• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں نئے امریکی سفیر اور تعلقات کا ایک نیا دور؟

پاکستان میں امریکہ کے نئے سفیر رچرڈ اولسن کی آمد ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ پاکستان کے گرد و نواح میں بھی اہم اور تاریخ ساز واقعات رونما ہونے کو ہیں۔ ایسے واقعات جو نئی حقیقتوں کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور نظریاتی حدود کی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
داخلی، خارجی اور علاقی افق پر اپنے گہرے نقوش ڈالتی ان تبدیلیوں کو بخوبی سمجھ لینے کے بعد ہی ہم مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی سمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ صدر او باما امریکی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر ایک دفعہ پھر وائٹ ہاوٴس میں لوٹنے کے بعد آئندہ چار سالوں کیلئے اپنی پالیسی واضح کر چکے ہیں جس کے پیش نظر افغانستان سے امریکہ کا انخلا پروگرام کے مطابق آگے بڑھنے کو ہے۔ گویا آئندہ چند مہینوں میں یہ عمل بھی اپنے اس منطقی انجام کی طرف گامزن ہوتا نظر آئے گا جسے باخبر حلقے ”اینڈ گیم 2014ء “ کا نام دے رہے ہیں۔ اس ”اینڈ گیم“کے عمل میں آنے کے ساتھ اور امریکی انخلا کے بعد خطے میں پاکستان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا اور پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے سہ فریقی تعلقات ایک نیا موڑ لیتے نظر آئیں گے ۔ اس سنگ میل پر پاکستان کو خطے میں جنم لیتی ان تبدیلیوں اور ان میں پنہاں حقیقتوں کا ادراک کرنے کے بعد خود کو بدلتی ہوئی صورت حال سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے تفصیلی بات آئندہ کالموں میں ہوتی رہے گی لہٰذا آج زیر نظر موضوع پر ہی مرکوز رہوں گا۔داخلی طور پر بھی یہ دور پاکستان کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ملک کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکومت بغیر کسی عسکری سہارے کے اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کے بعد آئندہ چند ماہ میں الیکشن کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس بات کی قوی امید ہو چلی ہے کہ انتخابات اگلے سال کے اوائل میں منعقد ہو جائیں گے۔ ان انتخابات کا آزادانہ اور شفاف انعقاد پاکستان کے لئے نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ پاک امریکہ تعلقات کے لئے بھی اتنا ہی اہم ہوگا کیونکہ ملک کی باگ ڈور سنبھالتی نئی حکومت کا ان تعلقات کے مستقبل میں ایک کلیدی کردار ہوگا۔
ان تمام اہم اور فیصلہ کن تبدیلیوں کے عین درمیان امریکہ کے نئے سفیر رچرڈ اولسن پاکستان میں اپنا دور سفارت شروع کرنے کو ہیں یقینا ان کا یہ دور سفارت نہ صرف نہایت اہم ہوگا بلکہ توقعات کے ساتھ ساتھ چیلنجز سے بھرپور بھی۔ ڈپلومیسی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ جانتا ہوں کہ سفارت کاری( ڈپلومیسی) دراصل چیلنجز کو موقعوں میں تبدیل کرنے کا نام ہی ہے۔ باخبر سفارتی حلقوں اور ممتاز تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک منجھے ہوئے ماہر سفیر کی حیثیت سے رچرڈ اولسن ان چیلنجز میں چھپے تمام موقعوں کی فوری نشاندہی کرنے کی بخوبی صلاحیت رکھتے ہیں جن پر عمل کر کے پاک امریکہ تعلقات کو ایک مثبت انداز میں آگے بڑھانا دونوں ممالک کے ملکی مفاد میں ہو گا۔رچرڈ اولسن کے سفارتی کیریئر پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی سفارتی زندگی کا ایک طویل عرصہ مسلمان ممالک میں گزرا ہے۔ پاکستان آنے سے پہلے وہ سعودی عرب، تیونس، متحدہ عرب امارات ، عراق اور افغانستان میں سفارتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں لہٰذا وہ مسلم دنیا میں پائے جانے والے احساسات اور جذبات سے بخوبی واقف ہیں اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک میں بطور امریکہ کے سفیر کے نہایت موزوں چوائس ہیں۔
مجھے رچرڈ اولسن سے متحدہ عرب امارت میں کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ فرینڈز آف پاکستان کے چند اجلاسوں میں بھی شریک رہے ہیں۔گفتگو کے دوران میں نے ان کو ہمیشہ ہی پاکستان کی صورت حال سے باخبر پایا۔ وہ پاکستان کی اہمیت کے معترف اور امریکہ سے پاکستان کی اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے حوالے سے پُرامید ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کے امریکی سینیٹ میں اپنی کنفرمیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے” ایک مضبوط، جمہوری اور ترقی کرتے ہوئے پاکستان“ کی بات کی اور اسے امریکہ کے مفاد کے لئے اہم قرار دیا۔ بعد ازاں پاکستان میں میڈیا سے گفتگو میں بھی انہوں نے پاکستان کی ”بیش بہا قربانیوں“ کا ذکر بھرپور انداز میں کیا اور اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو وسعت دینا ہی دونوں ممالک کے درمیان دیرپا تعلقات کا ضامن ہے۔
شاید اسی لئے باخبرسفارتی حلقے رچرڈ اولسن کی پاکستان میں آمد کو ”حسن اتفاق“ سے کہیں زیادہ ”حسن انتخاب“ قرار دے رہے ہیں اور وہ ان کی پاکستان تعیناتی کو پاکستان کے لئے امریکہ کی بدلتی خارجہ پالیسی کا پہلا اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں اس وقت یہ تاثر بھی عمومی طور پر پایا جاتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو اس بات کا بخوبی احساس اور ادراک ہو چکا ہے کے پاکستان کے ساتھ دیرپا اور دوررس تعلقات کو استوار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان تعلقات کو محض سرکاری لوازمات سے آگے بڑھا کر پاکستانی عوام سے بھی رابطوں کو اہمیت دی جائے۔ وہ پاکستانی عوام کے دلوں میں امریکہ کے بارے میں مثبت تاثر اجاگر کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کے اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ پاکستانی عوام کو یہ باور کرایا جائے کے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات محض ”سیکورٹی امور“ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان تعلقات کے دائرے کو اقتصادی ، تجارتی، ثقافتی، تعلیمی میدان میں بھی مزید وسعت دی جا رہی ہے اور اس نئی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے رچرڈ اولسن کا انتخاب کیا ہے۔ غالباً اسی لئے پاکستان آمد کے چند روز بعد ہی سے، امریکی سفیر کی مصروفیت کاایک اہم حصّہ اسی عوامی سفارت کاری میں صرف ہو رہا ہے۔ وہ ناصرف میڈیا کے ساتھ انٹرویوز میں پہلے سے زیادہ مصروف اور نمایاں نظر آ رہے ہیں بلکہ معاشرے کے مختلف طبقوں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کی حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لوگوں سے بھی تعلقات کو خوشگوار کرنا ہے۔
یہ اقدامات اسی بدلتی امریکی خارجہ پالیسی کی عکاسی بھی کرتے ہیں جس کے پیش نظر امریکہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں امریکہ کا ایک مثبت تاثر بحال کرنے کا خواہاں ہے یقینا پاکستانی لوگ بھی بالعموم امریکہ سے خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہی ہیں۔پاکستانی عوام صدر اوباما کی حالیہ تقریر سے بہت پُرامید ہیں جس میں انہوں سے” جنگ کے عشرے کے خاتمے“ کی بات کی ہے، پاکستانی عوام اس تقریر کے بعد یہ امید کر رہے ہیں کے اس ”خاتمے“ کے ساتھ ساتھ اس دور کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جس کے دوران پاکستان اور امریکہ کے مابین غیر ضروری کشیدگی اور عدم اعتماد کی فضا پروان چڑھی۔ اس عدم اعتماد کی اصل وجہ چند ایسے واقعات تھے جن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں نے آگے بڑھ کر اعتماد کے فقدان کا روپ لیا ۔ان واقعات میں ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ، ڈرون حملوں کا ناجائز استعمال ، 2 مئی کو کی جانے والی ایبٹ آباد ریڈ اور سلالہ حملہ سرفہرست ہیں۔آگے بڑھنے کیلئے ماضی سے سبق حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے خود کو ماضی کا یرغمال بنا دیا جائے۔ آگے بڑھنا اہم اور دونوں ممالک کے ملکی مفاد میں ہے لہٰذا نئے امریکی سفیر کی اولین ترجیح یقیناً اس عدم اعتماد کی فضا کو دور کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے دونوں ممالک میں اعتماد سازی کی اشد ضرورت ہو گی تاکہ پاکستان امریکہ تعلقات کا رخ ایک مثبت سمت کی طرف موڑا جا سکے اور ایک ایسا باہمی اشتراک عمل میں لایا جا سکے جس کی بنیاد، بھروسے، اعتماد، خیر سگالی اور امید پر ہو۔ایک ایسا باہمی اشتراک جو دونوں ممالک کے درمیان ثقافت، تجارت اور اقتصادی روابط کومزید وسعت دینے کی صلاحیت رکھتا ہو،ایک ایسا باہمی اشتراک جو دونوں ممالک کے پرائیویٹ سیکٹرکے مابین روابط اور تعاون کو مزید فروغ دے سکے، ایک ایسا باہمی اشتراک جو ہمارے کاروباری اور پیشہ ورانہ طبقوں میں تعاون کو ممکن بنا سکے، ایک ایسا باہمی اشتراک جس کے ذریعے پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارت کو مزید بڑھایا جا سکے اور امریکی منڈیوں میں پاکستانی اشیاء کو رسائی حاصل ہو سکے، ایک ایسا باہمی اشتراک جس سے پاکستان کو توانائی بجلی اور دیگر تکنیکی سہولتوں کے حصول میں مدد مل سکے، ایک ایسا باہمی اشتراک جو ہماری باہمی ثقافتی،معاشرتی اور انسانی قدروں کے احترام کرتے ہوئے دونوں تہذیبوں کے مابین مفاہمت کی فضا پیدا کرے،ایک ایسا باہمی اشتراک جس کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام میں دوستی اور خیرسگالی کو مزید فروغ دیا جا سکے۔سفارتی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کے ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے رچرڈ اولسن کی شکل میں ایک نہایت موزوں اور تجربہ کار سفارتکار کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف اس حوالے سے بھرپور صلاحیتوں کے حامل ہیں بلکہ اپنے سفارتی تجربے کے پیش نظر پاکستان امریکہ تعلقات کو ایک مثبت اور خوشگوار سمت میں لے جانے کے خواہاں بھی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے دن پاکستان امریکہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتے ہیں ۔
تازہ ترین