• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاطمہ عرفان، کراچی

اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات تک کرنا بھی برا سمجھتا تھا، اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک روز بادشاہ شکار کرنے گیا ،کسی جانور کا پیچھا کر رہا تھا کہ اس کا گھوڑا بے قابو ہو کر دور نکل گیا، تمام نوکر سپاہی وزیر سب بچھڑ گئے اور بادشادہ تنہا رہ گیا۔اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑلی۔اس کی شکل ہوبہو بادشاہ سے ملتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریبوں جیسی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ، ’’میں تین دن سے حضور کی ڈیوٹی پر بھوکا پیاسا چلا آرہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا‘‘۔

بادشاہ غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ایسے لوگوں سے بات نہیں کرتا۔ غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا،یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔اس نے باگ ڈور ایک درخت سے انکائی، تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اورنہانے کےلیے تالاب میں اترگیا۔یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کاکچھنظر نہ آتا تھا، جب بادشاہ تالاب میں اُتر چکا تو غریب کسان نے بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا بادشاہ کے گھوڑے پر سوار ہوکر رفوچکر ہوگیا۔

کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے شاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اوراُن کے ساتھشاہی محل میں چلاگیا۔اصل بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلا تو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔وہ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ نا چار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا، مگر اب اس کی یہ حالت تھی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔

دو تین ہفتے اسی طرح گزرگئے۔ جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر،جس سے اس کی سچائی کی تصدیقہوگئی۔

کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا، کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہیں سنتے تھے؟ اسی کی سزا دینے کےلیے میں نے یہ سب کیاتھا۔

اگر تم گھمنڈ چھوڑ کر رحم وانصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس کرنے کو تیار ہوں ،ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج وتخت واپس دے کر گھر چلاگیا،جس کے بعد بادشاہ نے اپنی اصلاح کی اور چند دنوں میں اس کی نیک نامی کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین