کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔