• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ کالم لندن سے تحریر کررہا ہوں جہاں میک اے وش انٹرنیشنل کی میٹنگ کے سلسلے میں آیا ہوا ہوں۔ یہاں کئی عشروں سے مقیم پاکستانی نژاد برطانوی والدین کی برطانیہ میں پیدا ہونے والی اولاد کی شادیاں ایک مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ میرے دوستوں نے اس حوالے سے ایک واقعہ مجھ سے شیئر کیا جو برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کیلئے شرمندگی اور خفت کا سبب بنا۔ گزشتہ دنوں برطانوی عدالت نے ایک پاکستانی نژاد خاتون کو اپنی 18 سالہ بیٹی کو دھوکے سے پاکستان لاکر جبری شادی کروانے کے الزام میں ساڑھے 4 سال قید کی سزا سنائی۔ برطانیہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا جس میں ایک ماں کو مجرم ٹھہراتے ہوئے کڑی سزا سنائی گئی۔ خاتون پر الزام تھا کہ وہ اپنی 18 سالہ بیٹی کو چھٹیاں منانے کا بہانہ کرکے پاکستان لے گئیں جہاں اس نے ستمبر 2016ء میں بیٹی کی شادی اپنے کسی رشتے دار سے زبردستی کرادی جس کی شکایت بیٹی نے برطانوی ہوم آفس میں کی جس پر خاتون کو برطانیہ واپس پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ واضح ہو کہ یورپی قانون کے مطابق جبری شادی سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ برطانوی حکومت کی تشریح کے مطابق جبری شادی وہ ہے جہاں ایک یا دونوں افراد کو ڈرا دھمکا کر یا ذہنی دبائو ڈال کر شادی پر مجبور کیا گیا ہو۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال برطانیہ میں مقیم برطانوی نژاد غیر ملکی فیملیوں میں جبری شادیوں کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور صرف ایک سال کے دوران 612 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سب سے زیادہ جبری شادیاں پاکستانی نژاد فیملیوں میں ہوئی ہیں۔

بات صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یورپ کے دیگر ممالک میں مقیم پاکستانی فیملیوں میں لڑکیوں کی پاکستان میں ارینج میرج کروانے اور والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ کچھ ماہ قبل گجرات میں 26 سالہ پاکستانی نژاد اطالوی لڑکی ثناء چیمہ کی پراسرار حالت میں موت کی خبر اٹلی کے ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر آئی جس کے بعد پاکستان میں قائم اطالوی سفارتخانے نے حکومت پاکستان سے اپنے شہری کی پراسرار موت کی تحقیقات کی درخواست کی۔ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ پاکستانی نژاد اطالوی لڑکی ثناء چیمہ کو غیرت کے نام پر گلا گھوٹ کر قتل کیا گیا تھا، ثناء چیمہ اٹلی میں اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر والدین اس شادی پر راضی نہیں تھے۔ وہ کچھ ماہ قبل پاکستان آئی تھی اور موت سے ایک روز قبل اسے اٹلی واپس جانا تھا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں برطانیہ کے علاقے بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد 28 سالہ لڑکی سمیعہ شاہد جس نے والدین کی مرضی کے خلاف مختار کاظم نامی لڑکے سے دبئی میں شادی کرلی تھی، جب والدین سے ملنے پاکستان آئی تو پراسرار حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ بعد ازاں یہ اطلاعات آئیں کہ سمیعہ کے سابق منگیتر نے اس پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر اُس سے شادی کرلے تاکہ وہ انگلینڈ میں جاکر بس سکے لیکن سمیعہ کے انکار پر سابقہ منگیتر نے اُسے قتل کردیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ اس قتل میں سمیعہ کے والدین کی مرضی بھی شامل تھی۔

بہتر مستقبل کے خواب لئے یورپ ہجرت کرنے والے وہاں مقیم پاکستانی فیملیوں کی سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی وہ اولاد جو مغربی ملک میں پیدا اور وہیں تعلیم و پرورش پاتی ہے، وہ مغربی سوچ و تہذیب اپنالیتی ہے جو ان کے والدین کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔ ایسے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیت بھی یورپین ذہنیت بن جاتی ہے جہاں مخالف جنس کے ساتھ دوستی اور تعلقات کوئی معیوب نہیں سمجھے جاتے اور ایسے لڑکے اور لڑکیاں یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ والدین کے کہنے میں آکر ارینج میرج کے بندھن میں بندھ جائیں۔ والدین کا اپنی بیٹیوں کو پاکستان لاکر شادی کرانے کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک اچھے پاکستانی لڑکوں کے رشتوں کا نہ ملنا ہے اور وہاں موجود اکثر پاکستانی لڑکے کسی پاکستانی لڑکی کے بجائے اپنے ساتھ پڑھنے والی اور ملازمت کرنے والی غیر ملکی لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کوئی پاکستانی نژاد خاندان کا لڑکا کسی مغربی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو والدین کو اس شادی پر اتنا اعتراض نہیں ہوتا مگر لڑکیوں کے معاملے میں ان کی سوچ مختلف ہوتی ہے اور ان کا ضمیر کبھی یہ گوارہ نہیں کرتا کہ ان کی لڑکی کسی مغربی لڑکے سے شادی کرے کیونکہ ایسی صورت میں لڑکی کے والدین کو خاندان میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں پاکستانی والدین اپنی بیٹی کیلئے اپنے خاندان میں ہی کسی لڑکے سے شادی کو ترجیح دیتے ہیں اور پاکستان میں مقیم لڑکا یہ سوچ کرکہ اسے مغربی ملک میں رہنے کا اچھا موقع میسر آرہا ہے، وہ اور اُس کی فیملی خوشی خوشی شادی پرراضی ہوجاتے ہیں مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی ارینج شادیاں اکثر اوقات ناکام رہتی ہیں اور شاذ و نادر ہی کچھ اولاد ہی والدین کی خوشی کی خاطر ارینج میرج پر سمجھوتہ کرلیتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ عدالت نے جب پاکستانی نژاد خاتون کو اپنی بیٹی کو دھوکے سے پاکستان لاکر جبری شادی کروانے کے الزام میں سزا سنائی تو خاتون نے زار و قطار رونا شروع کردیا مگر وہاں بیٹھی ان کی بیٹی یہ سب کچھ بڑے اطمینان سے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ میں نے جب یہ خبر برطانیہ کے مقامی اخبار میں پڑھی تو سوچنے لگا کہ اس پوری کہانی میں قصور وار کون ہے؟ وہ ماں جو اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کیلئے یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کسی مغربی لڑکے سے شادی کرکے اپنے مذہب، ثقافت اور خاندان سے ہمیشہ کیلئے دور ہوجائے یا پھر قصور وار وہ بیٹی ہے جو یورپ میں پیدا ہوئی، وہیں تعلیم حاصل کی اور اس کی یورپی سوچ تھی جس میں وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ کسی ایسے لڑکے سے شادی کرے جسے وہ جانتی تک نہیں، اس لئے لڑکی کے خواب جب چکنا چور ہوئے تو اس نے اپنی ماں کو دشمن تصور کرتے ہوئے وہ قدم اٹھایا جس کا تصور ایک مشرقی لڑکی نہیں کرسکتی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی والدین اپنی اولاد کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اور مغرب میں پرورش پانے والی ان کی اولاد کی سوچ میں بڑی تبدیلی آچکی ہے لہٰذا وہ اولاد کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت اُنہیں اعتماد میں لیں اور اُن پر جبری فیصلے مسلط نہ کریں تاکہ وہ والدین کو اپنا دشمن تصور نہ کریں اور نہ ہی ان کے فیصلوں کے اولاد کے مستقبل میں منفی نتائج برآمد ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین