• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

امریکا کا خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا کریاتی قطبین کی برف کی پیمائش کرنے کے لیےانتہائی جدید سیٹلائٹ کی لانچنگ کے لیے تیار ہے ،جس تفتیشی مہم پر تقریباً ایک عشرے سے کام کیا جارہا تھا ۔منصوبے کے مطابق رواں ماہ کو ناسا آئیس کلا ئوڈ اور لینڈ ایلیو یشن سٹیلائٹ 2 (آئیسیٹ 2)کو ڈیلٹا 2 نامی خلائی راکٹ کے ذریعے کیلی فورنیا کے وانڈر برگ ایئر فورس بیس سے خلا ء میں بھیجا جائے گا ۔ماہرین کے مطابق یہ مہم مختلف مقامات پر قطبین کی برف کی موٹائی میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیمائش کرے گی ۔ جن میں گرین لینڈ اور انٹارٹیکا جیسے مقامات بھی شامل ہوں گے ۔علاوہ ازیں اس مہم میں جنگلات کی نشوونما اور بادلوں کی بلندی سے متعلق ڈیٹا بھی جمع کیا جائے گا ۔یہ سیٹلائٹ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہےکہ یہ قطبینی برف کی چادروں کی موسمی اور سالانہ تبدیلیوں میں نصف سینٹی میٹر کی تبدیلی کی پیمائش کرنے کے قابل بھی ہو گا ۔یہ ریزولیشن اس سے قبل بھیجے گئے کسی بھی اونچائی کی پیمائش کرنے والے سیٹلائٹ کے مقابلے میں زیادہ ہو گی۔ا س خلا ئی جہاز کو تیار کرنے میں ایک ارب امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے ۔یہ خلائی جہاز زمین کی سطح سے 500 کلو میٹر کی اونچائی پر مدار میں گردش کرے گا اور اگلےتین سال تک ہر سہ ماہی میں کر ۂ ارض کے تمام مقامات کی معلومات بھی جمع کر سکے گا ۔ماہرین کاکہنا ہے کہ ہم سمندری برف کی چادر میں کمی اور بیشی کے لیے اس وجہ سے فکر مند ہوتے ہیں ۔کیوں کہ یہ سمندر اور کرہ ٔ ارض کے ماحول کے مابین توانائی کا تبادلہ کرتا ہے ۔بولڈر میں قائم یونیورسٹی آف کو لیریڈو کے(galaciologist )ماہر گلیشیر ولید عبدالاتی نے پہلی مرتبہ آئیسیٹ 2 کی تجویز دی تھی ۔یہ سمندرکے نظام ِگردش ،ماحول کے نظام ِگردش ،موسموں اور آب وہوا جیسے قدرتی عوامل پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ماہرین ان طر یقوں کو سمجھنا چاہتے ہیں جو قطبین کی برف میں تبدیلیوںکا باعث بنتی ہیں ۔جب سائنس دا ں یہ جان جائیں گے کہ اس زمین کی برف میں کس طرح اور کس وجہ سے تبدیلیاں ہوتی ہیں تب وہ ان معلومات کو آئندہ ہونے والی تبدیلیوں کی بہتر پیش گوئی کرنے کے لیے استعمال کرسکیں گے کہ یہ اچانک تبدیل ہوکرکتنے نقصان کا باعث ہو سکتی ہیں ۔

آئیسیٹ 2کے پیشرو آئیسیٹ کا مشن 2009ء میں ختم ہوگیا تھا اور جو اس وقت کاجدید ترین سیٹلائٹ تھاجو سائنسدانوں نے 2008میں ترتیب دیا تھالیکن آئیسیٹ 2کی ٹیکنالوجی کو ڈیویلپ کرنے میں سائنس دانوں کو پانچ سال کا عرصہ لگا تھا ،جس کو

(Advanced Topografic Laser Altimeter System)

ایڈوانسڈ ٹوپو گرافک لیزر آلٹی میٹر سسٹمATLAS))کہا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مشکلات کے مراحل اور بجٹ کی فراہمی میں وقت کے ضیاع کے سبب خلائی جہاز کی لانچ میں کافی وقت لگ گیا ۔

ناسانے مختلف سیٹلائٹ مشن کے درمیان کے سالوں میں شمالی اور جنوبی قطبین کی برف کا ہوائی سروے آئیس بریج مشن کا حصہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا، تاکہ اس کا ڈیٹا اوقات کی مطابقت میں رہے ۔آئیس بریج مشن کا فنڈ2020 ء تک برقرار رہے گا۔اونچائی کی پیمائش کے لیے اٹلسAtlas))ہر ایک سیکنڈ میں 10 ہزار لیزر کی پلس سیٹلائٹ سے زمین کی سطح کی طرف روانہ کرے گا اور فوٹون کے زمین کی سطح سے ٹکرانے اور اس کے بعد سیٹلائٹ کی طرف واپس جانے کے وقت کی پیمائش سے اونچائیوں کا پتہ چل جائے گا جو جتنی جلدی جائے گا وہ اتنی ہی زیادہ اونچائی ظاہر کرے گا ۔ آئیسیٹ 2 کے مشن میں 0.7 کی اونچائی کے بعد پیمائش کی جائے گی جب کہ آئیسیٹ میں یہ فاصلہ 170 میٹر رکھا گیا تھا ۔اس کے کیمرے کا زیادہ ریزولیشن کرہ ٔ ارض کی برف کی ٹوپو گرافی (اونچ نیچ ) کی بہترین تصویر کشی کرے گا اور وقفے وقفے سے برف میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی بھی فراہم کرے گا ،جس سے پیش بینی کر کے ماڈل بنائے جاسکیں گے۔

علاوہ ازیں اٹلس جنگلات کی نشوونما کا بھی سر اغ لگا سکے گا جو کاربن میں اضافہ یا کمی کی مخصوص نشان دہی کرنے میں سود مند ہے۔ جب تحقیق کار زمین پر مرکوزسیٹلائٹ سے حاصل کردہ ڈیٹا سے واقف ہوں گے ۔مثال کے طور پر اوزون ،ہواکی کوالٹی اور زمین میںنمی کے تناسب کی بابت آگاہ ہوں گے تو وہ ایک زیادہ مکمل کریاتی منظر اور اس طر یقےکار کا معائنہ کر سکیں گے ،جس سے برف ،سمندر اور آ ب وہوا متاثر ہوتی ہے ۔سیاٹل کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر پیٹر نیف کا کہنا ہے کہ یہی وہ چیز ہے ،جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آب وہوا کی تبدیلی میں اس کا سب سے بڑا کردار ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ اور وجوہات موجود ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین