین رضوی کا تعلق ضلع اٹک سے ہے جبکہ ممتاز قادری راولپنڈی کے رہائشی تھے۔ 2013ء میں یہاں سے ن لیگ نے 13لاکھ 78ہزار842 ووٹ لئے۔ تحریک انصاف 7لاکھ 80ہزار935 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن جبکہ ق لیگ 2لاکھ 14ہزار 153ووٹوں کیساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔

دونوں انتخابات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پوٹھو ہار کے علاقہ میں تحریک انصاف کے ووٹوں میں قریباً 5 لاکھ کا اضافہ ہوا اور وہ ن لیگ کے قلعہ سے اس کی تمام نشستیں لے اڑی۔ اسی طرح ن لیگ کے ووٹوں میں قریباً چار لاکھ کی کمی ہوئی لیکن وہ ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں ہوسکی ۔اس ریجن میں ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں قابل ذکر کمی بیشی نہیں ہوئی۔

وسطی پنجاب:ن لیگی قلعہ اور فیصل آباد کا شگاف

سینٹرل پنجاب پانچ ڈویژنز،( لاہور،گوجرانوالہ ، فیصل آباد،سرگودھااور ساہیوال) 21اضلاع ،قومی اسمبلی کے 82اور صوبائی اسمبلی کے 175حلقوں پر مشتمل ہے۔2013ء میں یہاں قومی اسمبلی کی91 سیٹیں تھیں جو عام انتخابات 2018ء میں نو نشستوں کی کمی کے ساتھ 82 رہ گئی ہیں۔گزشتہ انتخابات ن لیگ کے مرکز میں حکومت بنانے میں سب سے اہم کردار سینٹرل پنجاب کی نشستوں کارہا۔

2018ء کے نتائج کے مطابق ن لیگ مجموعی طور پرالیکشن میں دوسری پوزیشن پر آنے کے بعدبھی اس ریجن میں اکثریتی پارٹی کے طورپر سامنے آئی ہے۔ وسطی پنجاب میں ن لیگ 49 نشستوں کے ساتھ سر فہرست، پی ٹی آئی 28سیٹیں لیکر دوسرے جبکہ دو ق لیگ اور دو آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔ ایک نشست پر انتخابات نہیں ہو سکے۔

2013ء میں صورتحال یکسر مختلف تھی اور تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ91 میں سے 88نشستیں لینے والی سیاسی جماعت اگلے الیکشن میں مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آئے گی۔2013ء پی ٹی آ ئی پورے وسطی پنجاب سے صرف 2 سیٹیں لے پائی تھی جبکہ ق لیگ ایک نشست پر کامیاب ہوسکی تھی۔2008ء میں بھی ن لیگ کے 48،پیپلزپارٹی کے 26، ق لیگ کے 14اور تین آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔

تینوں عام انتخابات کا تقابل کیاجائے تو 2013ء میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی اب سینٹرل پنجاب سے بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ماسوائے راجہ پرویز اشرف کی نشست کے کہیں اچھا مقابلہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ 2013ء کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز دوبار 2008ء کی پوزیشن میں پہنچ چکی ہے۔ 2008ء میں ن لیگ کی48 نشستیں تھیں اور 2018ء میں 49سیٹیں ہیں۔ تحریک انصاف کو حوصلہ افزا کامیابی ملی ہے جو گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں حیران کن ہے۔

ووٹوں کے اعتبار سے دیکھاجائے تو حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی 70لاکھ 24ہزار لیکر سر فہرست رہی جبکہ 2013ء میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی تعداد 21لاکھ 81ہزار843 تھی۔یوں سینٹرل پنجاب میں تحریک انصاف نے 50لاکھ اضافی ووٹ حاصل کئے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ وسطی پنجاب میں ن لیگ کے 2013کے مقابلے میں اس بارقریباً 17لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا لیکن انکی نشستوں میں39 سیٹوں کی کمی ہوئی۔2018ء میں ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد 78لاکھ 29ہزار 650ہے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 61لاکھ49 ہزار504 تھی۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں کوئی قابل ذکر اضافہ یا کمی نہیں ہوئی۔ اس بار مذہبی ووٹ بینک نے بھی اس ریجن سے اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کئے۔ تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور وسطی پنجاب11 لاکھ 9ہزار374 ووٹ حاصل کئے ۔

جنوبی پنجاب :بدلتی وفاداریوں کا علاقہ

جنوبی محاز کی تشکیل کے بعد نہ صرف جنوبی پنجاب کی اہمیت میںمزید اضافہ ہوا بلکہ تحریک انصاف کی کامیابی کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے انتخابی گھوڑے ہمیشہ سے حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرتے نظرآئے ہیں۔ اس ریجن میں موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میں ماضی کی نسبت 19لاکھ کا اضافہ ہو جبکہ مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں 9لاکھ کی کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں 3لاکھ کی کمی ہوئی مگر نشستیں بڑھ گئیں۔

ریجن جنوبی پنجاب 3ڈویژنز اور 11 اضلاع پر مشتمل ہے جسکی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 46جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 95 ہے۔اس ریجن میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی وصوبائی اسمبلی کی3,3 نشستوں کا اضافہ ہوا۔قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 43سے بڑھ کر 46جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 92سے بڑھ کر 95ہوگئی ہے۔2018ء انتخاب کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے34 لاکھ88 ہزار 250ووٹ حاصل کئے اور اسکی حاصل کردہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 24 ہے۔ ماضی کی نسبت تحریک انصاف کے ووٹوں میں قریباً19لا کھ اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں23 سیٹوں کا اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ ن کی نشستوں کی تعداد 11ہے اور حاصل کردہ ووٹ 26 لاکھ 31ہزار760 ہے۔پیپلزپارٹی نے 11 لاکھ 83ہزار605حاصل کئے اور حاصل کردہ نشستوں کی تعداد5 ہے۔آزاد حیثیت سے میدان میں اترنے والے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 5نشستیں حاصل کی جبکہ ق لیگ صرف 1نشست حاصل کرسکی۔پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت تحریک لبیک گو کہ کوئی نشست حاصل نہ کر پائی لیکن یہاں کافی تعداد میں ووٹوں حاصل کرنے میں کامیاب نظر آئی۔

ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جنوبی پنجاب میں بہت سے برج الٹ گئے۔ ان امیدواروں میں وہ امیدوار بھی شامل ہیں کہ جن کی شکست کا اندازہ تک نہیں لگایا جاسکتا لیکن عوامی رائے نے انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ جنوبی پنجاب کا ایک بڑا اپ سیٹ کھوسہ قبیلہ کے سردار، ذوالفقار خان کھوسہ جو پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ امیدوار تھے انکو پہلے کامیاب قرار دیا گیا لیکن دوبارہ گنتی میں شکست کھا گئے، انہیں آزاد امیدوار جن کا تعلق کھوسہ قبیلہ سے ہی ہے امجد فاروق کھوسہ نے شکست دی ہے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ 1951ء سے پارلیمانی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں اور امجد فاروق کھوسہ ماضی میں ذوالفقار کھوسہ کے حلیف اور حریف دونوں رہے ہیں۔ڈیرہ غازی خان میں لغاری سرداروں کا ہمیشہ سے بول بالا رہا ہے اور یہاں امیدوار ان کے مدمقابل آنے سے بھی کتراتے تھے مگر اس بارسردار فاروق لغاری کے دونوں صاحب زادے سردار اویس لغاری اور سردار جمال لغاری اسمبلی میں جگہ بنا نے میں ناکام رہے۔ حتیٰ کہ انکے ہی نامزد امیدوار شہباز شریف بھی شکست کا شکار ہوئے۔2013 میں مسلم لیگ ن حکمران جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کی واضح اکثریتی جماعت بھی تھی۔ ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد 35لاکھ72ہزار960،جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 24تھی۔ 2018میں یہ تعداد 24نشستوں کی کمی کے ساتھ11 ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف نے 2013میں اس ریجن سے صرف 1نشست حاصل کی تھی اور اسکے ووٹوں کی تعداد 15لاکھ 40ہزار 295 تھی۔ پیپلزپارٹی نے گزشتہ انتخاب میں 14 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اور نشستوں کی تعداد 3تھی۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ موجودہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ووٹ گزشتہ انتخاب سے کم ہونے کے باوجود نشستوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جیسا کہ 2013میں پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 14 لاکھ 65ہزار 509جبکہ نشستوں کی تعداد 3تھی۔2018 میں ووٹوں کی تعداد کم ہو کر 11لاکھ 83ہزار605 ،جبکہ نشستوں کی تعداد اضافہ کے ساتھ5 ہو گئی۔

2013 کے الیکشن میں ق لیگ کے ووٹوں کی تعداد 9لاکھ96ہزار798 جبکہ حاصل کردہ نشست 1ہے۔2013میں مسلم لیگ ضیاء کی نشست 1جبکہ آازاد امیدوارں کی تعداد 2تھی۔

صوبہ سندھ

صوبہ سندھ میں 2018ء عام انتخابات کے نتائج کے مطابق اندرون سندھ(دیہی) پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد میں اضافے کی بدولت سرفہرست رہا جبکہ شہری سندھ کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں نے کثیر تعداد میں کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ صوبہ سندھ میں 6ڈویژنز(حیدر آباد،کراچی ،لاڑکانہ، میرپور خاص ،شہید بینظیر آباد اور سکھر) اور 29اضلاع ہیں اور بنیادی طور پر اسے دو حصوں(دیہی سندھ، شہری سندھ )میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد صوبہ سندھ کی قومی اسمبلی میں61 نشستوں میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا جبکہ صوبائی اسمبلی کی 130نشستیں ہیں۔ سندھ کی انتخابی سیاست میں دو طرح کے فیکٹرز پائے جاتے ہیں۔ایک فیکٹر ’بھٹو‘سندھی قوم کی پہچان اور دوسرا’بانی متحدہ ‘مہاجروں کی پہچان یہ دونوں فیکٹرز سندھ میںانتخابی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں اور دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی کے مخالف بننے والے اتحادیوں (جی ڈی اے اور آزاد) امیدواروں میں مقابلہ دیکھنے کو ملا جبکہ شہری سندھ (کراچی اور حیدرآباد) میں متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار اور دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم کے مخالف اتحاد متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں میں ہی کانٹے کامقابلہ دیکھنے میں آتاتھا۔

2018ء کے انتخابات میں دیہی اور شہری سندھ کے شخصی فیکٹرز اور ووٹرز کے بدلتے ہوئے رجحانات کے بارے میں ایک دلچسپ اور حقائق پر مبنی رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔

2018ء کے عام انتخابات کی بات کی جائے تو اس سندھ میں حیرت انگیز صورتحال دیکھنے میں آئی ہے۔ اس بار قومی اسمبلی میںپارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی سب سے زیادہ 36نشستیں لیکر پہلے، پی ٹی آئی15 نشستیں لے کر دوسرے جبکہ ایم کیو ایم6 نشستیں لے کر تیسرے نمبر پر رہی۔ جی ڈی اے کے 2اور 2آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی35 نشستوں کےساتھ پہلے، ایم کیو ایم 19 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور فنکشنل لیگ 4 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور نیشنل پیپلزپارٹی 1،1،1 نشست لینے میں کامیاب رہیں تھیں۔

صوبہ سندھ کے دونوں عام انتخابات کا تقابل کیا جائے تو پیپلزپارٹی کی صرف ایک نشست میں اضافہ ہوا جبکہ تحریک انصاف 1 کے مقابلے میں 15نشستیں(24فیصد اضافہ) لینے میں کامیاب ہوئی ہے جوکہ سندھ کی شہری انتخابی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے۔ایم کیو ایم 2013ء میں قومی اسمبلی کی 13 نشستوں کے مقابلے میں صرف اس بار صرف6نشستیں(31فیصد کمی) لینے میں کامیاب رہے۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی نشستوں میں اضافہ اور کمی کی وجہ شہری سندھ (کراچی ،حیدرآباد) میںشخصی فیکٹر اور سیاسی جماعتوں کی دھڑے بندیاں نمایاں ہیں۔ یم کیو ایم کی نشستوں میں کمی کی دوسری وجہ کراچی میں ایک نئی جماعت ’پی ایس پی ‘کے سربراہ سابق ضلعی ناظم کراچی’ مصطفی کمال‘ کی ایم کیو ایم کے انتخابی امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا بھی ہے۔پی ایس پی نے ایم کیو ایم کے انتخابی گھوڑوں کی پارٹی میں شمولیت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو تقسیم کر دیا تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں فنکشنل لیگ نے4 نشستوں کے مقابلے میں ’جی ڈی اے‘ اتحاد ہونے کے باوجود صرف 2نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی۔یوں جی ڈی اے کے غباروں سے ہوا نکل گئی۔

2018ء کے انتخابات میں سندھ میں پیپلزپارٹی کے مخالفیں نے بڑے دعوں کے ساتھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے)اتحاد بنایا۔ جی ڈی اے اتحاد کی سربراہی پیر پگاڑا کے ہاتھ میں تھی۔ جی ڈی اے میں جتنے بڑے نام تھے اتنی بھی کامیابی حصے میں نہ آئی۔

اسی طرح اگر ووٹوں کا تقابل کیا جائے تو بھی دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی ہے۔حالیہ انتخابات میںپیپلزپارٹی صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ 38لاکھ 71ہزار149ووٹوں کے ساتھ پہلے،پی ٹی آئی 16 لاکھ99ہزار371ووٹوں کے ساتھ دوسرے، جی ڈی اے11لاکھ36ہزار711ووٹوں کے ساتھ تیسری سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی جبکہ ایم کیو ایم 5لاکھ54ہزار2ووٹوں کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر آئی۔ تحریک لبیک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ میں 4لاکھ18ہزار9ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

2013ء میں دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی 44 لاکھ 68ہزار853ووٹ لے کر پہلے،ایم کیو ایم 24لاکھ6ہزار78 0ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور فنکشنل لیگ9 لاکھ 94 ہزار785 ووٹ لے کر صوبے میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ پی ٹی آئی نے 8لاکھ 52ہزار 21ووٹ اور ن لیگ نے 4لاکھ 96ہزار 197 ووٹ حاصل کئے تھے۔دونوں عام انتخابات میں سندھ کی سیاسی جماعتوں کے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے توپاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میںدو گنا اٖضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں ماضی کے مقابلے میں 6لاکھ کی کمی واقع ہوئی جبکہ قومی اسمبلی میں اسکی نشستوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

دیہی سندھ پیپلزپارٹی کا گڑھ

دیہی سندھ ریجن چار ڈویژنز (لاڑکانہ، سکھر، شہید بینظیر آباد،حیدر آباد سٹی کے علاوہ)22 اضلاع جبکہ قومی اسمبلی کی37اور صوبائی اسمبلی کی80حلقوں پر مشتمل ہے۔2013اور 2008ء کے عام انتخابات میں دیہی سندھ کی 38نشستیں تھیں۔دیہی سندھ کی اگر ماضی میں انتخابی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو دیہی سندھ کوپیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ حالیہ انتخابات میں پیپلزپارٹی نے32نشستوں کے ساتھ پہلے نمبرپر، جی ڈی اے 2نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ آزاد امیدواروں نے بھی 2نشستیں حاصل کیں ہیں۔دیہی سندھ میں پی ٹی آئی صرف 1 نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی 32نشستوں کے ساتھ پہلے ،فنکشنل لیگ4 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ ن لیگ اورنیشنل پیپلزپارٹی نے 1،1 نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔جی ڈی اے کی ناکامی کی بنیادی وجہ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی ایک دہائی سے ترقیاتی کام کروانا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام نے پیپلزپارٹی کو اپنی پسندیدہ جماعت قرار دیا۔

شہری سندھ متحدہ ’آوٹ ‘پی ٹی آئی کی’ انٹری‘

شہری سندھ 1ڈویژن (کراچی اور حیدر آباد کے تین حلقے شامل ہیں)7 اضلاع (کراچی وسطی، کراچی شرقی،کراچی غربی،کراچی جنوبی،ملیر ،کورنگی اور حیدر آباد)،قومی اسمبلی کی 24اور صوبائی اسمبلی کی50 حلقوں پر مشتمل ہے۔مجموعی طور پرنئی حلقہ بندیوں کے بعدیہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہوا ہے۔ 2018ء انتخابات میں شہری سندھ میں پی ٹی آئی14نشستوں کے ساتھ سر فہرست،ایم کیو ایم 6 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پیپلزپارٹی 4قومی اسمبلی کی نشستوںکے ساتھ تیسرے نمبر پر آئیں ہیں۔ شہری سندھ میں پی ٹی آئی ایک مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔2013ء کے عام انتخابات میں صورتحال یکسر مختلف تھی،ایم کیوایم 19نشستوں کے ساتھ پہلے،پیپلزپارٹی3نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پیپلزپارٹی 1نشست کے ساتھ تیسرے نمبرپر تھی۔ دونوں انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی نشستوں کا تقابل کیا جائے تو پی ٹی آئی نے متحدہ قومی مومنٹ کو کراچی سے آوٹ کر دیا ہے اس کی بڑی وجہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی اور پی ایس پی جماعت کا ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنا ہے۔پیپلزپارٹی کی دونوں انتخابات میں پوزیشن مستحکم رہی جبکہ پیپلزپارٹی کو شہری سندھ میں سب سے بڑا دھچکا لیاری جو پیپلزپارٹی کی مضبوط نشست سمجھی جاتی تھی پر بلاول بھٹو کی ناکامی سے لگا۔2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں 2018ء میں پیپلزپارٹی کی شہری سندھ میں ایک قومی اسمبلی کی نشست میں اضافہ ہو ا ہے۔

ووٹوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو 2018ء کے عام انتخابات میںپی ٹی آئی 11لاکھ 20ہزار 546ووٹوں کی ساتھ شہری ووٹوں میں سر فہرست، ایم کیو ایم 5لاکھ43ہزار270ووٹوں کے ساتھ دوسرے،پیپلزپارٹی 4لاکھ1ہزار425ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحریک لبیک نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا مگر اس نے شہری سندھ میں پیپلزپارٹی کے ووٹوں کے قریب قریب 4لاکھ1ہزار425ووٹ حاصل کئے۔ مسلم لیگ ن نے2لاکھ64ہزار974ووٹ حاصل کئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میںایم کیو ایم22 لاکھ 39ہزار577ووٹوںکےساتھ پہلے،پی ٹی آئی 6لاکھ66ہزار724ووٹوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی 4لاکھ20ہزار482ووٹوں کے ساتھ کے ساتھ تیسرے نمبر پرآئی تھی۔

ووٹوں کا تقابل کیا جائے توپی ٹی آئی کے ووٹوں میں 5لاکھ کا بہت بڑااضافہ ہوا اور یہی اضافہ پی ٹی آئی کی14 نشستوں پر کامیابی کا باعث بھی بنا۔ پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں کو خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی البتہ انکی ایک نشست میں اضافہ ضرور ہوا۔شہری سندھ میں ایم کیوا یم کے ووٹوں میں 18لاکھ کی نمایاں کمی ہوئی جبکہ پیپلزپارٹی 3سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ شہری سندھ میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کیلئے اتحاد ہو گیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی برتری

صوبہ خیبر پختونخوا سات ڈویژنز (پشاور، مالاکنڈ، ہزارہ ،بنوں ،کوہاٹ، مردان ،ڈیرہ اسماعیل خان)، 25 اضلاع، قومی اسمبلی کے39 اور صوبائی اسمبلی کے 99حلقوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں خیبر پی کے کی 35نشستیں تھیں جواب چار نشستوں کے اضافے کے بعد 39کر دی گئی ہیں۔ عام انتخابات 2018ء میں یہاں گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں بڑی سیاسی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ماضی میں دیکھا جائے تو یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت مسلسل اکثریت حاصل نہیں کر پائی یو ں پہلی بار یہاں سے پی ٹی آئی دوسری بار اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ پی ٹی آئی کی کے پی کے میں دوبارہ اکثریتی جماعت جماعت کے طور پر سامنے آنے میں بہت سے عناصر شامل ہیں جنہوں نے ووٹرز کو اپنی جانب مائل کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں میں پی ٹی آئی نے پانچ سال حکومت کی اور 2018ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم میں بہتری کا تاثر دیا گیا جن میں تعلیم، پولیس، سیاحت اور صحت میں بہتری کو سامنے لایا گیا۔ پختونخوا معاشرے میں داکٹر اور ٹیچر بہت اہم ہیں ان کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ گیا۔عوام کے معیار زندگی میں جہاں بہتری ہوئی وہیں محکمانہ کرپشن کو سامنے لایا گیا اور اس میں بھی خاطر خواہ کمی لائی گئی ۔پی ٹی آئی کی الیکشن میں کامیابی کی بنیادی وجہ یہاں صحت اور تعلیم پر مناسب توجہ دی گئی۔

2018ء کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے 39میں سے30 نشستیں حاصل کیں اور سر فہرست قرار پائی۔ایم ایم اے چار نشستوں کیساتھ دوسرے، ن لیگ 3سیٹوں کیساتھ تیسرے جبکہ ایک نشست پر اے این پی اور ایک پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔

2013 ء میں پی ٹی آئی17 سیٹوں کیساتھ پہلے، ن لیگ 6نشستوں کیساتھ دوسرے ،جے یو آئی ایف 4نشستیں لیکر تیسرے ،جماعت اسلامی3 اور اے این پی 2 سیٹیں لے سکی۔ قومی وطن پارٹی، عوامی جمہوری اتحاد پاکستان ،اور اے پی ایم ایل نے ایک، ایک نشست حاصل کی ۔

دونوں عام انتخابات کا جائزہ لیاجائے توتحریک انصاف نے اس بار 13اضافی نشستوں کیساتھ39 قومی نشستوں کا77فیصد حاصل کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ملا کر سات نشستیں بنتی تھیں۔ حال ہی میں بننے والے مذہبی اتحاد ایم ایم اے میں یہاں نشستوں میں اضافے کی بجائے مزید کمی ہوگئی اور سات کی بجائے انکی چار نشستیں رہ گئی ہیں۔مذہبی جماعتوں کےقائدین جن میں مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق شامل ہیں، یہاں سے کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اسی طرح اے این پی کے اسفند یار ولی اور قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پائو بھی اسمبلی میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے۔جنرل الیکشن 2018ء کی بات کی جائے تو یہاں کے ووٹرز نے سب سے زیادہ پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیاہے۔ 26 لاکھ 39ہزار66 ووٹ لیکر تحریک انصاف پہلے، ن لیگ 8لاکھ 39ہزار373 ووٹوں کیساتھ دوسرے اور پیپلزپارٹی 5لاکھ 14ہزار517 ووٹوں کیساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ 2013ء کے ووٹوں میں پی ٹی آئی 15لاکھ 62ہزار918 ووٹ ،ن لیگ9 لاکھ 23ہزار 870، جے یو آئی ایف 9لاکھ 58 ہزار 739، پیپلزپارٹی 3لاکھ 96ہزار اور جماعت اسلامی 3لاکھ 77ہزار247 ووٹ حاصل کر سکی۔ دونوں انتخابات کے ووٹوں کا تقابل کیا جائے تو پی ٹی آئی کے ووٹوں میں قریباً11لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ ن لیگ کے ووٹوں میں قریباً ایک لاکھ کی کمی ہوئی جس کا نقصان انکو تین نشستوں کی شکست کی صورت میں ملا۔

پشاور ویلی میں کیا تبدیلی آئی؟

پشاور ویلی 6ڈویژنز (پشاور،مالاکنڈ،بنوں، کوہاٹ، مردان ،ڈیرہ اسماعیل خان)،19اضلاع، 32قومی اسمبلی کے حلقے اور 81صوبائی حلقوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں یہاں 28 نشستیں تھی جو چار سیٹوں کے اضافے کیساتھ اب 32 ہیں۔اس ریجن میں بھی پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں پی ٹی آئی یہاں سے 16 نشستیں لے سکی تھی جو اب اضافے کیساتھ27 ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایم ایم اے تین سیٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور 2013ء میں بھی اسکی تعداد یہی تھی۔ ن لیگ کی حالیہ اور گزشتہ انتخاب میں ایک ہی نشست ہی تھی۔ اے این پی نے موجودہ الیکشن میں ایک جبکہ 2013ء میں دو نشستیں حاصل کیں۔

2008ء کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی یہاں سے نو نشستوں پر کامیاب تھی لیکن اب یہاں اسکی ایک بھی نشست باقی نہیں۔ ایم ایم اے 2008ء میں یہاں سے 4نشستوں پر کامیاب ہوئی لیکن دس سال بعد یہاں سے صرف تین نشستیں لے پائی ۔یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے سے یہاں کا ووٹر زیادہ متاثر نہیں دکھائی دیتا۔اسی طرح اگر گزشتہ دو عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے توپی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں قریباً 10لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ن لیگ کے ووٹ بینک میں قریباً 4لاکھ کی کمی ہوئی ۔پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں قریباً ایک لاکھ ووٹوں کی کمی دیکھنے میں آئی۔

ہزارہ ڈویژن میں کیا کچھ بدلا؟

ہزارہ ریجن ہزارہ ڈویژن کے چھ اضلاع ایبٹ آباد، ہری پور،مانسہرہ ،تورغر،بٹگرام اور کوہستان پر مشتمل ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کی سات جبکہ صوبائی اسمبلی کی 18نشستیں ہیں۔اس ریجن میں 2013 اور 2018ء کی نشستوں میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا۔ یہ ریجن ماضی میں ن لیگ کا اکثریتی علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ گزشتہ دو انتخابات میں یہاں سے ن لیگ اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔حالیہ عام انتخابات

میں یہاں کے ووٹرز نے اپنے رجحان میں تبدیلی کی اور پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ۔پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں 3،ن لیگ کے 2 ،ایک ایم ایم اے جبکہ ایک آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں پہنچ سکا۔2013ء میں ن لیگ 5،پی ٹی آئی1 اور جے یو آئی ایف کا ایک امیدوار کامیاب قرار پایا۔2008 ء میں مخلوط صورتحال دیکھنے میں آئی جس میں ن لیگ 3،ق لیگ 2 جبکہ ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی کا ایک ،ایک امیدوار کامیاب ہوا۔

2018ء اور2013ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو ن لیگ کی نشستوں میں تین کی کمی، پی ٹی آئی کی سیٹوں میں دو نشستوں کا اضافہ جبکہ ایم ایم اے کی ایک ہی نشست رہی۔ یہاں ووٹوں کے رجحان کی بات کی جائے تو حاصل کردہ نشستوں کی طرح ووٹنگ ٹرینڈ بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ووٹوں میں ایک لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ اس کی ایک نشست میں بھی اضافہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے ن لیگ کے ووٹوں میں بھی قریباً تین لاکھ کا اضافہ ہوا لیکن اسکی نشستیں 2013ء کے مقابلے میں دو نشستیں کم ہوئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں 35ہزار کی کمی ہوئی اور وہ کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی۔ یوں ن لیگ یہاں سے ماضی کے مقابلے میں اپنا زور کھو بیٹھی ہے۔

صوبہ بلوچستان:پارٹی پوزیشن

بلوچستان میں عام انتخابات کا مرحلہ گزر گیا۔ موجودہ انتخابات میں بلوچستان میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے اور حیران کن نتائج حاصل ہوئے، جیسا کہ نوآموز جماعت عوامی پارٹی بڑی ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ماضی کی نسبت بی این پی مینگل کی پوزیشن بھی مستحکم نظر آئی۔ صوبہ میں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کا تو مکمل طور پر صفایا ہو گیا ۔بلوچستان 6ڈویژنز اور 34اضلاع پر مشتمل ہے ۔گزشتہ انتخابات کی حلقہ بندی کے مطابق قومی اسمبلی کی 14اورصوبائی اسمبلی کی 51 نشستیں تھیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 16ہوگئی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔صوبہ بلوچستان کو بنیادی طور پر 2ریجنز (شمالی اور جنوبی)میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔

2018 کے انتخابات کی بات کی جائے تو سیاسی صورتحال ماضی کی نسبت کافی مختلف نظر آئی موجودہ انتخابات میں مختلف جماعتوں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹوں اور پارٹی پوزیشن کے مطابق متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ 5نشستیں حاصل کیں اور پہلے نمبر پر اپنی جگہ بنائی، نووارد بلوچستان عوامی پارٹی نے 4نشستیں حاصل کی اور دوسرے، بی این پی 3نشستوں کے ساتھ تیسرے جبکہ پی ٹی آئی2نشستوں کے ساتھ چوتھے پر رہی۔ آزاد امیدواراور جمہوری وطن پارٹی نے قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست حاصل کی۔

2013 کے انتخابات کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو ماضی کی برسراقتدار جماعت پختوانخوا ملی عوامی پارٹی قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی جبکہ2013 کے انتخابات میں انکی نشستوں کی تعداد 2 تھی۔ 2013 میں مسلم لیگ ن 4نشستوں کے ساتھ ایک اہم نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن موجودہ انتخابات میں حیرت انگیز طور پر قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کر پائی۔ نیشنل پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں 2 نشستیں حاصل کیں لیکن موجودہ انتخابات میں سیاسی منظر نامے سے یکسر غائب ہوگئی۔ موجودہ انتخابات میں ایم ایم اے کا حصہ بننے والی جے یو آئی ف نے گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 4 نشستیں حاصل کیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی گزشتہ انتخابات میں 1نشست کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نظر آئی لیکن موجودہ انتخابات میں ایک بھی نشست حاصل نہ کر پائی۔2013کے انتخاب کی طرح موجودہ انتخاب میں بھی 1آزاد امیدوار نے قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنائی۔

صوبہ بلوچستان:ریجن شمالی

ریجن شمالی انتظامی تقسیم کے لحاظ سے 2 ڈویژنز اور 9اضلاع پر مشتمل ہے۔اس ریجن کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد4جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد13ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعدشمالی ریجن کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوںمیں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ موجودہ انتخاب میں اس ریجن میں بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی 1جبکہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی ایم ایم اے نے 3نشستیں حاصل کی۔اس ریجن میں زیادہ تر پشتون آبادی ہے۔2013کے انتخابات کا موازنہ کیا جائے تو ماضی میں اس ریجن سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے1سیٹ حاصل کی لیکن موجودہ انتخاب میں قومی اسمبلی میں جگہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ حتیٰ کہ پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی بھی اپنی نشست کھو بیٹھے۔ جے یو آئی ف نے2013 میں یہاں سے3 نشستیں حاصل کیں۔2008کی انتخابات کو دیکھا جائے تو موجودہ صورحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے جیسا کہ ق لیگ ماضی میں 1نشست سے یہاں اپنی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ دوحکومتی ادوار میں اس جماعت کا نام و نشان موجود نہیں ۔2008میں بھی مذہبی جماعتیں اتحاد کرتی نظر آئیں اور 2 نشستوں کے ساتھ کامیاب رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک آازد امیدوار بھی پارلیمان کا حصہ بنا۔

صوبہ بلوچستان:ریجن جنوبی

صوبہ بلوچستان کا ریجن جنوبی 4مکمل اور ایک جزوی ڈویژن پر مشتمل ہے جبکہ اسکے اضلاع کی تعداد25 ہے۔ اس ریجن میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 12اورصوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد38ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی 2دو نشستوں میں اضافہ ہو۔ اس ریجن میں بیشتر آبادی بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔

2018کی پارٹی پوزیشن کا ماضی کے انتخابات کے ساتھ موازنہ پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی موجودہ انتخابات میں بلوچستان کے سیاسی پس منظر سے مکمل طور پر غائب ہوچکی ہیں۔ جیسا کہ پیپلزپارٹی نے2008کے الیکشن میں 4سیٹوں کے ساتھ مستحکم پوزیشن کے ساتھ نظر آئی جبکہ 2013ء اور2108کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست اپنے نام نہ کر پائی۔ مسلم لیگ ن بھی2013 ء کے الیکشن میں 4 نشستوں کے ساتھ اہم نمائندہ جماعت تھی جبکہ موجودہ انتخابات میں یہاں ناکام ہوگئی،نئی بننے والی جماعت بی اے پی نے3نشستیں حاصل کیں۔ مذہبی اتحاد سے بننے والی ایم ایم اے نے 2جبکہ جمہوری وطن پارٹی نے 1نشست حاصل کی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ماضی کے انتخابات کے برعکس3نشستوں کے ساتھ مضبوط پوزیشن بنانے میں کامیاب ہوئی۔2013کے الیکشن میں بی این پی نے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کرسکی تھی۔موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی2نشستوں کے ساتھ پارلیمان میںبہتر پوزیشن کے ساتھ میدان میں اتری، جبکہ پی ٹی آئی 2013کے الیکشن میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پائی تھی۔ 2018ء میں ایک آزاد امیدوار بھی قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔

تازہ ترین