انٹرویو: ستارہ جبیں بٹ
عکاسی: عارف نجمی
فن کی دنیا میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو اپنے منفرد انداز سے ایک الگ مقام بناتے ہیں۔ ان کی اداکاری ایک اچھوتے انداز کی ہوتی ہے۔ جو لوگوں کے ذہنوں میں مدتوں محفوظ رہتی ہے۔ ان کا بولنے، اداکاری کا انداز عام لوگوں سے بالکل ہٹ کر ہوتا ہے۔ ان کی اداکاری دل پر اثر کرتی ہے اور وہ ہر کردار میں اس طرح ڈھل جاتے ہیں جیسے وہ ان کے لئے ہی بنایا گیا ہو۔ مکالموں پر گرپ، چہرے کے بھرپور تاثرات، منجھی ہوئی اداکاری۔۔۔ یہ نام ہے توقیر ناصر کا۔ منجھے ہوئے اس فنکار کا سنجیدہ فنکاری میں کوئی ثانی نہیں۔1978ء میں توقیر ناصر نے اپنے فنی کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے بحیثیت ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں بھی اپنی خدمات انجام دیں۔
توقیر ناصر کام کے بارے میں سمجھوتہ نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ وہی کردار سائن کئے جس کے ذریعے وہ معاشرے کی اصلاح کرسکیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا۔ صحافت میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، فوج میں جانے کےخواہاں تھے لیکن قسمت نے انہیں اداکار بنا دیا ۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز بھی دیا جاچکا ہے۔ ہم نے ان سے ان کے فنی کیریئر اور زندگی کے حوالے سے کچھ دلچسپ گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
جنگ:اداکاری کا شوق بچپن سے تھا؟
توقیر ناصر:نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ مجھے فوج میں جانے کا شوق تھا۔ جب میں کالج میں پڑھ رہا تھا تو میں دو بار آئی ایس بی گیا لیکن وہاں سے deferہوا۔ میری فیملی میں اداکاری کا ماحول تھا ہی نہیں۔ اس دور میں نوجوانوں کے لئے انٹرٹینمنٹ صرف فلم ہوتی تھی اور سینما پر اس وقت وحید مراد کا راج تھا جو میرے فیورٹ تھے۔ ان کو دیکھ کر ہی مجھے اداکاری کا شوق ہوا۔ حالانکہ میرے اور ان کے انداز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن مجھے سکرین پر ان کا کرزما متاثر کرتا تھا۔ فلم میں، میں اس لئے نہیں گیا کہ فلم میں جاتا تو میری بڑی پٹائی ہو جاتی کیونکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں فلم کو اس طرح سے قبول نہیں کیا جاتا تھا۔
اس زمانے میں حتیٰ کہ ڈرامے میں کام کرنے پر بھی مجھے فیملی کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ اس وقت سمجھا یہ جاتا تھا کہ جو بچہ شوبز میں چلا گیا وہ خراب ہوگیا۔ پہلے پلے کی اجازت میں نے صرف اپنی والدہ سے لی تھی۔ والد صاحب نہیں جانتے تھے۔ چونکہ میرا ڈرامہ پورے ملک میں چلا تھا تو پھر والد صاحب کو بھی پتہ چل گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا اس کو مشغلے کے طور پر لو اور فیملی والے جو باتیں کررہے ہیں، ان کو غلط ثابت کردو۔ کوئی کل کو یہ نہ کہے کہ دیکھا ہم صحیح کہتے تھے کہ یہ اچھی فیلڈ نہیں ہے۔ یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اس فیلڈ کا غلط استعمال نہیں کرنا۔
میں نے ایسا ہی کیا اور نہ صرف اپنی فیملی بلکہ ملک کی عزت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے کام کیا۔ میرا تعلق ڈی جی خان سے ہے جبکہ میں لاہور میں پلا بڑھا ہوں لیکن کوئی بھی مجھ سے جب یہ پوچھتا ہے کہ کہاں سے ہو؟ تو میں کہتا ہوں کہ میںپاکستان سے ہوںکیونکہ مجھے اپنے چالیس سالہ کیریئر میں چاروں صوبوں سے بہت محبت ملی۔ یہ سارا ملک میرا اپنا ہے۔ میں نے زندگی میں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اورناکامیاں بھی لیکن میں کبھی نہیں گھبرایا۔ میں نے اپنے والدین اور اساتذہ سے یہی سیکھا کہ جو دیتا ہے صرف اللہ ہی دیتا ہے۔ ہمیں صرف کوشش اور محنت کرنی چاہئے اور ہر کام مخلص ہو کر کرنا چاہئے۔ میں نے بہت مخلص ہوکر کام کیا۔ کام میرا پیشن ہے، پروفیشن نہیں ہے۔
جنگ:زمانہ طالب علمی میں دوسرے طلبا سے کافی مختلف تھے، کیوں؟
توقیر ناصر:اساتذہ طلبا کے لئے بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔انسان اپنے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی میں طالب علمی کے تین سالوں میں مجھے نہایت قابل اساتذہ سے پڑھنے کا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے اساتذہ میں عبدالاسلام خورشید، مسکین حجازی، ڈاکٹر مہدی حسن اور وارث میر شامل تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ 14سال جو میں نے پڑھا وہ ایک طرف اور یہ 3سال ایک طرف تھے۔ اس عمر میں مجھ میں جتنا شعور آیا اور میں جتنا میچور ہوا، وہ ان اساتذہ کی بدولت تھا۔ دوسرا یہ کہ میری نیچر میں شامل ہے کہ میں بہت زیادہ لوگوں سے نہیں ملتا۔ ابھی بھی میرے دوست وہی پرانے ہیں۔ آج کل تو دوستیاں مقصد کے تحت کی جاتی ہیں۔ ہمارا زمانہ خلوص کا تھا۔
جنگ:آپ کے زمانے کے ڈرامے بہتر تھے یا آج کے؟
توقیر ناصر:بے شک وہ ڈرامےزیادہ بہتر تھے کیونکہ وہ کمرشل نہیں تھے حالانکہ انٹرٹینمنٹ کا عنصر ان میں بھی شامل تھا۔ ڈرامہ اب بھی دیکھا ضرور جاتا ہے لیکن اس کی وہ تاثیر نہیں ہے۔ ہمارے پاس آج اتنا ڈرامہ ہے کہ دھڑا دھڑچل رہا ہے۔ لیکن پھر بھی خامیوں سے بھرپور ہے۔ کمرشلزم کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ہمارے وقت میں پیشن بہت تھا، اب صرف پیسہ ہے۔ ہمارے وقت کے تو رائٹرز، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز بھی بہت محنت اور لگن سے کام کرتے تھے۔ آج ہمارے پاس اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حمید کاشمیری اور منو بھائی جیسے رائٹرز نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے ساری زندگی ایک ایک سطر کسی نہ کسی مقصد کے لئے لکھی تھی۔ وہ ڈرامے صرف انٹرٹینمنٹ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لئے لکھتے تھے۔
اس کے علاوہ پہلے جو ڈرامہ ڈیڑھ سال میں لکھا جاتا تھا وہ اب ڈیڑھ ماہ میں لکھا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اچھے رائٹرز نہیں ہیں، اچھے رائٹرز ہیں لیکن کم وقت ہونے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو منوا نہیں پا رہے۔ اگر رائٹر کو وقت دیا جائے تو پہلے سے زیادہ شاندار ڈرامہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا المیہ یہ کہ ہم نے پرانے رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو فارغ کرکے بٹھا دیا ہے حالانکہ انہوں نے نئے فنکاروں کو سکھانا تھا۔ یہ ہماری یونیورسٹیز تھے لیکن ہم نے اپنی ہی لابی بنا لی ہے۔ جو اچھا کام کرکے لا رہا ہے، اس کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ مافیا سے بچیں اور کری ایٹویٹی پر زور دیں۔
جنگ:آپ کو خصوصاًسنجیدہ رولز دئیے جاتے تھے،کیوں؟
توقیر ناصر: میرے پاس کامیڈی ڈرامے اور سٹ کامز بھی آتے ہیں لیکن میرا اپنا ذہن ان سے میچ نہیں کرتا۔مجھے جب ڈرامے کی آفر ہوتی ہے تو سب سے پہلے میں یہ دیکھتا ہوں کہ اس ڈرامے کے ذریعے میں معاشرے کو کیا دوں گا۔ میں نے پیسے کے لئے کام نہیں کیا۔ میں نے انڈیاکی آفرز کوبھی انکار کیا ہوا ہے۔ میں سب سے پہلے سکرپٹ پڑھتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ میرا کردار کیا ہے، مارجن آف پرفارمنس کتنا ہے اور اس سے معاشرے کو کیا فائدہ ہوگااور چوتھے نمبر پر یہ دیکھتا ہوں کہ یہ نہ ہو کہ واہ واہ تو ہو جائے لیکن میرے والد، بھائی یا بچے کو کہا جائے کہ یہ کس طرح کے کردار ادا کر رہا ہے؟
جنگ:اپنا کونسا کردار سب سے زیادہ پسند آیا؟
توقیر ناصر:مجھے اپنا ہر کردار پسند ہے، کوئی ایک میرا فیورٹ نہیں کیونکہ میں نے ہر کردار ادا کرتے ہوئے محنت کی ہے اور میں آج بھی اتنی ہی محنت کرتا ہوں۔ میں نے بہت سے کردار ادا کئے۔ میں ’’اینگری ینگ مین‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب آنے والے فنکاروں میں بھی کوئی اینگری ینگ مین ہو۔ کوئی ابھی تک میری جگہ نہیں لےپایا۔ اداکاری میں کردار کو جینا ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ آج کے فنکار کردار کو جیتے نہیں ہیں۔ میں آج بھی پورا سکرپٹ پڑھتا ہوں تاکہ سمجھ آ جائے کہ یہ ڈرامہ لوگوں کو کیا دے رہا ہے۔ میں نے اپنے کیریئر میں جتنا زیادہ کام کیا ہے، اس سے کئی زیادہ غیر معیاری کام کو انکار کیا ہے۔
جنگ:سلیم ناصر کے ساتھ پہلا ڈرامہ ’’پرواز‘‘ کیا،کیسا تجربہ تھا؟
توقیر ناصر:بہت کمال اداکار تھے ان سے میں نے ایک چیز سیکھی تھی کہ وہ ہر نئے آنے والے فنکار کو سکھاتے تھے، میں بھی یہی کرتا ہوں، جو فنکار نوجوان کام سیکھنا چاہتے ہیں اور ان میں وہ پیشن ہوتا ہے تو میں اسے ضرور سکھاتا ہوں، سلیم ناصر نے مجھے اس ڈرامے میں بہت کچھ سکھایا۔ ہم دونوں کا وہ ڈرامہ کافی کامیاب رہا۔
جنگ:آرٹس کونسل کے سٹیج سے بہت بڑے نام منسوب رہے ہیں، کیا وجہ ہے کہ آج کے سٹیج تھیٹر کا وہ معیار نہیں رہا؟
توقیر ناصر:اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کمرشل تھیٹر کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کلاسیکل تھیٹر کو بھلا دیا ہے۔ کلاسیکل تھیٹر کو زندہ رکھنا ہم سب کا کام ہے۔ اس کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں اور ہم نے اس پر کام بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ انشاء اللہ آپ بہت جلد اس میں تبدیلی دیکھیں گے۔ تھیٹر پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھا جا رہا ہے۔ جو آرٹسٹ پرفارم کرتے ہوئے غلط بات کرتا ہے اور رولز کو توڑتا ہے اس کو بین اور بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے ۔ ہماری کوششیں جاری ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد لوگ بہتر ڈرامہ دیکھیں گے۔
جنگ:کیا آرٹ کے ذریعےتبدیلی لائی جاسکتی ہے؟
توقیر ناصر:بالکل۔ آرٹ کے ذریعے ذہنی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ پہلے وقت میں بھی اس آرٹ کے ذریعے ہی تو تبدیلی آئی ہوئی تھی جسے ہم نے نظرانداز کردیااور تبدیلی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔میں نے 80اور90کی دہائی میںبہت کام کیا اور کوئی بھی ایسا کام نہیںتھاجس پر آج مجھے شرمندگی ہوکیونکہ وہ سکرپٹ ہی بہت جاندار تھے اور رائٹرز نے معاشرے کو اپنے سکرپٹ میں سمیٹا ہوا تھا۔اشفاق احمد ٹانگے والے کی بات کرتےتھےتو اس کا پورا امیج آتا تھا۔ان لوگوں نےمعاشرے کو اپنے قلم سے آگاہی دی، موٹٹیویٹ کیا اور معاشرے کی اصلاح کی۔ آرٹ کے ذریعے ہی انقلاب آتے ہیں ۔فرانس میں انقلاب پکاسو کی پینٹینگز سے آیا۔
پاکستان کیسے وجود میں آیا ؟ صرف علامہ اقبال کے الفاظ نے سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا۔ آرٹ میں بہت طاقت ہے۔ اگر ہم اسے مثبت رخ میں استعمال کریں اور اسے صرف پیسے کاذریعہ نہ بنائیں۔ ہمارےہاں 150چینلز کو لائسنس دے دیا جاتا ہے ،یار چیک تو کرلو کہ اس کا کرائٹیریا کیا ہے؟ چیک اینڈ بیلنس ہوگا تو ہی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اگرنیوز چینل ہے تو اس کی پالیسی کیا ہے ،کوئی انٹرٹینمنٹ چینل ہے تو وہ کسی مقصد کیلئے بنایا جا رہا ہے۔ ان سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر لائسنس جاری کرنا چاہئے تاکہ معیاری کام کوفروغ دیا جاسکے۔
جنگ:آپ کی فٹنس کا راز کیا ہے؟
توقیر ناصر:(مسکراتے ہوئے) جب یہ راز ہے تو اسے راز ہی رہنے دیں۔
جنگ:کھانے میں کیا پسندہے؟
توقیر ناصر:میں ویجیٹیرین ہوں۔ بینگن کے علاوہ سب کچھ پسند ہے۔ میں روکھی سوکھی بھی کھا لیتا ہوں۔
جنگ:نئے فنکاروں کو کس سطح کی محنت کرتےہوئے دیکھتےہیں؟
توقیر ناصر:محنت ان سے کرواتا ہی کوئی نہیں ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیںہےکہ ہم نے کیسےکام کرناہے کیونکہ کوئی گائیڈنہیںکرتا۔ ان کو بس اپنی فٹنس اور خوبصورتی کی طرف توجہ دینی ہوتی ہے۔ باڈی ٹیوننگ ہو رہی ہے لیکن سکرپٹ کی طرف توجہ نہیں دی جارہی۔ ڈائریکٹر ز کا بھی یہی حال ہےجس کی وجہ سے ان کی کبھی گرومنگ نہیں ہوپاتی۔ یہ کام تو خون جگر سے کیا جاتا ہے ، راتوں کو جاگنا پڑتا ہے، اپنے آپ کو بھٹی میں ڈالنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کندن بنتا ہے۔ ایسے تو نہیں بڑے بڑے فنکاراور نامور شخصیات بنیں۔اللہ نے انسان کو صلاحیتیں ضرور دی ہیں لیکن ایک اچھے مقام تک پہنچنے میں محنت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ایکٹر یا ایکٹرس خوبصورت تب ہی لگتے ہیں جب وہ پرفارم اچھا کر رہے ہوتے ہیں ۔
جنگ:نئے فنکاروں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟
توقیر ناصر:نئے فنکاروں کو میں یہ کہوں گا کہ سیکھیں اور سیکھنے کی کوشش کریں۔ ان استادوں سے سیکھیں جو گزر گئےہیں ،گزر رہے ہیں اور جو دستیاب ہیںان سے فائدہ اٹھائیں۔ پرانے ڈرامے نکال کر دیکھیں، روحی بانو کو دیکھیںاور سوچیںروحی بانو کیسے بنی تھی۔ روحی بانو کو 25سال ہوگئے کام چھوڑے ہوئے لیکن آپ ایک اور روحی بانو پیدا نہیں کرسکےتو کس ڈرامے کی بات کرتےہیں؟ دل جلانے کی بات کرتے ہیں؟ میں نئے فنکاروںکو سیکھنے کی تلقین کروںگا۔ سیکھیں گے تو ہی آگے بڑھیں گے۔
جنگ:زندگی سے کیا سیکھا؟ آج توقیر ناصر کو کہاں دیکھتےہیں؟
توقیر ناصر:میں سمجھتاہوں کہ آج بھی توقیر ناصر اپنی پرواز کا راستہ بنا رہا ہے۔ میرے پہلے ڈرامے کا نام ’’پرواز‘‘ تھا اور اس میں میرا ڈائیلاگ یہی تھا کہ میں اپنی پرواز کا راستہ خود بنائوں گا، میں اپنا رزق خود کمائوں گا۔ یہ ڈائیلاگ میرے دل پر اثر کر گیا تھا۔میں آج بھی محو پرواز ہوں، آج بھی اپنا راستہ بنا رہا ہوں، رزق کما رہاہوں اور حلال کمانے کی کوشش کررہاہوں ۔