• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پاکستان، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے تحریک ِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد مختلف مواقع پر قوم سے خطاب کیا۔ اپنی تقاریر میں انھوں نے ایک طرف مسلمانوں کا جوش اور ولولہ بڑھایا تو دوسری جانب پاکستان کی تعمیرو ترقی کے حوالے سے ان کی رہنمائی کی۔اس کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی بات کی،تاکہ ملک کے تمام شہریوں کے مابین باہمی محبت و اخوت قائم رہے۔ اس ضمن میں قائد اعظم ؒ کی تقاریر میں سے کچھ فرمودات آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں۔ (کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے پہلا خطاب،11اگست 1947ء)

’ہمیں جو دکھ گیا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کےلیے ابھی اور قربانی دینی ہو گی۔ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا، ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ اگر اسی طرح تمام ملت ہمت اور لگن کے ساتھ کام کرتی رہی تو ہماری یہ مصیبتیں انشاءاللہ بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔‘(لاہور کی بڑی ریلی سے خطاب،30اکتوبر 1947ء(

’جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کردیں گے، بڑی سخت بھول میں مبتلاء ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، اِس پاکستان کا جس کی جڑیں مضبوط اور گہرائی کے ساتھ قائم کردی گئی ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے اُن خوابوں یا اِرادوں کا نتیجہ جس کی وجہ سے وہ قتل اور خونریزی پر اُتر آتے ہیں، سوائے اِس کے کچھ نہ نکلے گا کہ کچھ اور معصوم اور بے گناہوں کا خون بہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنے فرقہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔‘(24 اگست 1947ء کو جلسہ عام سے خطاب)

’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب،15نومبر1942 ء )

’ وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت۔‘ (کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے31ویں اجلاس سے خطاب،6دسمبر 1943ء)

’ آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘(کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948 ء)

’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)

’ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اُتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھریں گے، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔‘(عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم سے خطاب،24اکتوبر 1947ء)

’حکومت کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے، عوام کی بے لوث خدمت اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا، اِس کے سوا برسراقتدار حکومت کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ اگر اِس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار سے الگ کردو، لیکن ہلڑبازی سے نہیں۔ اقتدار آپ کے پاس ہے اور یہ آپ کی چیز ہے۔ آپ کو اِسے استعمال کرنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ آپ کو سیاسی نظام کے اسرار و رموز اور طریقۂ کار بھی سیکھنے چاہئیں۔‘(ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب،21مارچ 1948ء)

’آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ہے۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کرکے آپ جو چاہیں، کر گزریں۔ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ۔ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و مضبوط قوم کی طرح کام کریں۔ اِس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں۔ جنگِ آزادی کے دِنوں کی جنگجوئی کی اب ضرورت نہیں رہی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگجویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل۔

(ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب، 26 مارچ 1948ء)

’کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جب آپ بطور ایک نئی اور نوزائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، ایسے موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔خودکشی !‘(کوئٹہ میونسپلٹی کی استقبالیہ تقریب سے خطاب،15جون 1948ء)

’قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔‘(آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب،14اگست 1948ء )

تازہ ترین