• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایشیائی بالخصوص پاکستانی کمیونٹی میں اعضاعطیہ کرنے کا رجحان بڑھانا ہوگا، سیاسی و سماجی رہنما

ہیلی فیکس/ بریڈ فورڈ/ مانچسٹر (زاہد مرزا/ محمد رجاسب مغل/ تنویر کھٹانہ) برطانیہ میں آرگن ڈونیشن ویک کا آغاز ہوگیا تاہم ایشیائی بالخصوص پاکستانی کمیونٹی میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان نہایت کم ہے، اس رجحان میں اضافہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے اس موضوع پر جنگ لندن نے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات طبی ماہرین علمائے کرام کی آراء جاننے کی کوششں کی۔ کمیونٹی رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ کمیونٹی میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان بڑھانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کالڈارڈیئل اینڈ ہڈرز فیلڈ ہسپتال میں سرجن ڈاکٹر غلام عباس نے جنگ سروے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم کمیونٹی خصوصی طور پر پاکستانی کمیونٹی کو اپنے اعضاء کو عطیہ کرنا چاہئیں، اعضاء کے عطیہ کرنے سے ایک انسان کو نئی زندگی ملتی ہے اس پر الله تعالیٰ عطیہ کرنے والے مسلمان کو اجر عطا فرماتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ دکھ کی بات ہے کہ ہم ڈونیشن لے تو لیتے ہیں مگر ڈونیشن کرتے نہیں اگر ہم ڈونیشن کریں تو یہ ہمارے لئے اور ہماری کمیونٹی کیلئے بہتر ہے کیونکہ اگر ہم کسی اپنے ساتھی کو بھی دیتے ہیں تو وہ میچ بھی ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دل اور دماغ کے ڈاکٹر آفتاب نے جنگ سروے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسلم کمیونٹی کو اعضاء ضرور ڈونیشن کرنے چاہیئے کیونکہ آج بھی اگر این ایچ ایس کی لسٹ میں دیکھیں تو برطاینہ میں کئی سو مسلمان ڈونیشن لینے کے انتظار میں ہیں اگر ہم لے سکتے ہیں تو دے کیوں نہیں سکتے ان کا کہنا تھا کہ علماء کرام اس سلسلے میں مسلم کمیونٹی کی رہنمائی کریں تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے کیونکہ جب ہم گردے یا کسی اور اعضاء کا ڈونیشن لیتے ہیں مگر دیتے نہیں تو ہماری کمیونٹی پر تنقدد کی جاتی ہے۔ معروف عالم دین اور پاکستان پیپلز پارٹی برطاینہ کی مذہبی امور کے صدر مولانا قاری محمد عباس نے جنگ سروے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بعض فقہاء کرام پیوند کاری کو قطعی طور پر ناجائز کہتے ہیں دلائل کے ساتھ، لیکن میری رائے اُن فقہاء کرام کی رائے کے ساتھ ہے جو اعضاء کی پیوند کاری کو شرائط کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں لیکن ان حضرات کے ہاں شرائط کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ ہم ذیل میں قائلینِ جواز کے دلائل پر نظر ڈالتے ہیں۔ جس طرح انسانی جسم اہمیت کا حامل ہے اسی طرح انسانی جسم و جان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا نہ صرف مباح ہے بلکہ بسا اوقات واجب اور ضروری ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم کی حفاظت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’جس نے ایک جان کو زندہ کیا اس نے گویا سب لوگوں کی جانیں بچائیں۔‘‘ (سورۃ مائدہ 22)۔ اس آیت کی تفہیم میں جو اقوال ذکر کیے گئے ان میں سے ایک قول کے مطابق جو کسی دوسرے انسان کی جان بچانے کی کوشش کرے گا وہ اس آیت کے ثواب اور مصداق میں شامل ہوگا۔ جسمِ انسانی کی حفاظت کی اہمیت بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قیدی کو چھڑائو، اور بھوکے کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت کرو۔‘‘ (بخاری)۔ اس حدیث کی تشریح میں شارح بخاری علامہ عینیؒ نے لکھا ہے کہ ’’بھوکے کو کھانا کھلانا عام حالت میں مستحب ہے، لیکن اگر کوئی شخص بھوک سے مر رہا ہو تو ایسی صورت میں اس کی جان بچانا اور اسے کھانا کھلانا فرض ہوجاتا ہے۔‘‘ فقہاء کرام نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو مسائل بیان فرمائے ہیں، ان میں سے بہت سارے مسائل اس بات پر بطور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں جس میں انسانی جان کی حفاظت کے لیے مباح کاموں کی اجازت کے ساتھ ساتھ بسا اوقات حرام کے ارتکاب کی اجازت دے دی گئی ہے۔اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:۔ (1) ایک شخص نماز میں مصروف ہو، اسی دوران کوئی نابینا شخص کنویں کی طرف جارہا ہو، یا کوئی بچہ دہکتی ہوئی آگ کی طرف رواں ہوں تو اس صورت میں اس نابینا آدمی اور بچے کی جان بچانے کے لیے نماز توڑنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔(2) اسی طرح عام حکم یہ ہے کہ روزہ توڑنا جائز نہیں، لیکن کوئی شخص روزے میں بھوک پیاس کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ جائے کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو اس کے لیے روزہ توڑنا نہ صرف جائز، بلکہ واجب بھی ہے۔ (3) اسی طرح رمضان کے روزے بلا عذر چھوڑنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی حاملہ عورت کو روزے کی وجہ سے خود کی یا حمل کی جان کا خطرہ ہو تو ایسی حاملہ عورت کے لیے روزہ ترک کرنے کی بھی اجازت ہے۔ (دیکھیے اعضاء کی پیوندکاری کے متعلق دارالعلوم کراچی کا فتویٰ)۔ جب انسانی جان و جسم کو خطرہ لاحق ہو تو اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ چنانچہ عرب علماء اور ہندوستان کے فقہا نے چند اصولوں کی بنیاد پر چند شرائط کے ساتھ اعضاء کی پیوندکاری کو مجبوری کی حالت میں جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے جامعہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والے فتوے میں ان شرائط کو درج ذیل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔واجب العمل شرائط:۔ اگر کسی مُردے سے اعضاء لیے جائیں تو اس کی شرائط درج ذیل ہیں:۔ (1) معتمد اور ماہر اطباء بتائیں کہ پیوندکاری کے سوا مریض کا کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں ہے۔(2) اس بارے میں ظن غالب ہو کہ اس عضو کی منتقلی سے مریض کو شفا حاصل ہوجائے گی۔(3) حتی الامکان کسی مسلمان کا کوئی عضو کسی کافر کو اور کسی کافر کا عضو مسلمان کو نہ لگایا جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ مسلمان کے جسم میں مسلمان کا عضو استعمال کیا جائے۔(4) مرنے والا شخص مکلف ہو اور اس نے موت سے پہلے منتقلی کی تحریری اجازت دے دی ہو۔ البتہ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے فیصلے میں ورثا کو بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر میت نے زندگی میں وصیت نہ کی ہو تو موت کے بعد ورثا کی اجازت بھی کافی ہے، اور اگر متوفی شخص لاوارث ہو تو مسلمانوں کے ولی الامر نے اجازت دے دی ہو۔(5) عضو کی منتقلی کے بعد جسم میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جو مثلہ کے مشابہ ہو۔(6) مُردہ جسم سے مطلوبہ عضو کو تدفین سے پہلے پہلے نکال لیا جائے، تدفین کے بعد نہیں۔(7) وہ عضو بغیر کسی قیمت کے دیا جائے۔مذکورہ بالا شرائط مُردہ جسم سے عضو لینے کے بارے میں تھیں۔اگر کسی زندہ انسان سے اس کی اجازت سے کوئی عضو لیا جائے تو اس کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:۔(1) اس عمل سے عضو دینے والے شخص کی طبعی زندگی کو کوئی بڑانقصان نہ پہنچے۔(2) اس کا کوئی ایسا عضو نہ نکالا جائے جس پر اس کی حیات موقوف ہو جیسے دل وغیرہ۔(3) کسی ایسے عضو کی منتقلی جائز نہیں جس کے جدا کرنے سے انسان کسی اساسی وظیفہ سے محروم ہوجائے جیسے آنکھیں وغیرہ۔(4) زندہ جسم سے صرف وہ عضو لیا جائے جس کے متعلق ڈاکٹر نے طے کردیا ہو کہ اس کا جسم کے اندر رہنا ضروری نہیں، اس کے بغیر زندگی بآسانی گزاری جاسکتی ہے۔ (دیکھیے دارالعلوم کراچی کا فتویٰ)۔ ہم اپنی بحث کا خلاصہ و نچوڑ کچھ یوں بیان کریں گے کہ ہند و پاک کے قدیم فقہا اور موجودہ دور میں جامعہ بنوری ٹائون کے مفتیانِ کرام کے ہاں اعضا کی پیوندکاری مطلقاً ناجائز ہے۔ لیکن عرب علما کے جواز کا اعتبار ہے لیکن شرائط کا اعتبار انتہائی ضروری ہے۔ دوسرے جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں بھی اس پر عمل کرنے کے لیے مجبوراً کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ وہ یہ عمل کرنے کے بعد استغفار کرے۔دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والے فتویٰ کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ’’احتیاط تو بہرحال اسی میں ہے کہ حتی الامکان اس طریقۂ علاج سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کوئی شخص شدید مجبوری میں مبتلا ہو اور وہ جواز کی رائے رکھنے والے علمائے کرام کی رائے پر عمل کرلے تو امید ہے کہ عنداللہ معذورہوگا۔ تاہم جواز والے قول پر عمل کرنے کی صورت میں احتیاطاً استغفار اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کردے۔‘‘تمام تر وضاحتوں سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جواز صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو ہر طرف سے مجبور ہوجائیں اور اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔لیکن موجودہ دور میں جس طرح اعضاء کی پیوندکاری کے معاملے کو فروغ دیا جارہا ہے، یقیناً یہ نقصان دہ عمل ہے، اور اگر کوئی اس طرح کی وصیت کر جائے تو اسے قابلِ ستائش سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اور اسی کی آڑ میں گھنائونا کھیل اعضا کی فروخت کا شروع ہو جاتا ہے جس میں ادارے تک ملوث ہوتے ہیں اور انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔اس لیے جن حضرات نے اس بارے میں جواز کی رائے سے اتفاق کیا ہے وہ بھی بار بار تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کام کی حوصلہ شکنی کی جائے۔دارالعلوم کراچی سے شائع شدہ فتویٰ کے آخری الفاظ پر ہم بھی اس بحث کا اختتام کرتے ہیں: اس طرز عمل کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاکہ انسانی جان کی حرمت و شرافت برقرار رہے اور انسانی جان کو عام اشیاء کی طرح استعمال کی چیز نہ بنا لیا جائے۔ میرے نزدیک مذکورہ بالا حوالہ جات اور فقہاء کرام و مفتیان عظام کی رائے زیادہ اولی اور معتبر ہے باقی جیّد علماء کو چاہئے اس پیچیدہ مسئلے کا حل بیٹھ کر نکالیں جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے ہمیں غیرمسلم اقوام طعنہ دیتی ہیں کہ مسلمان گُردے اور دیگر انسانی اعضاءلیتے ہیں خود دیتے نہیں اگر دینا جائز نہیں تو پھر لینا کیسے جائز ہے۔ بریڈ فورڈ سے نمائندہ جنگ کے مطابق ہر سال ستمبر میں آرگن ڈونیشن ڈے منایا جاتا ہے اس سال 3ستمبر سے9ستمبر تک یہ دن منایا جا رہا ہے اس کا مقصد لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی بچانے کے لئے اپنے اعضاٗء عطیہ کریں۔ اس وقت برطانیہ میں چھ ہزار سے زائد افراد ٹرانسپلانٹ کے لئے انتظار میں ہیں آرگن ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز تین افراد کی اموات ہو رہی ہے اس وقت برطانیہ کی آبادی میں37فیصد افراد اپنے اعضاء نیشنل ہیلتھ سروس کی سکیم کے تحت رجسٹر کراچکے ہیں جبکہ 80فیصد افراد نے اپنے اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے دلچسپی ظاہر کی ہے، گورنمنٹ برطانیہ اس حوالے سے اعضاء عطیہ کرنے کے قانون میں تبدیلی کے لئے کوشاں ہے، 2020ء تک آئرلینڈ اور ویلز کی طرز پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ انسان کی موت کے بعد اس کے اعضا حکومت برطانیہ کی ملکیت ہوں گے اس حوالے سے کمیونٹی کو یہ آپشن بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عضوی آپٹ آئوٹ رجسٹر کرسکتے ہیں عضوی آپٹ آئوٹ رجسٹریشن کے بغیر مرنے والے کے اعضاء حکومتی ملکیت میں جانے سے برطانیہ میں مسلم کمیونٹی میں تشویش کی لہر بھی پیدا ہوئی اور مسلم کمیونٹی نے اس حوالے سے آرگن آپٹ آئوٹ رجسٹریشن کرانا شروع کردی، اس حوالے سے روزنامہ جنگ کے خصوصی سروے میں کنیز اختر کا کہنا ہے کہ انسانیت کو بچانے کیلئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے بالخصوص ایشیائی کمیونٹی اس حوالے سے کافی پیچھے ہے، ہمیں اپنے خاندان اور عزیز اقارب سے اس حوالے سے کھل کر بات کرنا چاہئے، دنیا میں اس وقت لاکھوں لوگ اپنے اعضاء عطیہ کر رہے ہیں مگر پھر بھی اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگی کے لئے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، ہمیں کھلے دل کے ساتھ انسانیت کی خدمت کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مولوی محمد رفیق نقشبندی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کسی کی جان بچانے کیلئے خون کا عطیہ یا اعضاء دینا جائز ہے مگر مرنے کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنا یا وصیت کرنا جائز نہیں۔ یہ انتہائی نازک معاملہ ہے اس حوالے سے کمیونٹی میں آگاہی فراہم کرنی کی ضرورت ہے۔ حافظ محمد شبیر کا کہنا ہے کہ عمومی انداز میں لوگوں کو اپنی وفات کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے اور نکال دینے کی دعوت و ترغیب دینا درست نہیں اس طرح سے انسانی اعضاء کی تجارت اور کاروبار کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے، صرف مخصوص حالات میں ہی اس کی اجازت ہے جب مریض کی موت یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہو ایسی صورت میں عضو کی منتقلی جائز ہے۔ سائوتھ ایشین پروجیکٹ آفیسر اور ہیپاٹائٹس سی ٹرسٹ اور ممبر ایسوسی ایشن آف پاکستان فزیشن اینڈ سرجنز شبانہ بیگم کا کہنا ہے کہ ایشیائی لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کا بہترین پلیٹ فارم مساجد، مندر اور گردوارے ہیں وہاں پر لوگوں کو اس اہم ایشو پر بریف کیا جائے اور ان کو باور کرایا جائے کہ انسانیت کی خدمت کے لئے ہمیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، وہ ہیپاٹائٹس سی کے حوالے سے مساجد میں مہم چلا رہی ہیں اعضاء کے عطیے کے حوالے سے بھی لوگوں میں آگاہی مہم کو چلائوں گی مساجد میں لوگوں کو بہتر طریقے سے مذہبی نقطہ نظر کے عین مطابق اس حوالے سے تعلیم دی جاسکتی ہے، ہماری کمیونٹی صرف اعضاء کے عطیے کا نام سن کر گھبرا جاتی ہے، ہمیں کمیونٹی میں اس حوالے سے اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔ مانچسٹر میں نمائندہ جنگ کے مطابق ایشیائی، سیاہ فام اور دیگر نسلی اقلیتوں کے افراد میں اعضا عطیہ کرنے کا رجحان کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نسلی اقلیتوں میں اعضا کے منتظر بیمار افراد ٹرانسپلانٹ کا انتظار کئی برسوں سے کررہے ہیں۔ برطانیہ میں 2015 میں اعضاءکے انتظار میں1300افراد انتقال کرگئے تھے جن میں اکثریت ایشیائی افراد کی تھی۔ سیاہ فام اور ایشیائی کمیونٹی میں کسی عزیز کے انتقال کی صورت میں اس کے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان ایک تہائی سے بھی کم ہے، جبکہ سفیدفام کمیونٹی میں یہ شرح دو تہائی سے زائد ہے۔ روزنامہ جنگ نے آرگن ڈونیشن ویک کے آغاذ پر اس حوالے سے خصوصی سروے کیا جس میں کمیونٹی شخصیت قیصر محمود کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کمپین کا حصہ بننا چاہیے لوگ جب اعضا کا عطیہ لینے کے لیے تیار ہیں تو انہیں اعضا عطیہ کرنے کے بارے میں بھی تیار رہنا چاہیے۔ایشیائی اور دیگر نسلی اقلیتوں کے لیے بھی اہم ہے کہ اس موضوع پر مساجد، نجی محافل اور سیاسی طور پر بھی گفتگو کریں کیونکہ ایشیائی کمیونٹی کے بہت سے افراد اعضا کے منتظر ہیں۔ بعض ایشیائی افراد کو سیاہ فام افراد کی طرف سے عطیہ کیا گیا اعضا تو لگ جاتا ہے لیکن بعض افراد کو اگر ان کی اپنی کمیونٹی کی طرف سے عطیہ نہ ملے تو وہ جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں میں مذہبی اور سماجی شخصیات کو مدعو کرکے آگاہی دینی ہوگی۔ محمد ریاض کا کہنا تھا کہ ایشیائی کمیونٹی کو اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور ڈونر کارڈ سائن کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایشیائی کمیونٹی اس بارے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی۔ ہمیں جب ضرورت ہوتی ہے ہم خون بھی لے لیتے ہیں، لیکن خون دیتے نہیں۔ برطانیہ بھر کے پاکستان سینٹر میں کمیونٹی کو آگاہی کے لیے اوپن ڈے کا اہتمام اور اردو زبان میں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ تفصیلات فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فیصل خان کا کہنا تھا کہ اسلامی فلسفہ کے مطابق ہمارا جسم خدا کی امانت ہے اور ہمیں اس میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جسم میں اضافی اعضا عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً خون دیا جاسکتا ہے اور گردے دو ہیں تو ایک عطیہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنا ہوگا۔ تاہم کسی کے انتقال کے بعد اگر کسی اور کی جان بچائی جا سکتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔لیکن اس حوالے سے علماء کرام کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں آگاہی دینی ہوگی۔ سجاد انجم کا کہنا تھا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انسانی اعضا عطیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس طرح دوسرے شخص کی جان بچ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ علما انسانی اعضا عطیہ کرنے کو درست خیال نہیں کرتے،لیکن میرے نزدیک انسانیت کے فائدے کے لیے عطیہ دینا درست ہے۔ گھروں میں اپنی فیملی سے اعضاء کے عطیات اور دور حاضر میں اس کی اہمیت کے متعلق بحث و مباحثہ بھی کمیونٹی کے خدشات دور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں5سے11ستمبر تک آرگن ڈونیشن ویک منایا جائے گا۔ 5ستمبر سے شروع ہونے والے اعضا عطیہ کرنے کی مہم کا مقصد لوگوں کو اس جانب راغب کرنا ہے کہ وہ اعضا عطیہ کریں۔ اس وقت اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے برطانیہ کی شرح یورپ بھر کی نسبت سب سے کم ہے۔

تازہ ترین