• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے ملک صاحب انتہائی کم گو، محبت کرنے والے اور نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ میری ان سے صرف ایک ہی ملاقات ہوئی جب میں ان کے صاحبزادے ملک یونس کے ساتھ سیالکوٹ کے نزدیک ان کے گائوں بھاگووال پہنچا تھا، بڑے ملک صاحب کے گھر میں روز ہی شام کو پنچائیت لگا کرتی اور گائوں بھر کے افراد ان کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے جمع ہوتے جہاں کبھی کسی کی مالی ضرورت پوری کی جاتی تو کسی کے جھگڑے نمٹائے جاتے، میں نے بھی ایک شام اس پنچائیت میں گزاری اور بہت ہی خوشگوار لمحات کی یاد آج بھی میرے دل میں موجود ہے۔ چند ماہ قبل معلوم ہوا کہ بڑے ملک صاحب بالکل ٹھیک ٹھاک صحت کے ساتھ مغرب کی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھے اور دوران وضو ہی ان کو جان لیوا دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے، جس کے چند ماہ بعد ان کے بھتیجے بھاگوال کی انتہائی متحرک شخصیت ملک محمد نواز حالیہ انتخابات میں اپنے علاقے کے رکن قومی اسمبلی چوہدری ارمغان سبحانی کو الیکشن جتوانے کے لیے دن رات مصروف رہے اور انتخابات کے اگلے ہی روز انھیں برین ہیمرج ہوا اور صرف اڑتالیس برس کی عمر میں وہ اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ان دونوں شخصیات سے ویسے ہی بہت متاثر تھا لہٰذا عید کے لیے پاکستان پہنچا اور تیسرے ہی دن سیالکوٹ روانہ ہوا تاکہ ملک یونس اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی جاسکے ،سیالکوٹ کو شہر اقبال بھی کہا جاتا ہے یہیں سے علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے لیے علیحدہ ملک پاکستان کا خواب دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ سیالکوٹ سے مجھے ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ انسیت رہی ہے لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اس شہر نے علامہ اقبال جیسی شخصیت کو پیدا کیا، پاکستان کے چوٹی کے سیاستداں زاہد حامد، خواجہ آصف، فردوس عاشق اعوان، اور سبحانی فیملی کے کئی اہم سیاستدانوں کا تعلق سیالکوٹ سے ہے جبکہ سیالکوٹ صنعتی اعتبار سے بھی کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کی تیاری کے حوالے سے دنیا میں انتہائی معروف شہر ہے لیکن اتنے بڑے ناموں سے تعلق ہونے کے باوجود سیالکوٹ آج بھی ایک پسماندہ شہر ہی نظر آتا ہے۔ جس طرح میاں شہبازشریف نے پرانے لاہور کے ہوتے ہوئے بھی لاہور کے اندر ہی ایک نیا اور جدید لاہور تیار کرکے پوری پاکستانی قوم کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے کیا یہاں کے چوٹی کے سیاستداں اپنے شہر سیالکوٹ کو ماڈل سٹی کے طورپر تیار نہیں کرسکتے؟ لیکن لکھ پتی سے کروڑ پتی اور اب کروڑ پتی سے ارب پتی بننے والے سیاستدانوں نے اپنی سیاست کا مرکز اسلام آباد اور لاہور ہی بنا رکھا ہے اپنے شہر میں یہ سیاستدان صرف الیکشن کے دنوں میں ہی نظر آتے ہیں تاہم ان میں ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جس نے عوام سے اپنا رشتہ انتہائی گہرا کر رکھا ہے اور چاہے کچھ ہوجائے وہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار اپنے کیمپ آفس میں گزارتا ہے اور لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ذاتی طور پر کردار ادا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشکل سے مشکل الیکشن میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتا ہے، سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے تمام احباب جان چکے ہونگے میں کس سیاستداں کی بات کررہا ہوں جی ہاں یہ ہیں چوہدری ارمغان سبحانی جنھوں نے حالیہ انتخابات میں اپنی حریف سیاستداں تحریک انصاف کی فردوش عاشق اعوان کو چونتیس ہزار ووٹوں سے باآسانی شکست دے دی ،چوہدری ارمغان سبحانی تیسری دفعہ اپنے سیالکوٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک وہ وفاقی وزارت سے محروم رہے ہیں جس کی کبھی انھوں نے شکایت بھی نہیں کی تاہم اس دفعہ ان کے گائوں وریو میں ہونے والی ملاقات میں ملکی سیاست پر گفتگو میں انھوں نے اپنی پارٹی کی شکست پر بہت سے آف دی ریکارڈ حقائق بیان کیے جو پارٹی کے حوالے سے کافی تلخ بھی تھے لیکن مجھے اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انھوں نے اپنے گائوں میں اسکول، کالج، اسپتال سمیت بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے بھرپور کام کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام انھیں ہر بار پارلیمنٹ میں لے آتے ہیں، اس ملاقات میں میرے ساتھ پاکستان یوتھ کونسل کے صدر اور ن لیگ سعودیہ کے رہنما ملک منظور اعوان جو خاص طور پر چوہدری ارمغان سبحانی کی الیکشن مہم چلانے کے لیے پاکستان پہنچے تھے جبکہ ن لیگ جاپان کے سینئر نائب صدر ملک یونس بھی موجود تھے، اسی شام کو ملک یونس کے بھاگوال میں واقع گھر پر دوسو سے زائد افراد موجود تھے جو ان سے ملاقات اور ان کے والد اور کزن کی فاتحہ خوانی میں تشریف لائے تھے، کئی اہم ملاقاتوں کے بعد میں نے اپنے میزبان سے شاعر مشرق علامہ اقبال کی رہائش گاہ جانےکی خواہش کا اظہار کیا جس کے چند گھنٹوں بعد ہم معروف سماجی شخصیت شاہد گھمن کی معیت میں اقبال منزل میں موجود تھے ،پرانے سیالکوٹ کے مرکزی بازار کے وسط میں واقع گھر تقریباََ ڈیڑھ سو سال قبل علامہ اقبال کی معاشی خوشحالی کی ضمانت دے رہا تھا، اقبال منزل میں داخل ہوتے ہی بزم اقبال کے صدر ناصر شمیم خان لودھی اور انچارج اقبال منزل جو بزم اقبال کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں سید ریاض حسین نقوی نے پرتپاک استقبال کیا جس کے بعد بزم اقبال کے صدر نے اپنی رہنمائی میں علامہ اقبال کے گھر کی زیارت کرائی، بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ بنا ہوا مکان آج بھی ذوق اقبال کی گواہی دے رہا ہے، مکان میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک لائبریری موجود ہے جس کے بعد انچارج اقبال منزل کا کمرہ ہے جبکہ لائبریری سے چند سیڑھیاں اوپر جائیں تو بائیں جانب سے کمرے شروع ہوجاتے ہیں، درمیان میں صحن ہے جہاں سے سورج کی روشنی گھر کو روشن رکھتی ہے آج بھی علامہ اقبال کی پیدائش کا کمرہ اسی طرح موجود ہے، ان کے کپڑے رکھنے کی الماری آج بھی اسی طرح موجود ہے، مہمان خانہ بھی موجود ہے جہاں بزم اقبال کی جانب سے سال میں دس سے بارہ مشاعرے کرائے جاتے ہیں، لودھی صاحب بتارہے تھے کہ بزم اقبال کے سرپرست اعلیٰ علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال ہیں جن کی علامہ اقبال سے عقیدت انتہائی دیدنی ہے، لودھی صاحب کے مطابق منیب اقبال آج بھی جوتے پہن کر کبھی اس گھر میں داخل نہیں ہوئے جبکہ وہ ایک کمرے میں رات بسر کرتے ہیں اور صرف چادر بچھا کر زمین پر سوتے ہیں تاکہ اپنے دادا کا لمس محسوس کرسکیں، لودھی صاحب خود بھی علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح ہیں اور سالانہ دس سے بارہ لاکھ روپے اپنی جیب سے یہاں ہونے والے مشاعروں پر خرچ کرتے ہیں، اسی گھر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لائی تھیں اور ان کی وہ یادگار تصویر آج بھی اس کمرے کی زینت ہے۔ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی کو یہاں کی لائبریری کے لیے اپنی نئی کتاب پاکستان سے جاپان تک پیش کی جو میرے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین