• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اکثر بچوں کو کھیل کودسے ہٹا کر پڑھائی پر لگانے کی کوشش کرتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ وہ کھیل کود میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کتابیں  پڑھیں، جب ہم ایسا کرتے ہیں تو بے شک بچہ کتابیں لے کر بیٹھ جاتاہے لیکن اس کا دھیان کھیل میں ہی لگا ہوتا ہے اور وہ کتاب پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بچوں کو کھیل کود سے نہ ہٹایا جائے بلکہ اس میں اعتدال لانے کی کوشش کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ آپ بھی بچوں کے ساتھ کھیل کود میں شامل ہوں، ان کے ساتھ کھیل کود کو احسن طریقے سے ختم کرکے کتابوں کےپاس لائیں اور پھر ان کی توجہ پڑھائی پر مرتکز کرکے ہٹ جائیں۔ اگر چھوٹے بچوں کو تعلیمی کھلونوں میں مشغول کردیا جائے تو اس سے ایک پنتھ دو کاج کا کام لیا جاسکتاہے۔

یورپی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیےکہ اپنے بچے کو ذہین اور چاق چوبند بنانے کے لئے ان کی پیدا ئش کے دن سے ہی انھیں گیم کھیلنے کا عادی بنا ئیں لیکن ذرا مختلف انداز میں، کوشش کریں کہ بچوں کو موبائل فون، کمپیوٹر یا کسی اور گیجٹ پر گیم کھیلنے کی عادت نہ پڑے بلکہ براہِ راست ایسے کھیل کھیلیں جن سے جسمانی نشوونما ہو۔ بچوں کی ذہانت کے لئے بہتر ہے کہ والدین کھیل کھیلتے ہوئے انہیں مختلف چیزیں، پھل اور سبزیاں وغیرہ دکھا کر ہر ایک کا رنگ بچے کو بتائیں۔ مثال کے طور پر سنگترا لیں اور بچے کو بتائیں کہ سنگترا پیلا ہوتا ہے۔ اسی طرح باقی سبزیوں اور پھلوں کے رنگوں سے اسے روشناس کروائیں اور بتدریج دیگر چیزوں کے متعلق اسے بتاتے جائیں۔ برطانوی ادارے، چلڈرنز نیشنل ہیلتھ سسٹم کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ گیم کھیلنے کے پہلے دن سے ہی ان کا دماغ مربوط اور متحرک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ توتلی سی آواز میں لاڈ پیار پر مبنی بے معنی باتیں کرتے ہیں، اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ بچہ کند ذہن بنتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ذہین دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ بچے تعلیم کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے والدین خصوصاً ماؤں کی جانب سے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بہت سے بچے کم سنی میں ہی تنہائی اور لا پرواہی جیسی عادات کے ساتھ بول چال میں نہایت کمزور واقع ہوتے ہیں، اگران کے بعض جسمانی اور نفسیاتی عوارض کو دور کردیا جائے تو وہ بچے کامیاب سائنسدان، عالم، موجد موسیقار اور فن کار بن کر ابھرسکتے ہیں۔

مصرکے ایک ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر مجد العجرودی نے ایسے آٹھ مفید مشورے بیان کیے ہیں، جو تمام والدین بالخصوص ماؤں کیلئے ان کے بچوں کی ذہنی نشوونما کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ مفید مشورے کیا ہیں؟ آپ بھی جانیے۔

1۔ بچے میں خود اعتمادی پیدا کرنا ضروری ہے۔ بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں خود کو دیکھتا ہے۔ اگر بچے کی زیادہ سے زیادہ تعریف وتوصیف کی جائے گی تو اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا اور یوں اس کی ذہنی صلاحیتوں کی بہتر انداز میں نشو ونما ہوسکے گی۔

2۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش صرف والدین تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ بچے کو ’محدود ذہنیت‘‘ کا الزام نہیں دینا چاہیے بلکہ ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے اس کے اساتذہ اور دوستوں کو بھی اس بات پرقائل کریں کہ وہ بچے میں خود اعتمادی کےفروغ کی کوشش کریں۔

3۔ بچے کو ڈرانے دھمکانے اور اسے دوسرے بچوں کی نظر وں سے گرانے سے گریزکریں، چاہے وہ بار بار غلطی کیوں نہ کرے۔ بار بار کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔

4۔ بچے کی ان خوبیوں کو تلاش کریں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس کی آواز اور قدرت کلام کو بہتر بنانے پر توجہ دیجیے۔ اسے گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ اسکول میں بھی اعتماد حاصل کرسکے۔

5۔ بچے کی ذہانت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ نہ ڈالیں۔ ایسا نہ ہو کہ کام کے بوجھ تلے دب کر بچہ ناکام اور مایوس ہوجائے۔

6۔ بچے کی محدود صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ہمہ وقت اس کی مدد جاری رکھیں۔ پینٹنگز پر توجہ دینےکے بجائے بچے کے تدریسی مواد مثلاً لکھائی پڑھائی میں اس کی مدد کیجیے۔

7۔ دوسرے بچوں کے سامنے اپنے بچے کو نفسیاتی طورپر گرانے کی کوشش نہ کریں بلکہ دوسروں کے سامنے بھی اپنے بچے کی تعریف کیجیے۔

8۔ بچے کے پسندیدہ اور مثبت مشاغل میں اس کی مددکیجئے تاکہ اس میں دوسرے بچوں کے درمیان رہتے ہوئے خود اعتمادی کا احساس پھلتا پھولتا رہے۔

امید ہے کہ والدین ان مشوروں پر عمل کرکے بچوں کی بہتر طریقے سے نشوونما اور تربیت کریں گے۔

تازہ ترین