• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوبز کی فلمی دنیا چمکتے،دمکتے،ڈوبتے ،ابھرتے ستاروں سے ہر دم جھل مل کرتی رہتی ہے،لیکن یہاں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی خبرگرم رہتی ہے،کبھی ستاروں کی شادی کے حوالے سے تو کبھی ان کے رومانس اور طلاق کی خبریں سنائی دیتی ہیں ۔کہتے ہیں کہ سیاست دان ہوں یا فن کار، اُن کی ذاتی زندگی،اُن کی نہیں رہتی۔عوام اُن کے بارے میں جاننے کے خواہش مندہوتے ہیں، غالباًیہی وجہ ہے کہ اُن کی شادی ہی کی نہیں علیحدگی کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ایک عام خیال ہے کہ شوبز کی دنیامیں عموماًشادیاں کام یاب نہیں ہوتیں،لیکن ایسا نہیں ہے۔اس ہفتے فلمی دنیا کے چندکام یاب مثالی جوڑوں کےبارے میں ملاحظہ کریں،ایسے متعدد ستارے ہیں جنہوں نےاسکرین پرایک دوسرے کو پسند کیا،شادی کی،کام یاب زندگی گزاری اور گزاررہے ہیں:

صبیحہ خانم، سنتوش کمار

صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی جوڑی بلاشبہ خوب صورت فلمی جوڑی تھی، 50 کے عشرے میں یہ جوڑی سپرہٹ قرار پائی۔ صبیحہ خانم کا اصل نام ’’مختار بیگم‘‘ جبکہ سنتوش کمار کا نام ’’سید موسیٰ رضا‘‘ تھا۔ قیام پاکستان سے قبل سنتوش کمار اپنی پہلی فلم میں کام کرچکے تھے تاہم 1950 میں پہلی پنجابی فلم ’’بیلی‘‘ میں جلوہ گر ہوئے۔ اسی برس انور کمال پاشا کی اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ میں ہیرو کا تاریخ ساز کردار کیا، جبکہ صبیحہ خانم تقسیم سے قبل ہی تھیٹرسے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کرچکی تھیں۔ پنجابی فلم ’’بیلی‘‘ میں بھی انہیں سائیڈ رول کے لیے کاسٹ کیا گیا تھا۔ تاہم سنتوش کمار کے ساتھ فلم ’’دو آنسو‘‘ میں صبیحہ خانم کو ہیروئن کا کردار ملا۔

شائقین نے اس جوڑی کو بے حد پسند کیا۔ یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کی پاکستان کے سینما گھروں میں 25 ہفتے شاندار نمائش جاری رہی۔ اُن دنوں فلموں کی شوٹنگ کے دوران ہی صبیحہ اور سنتوش ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے اور بالآخر شادی کے بندھن میں بندھ گئے،فلمی دنیا میں اس جوڑی کو خوب سراہا گیا۔ سنتوش کمار پہلے سے ہی شادی شدہ تھے۔ صبیحہ خانم سے ان کی دوسری شادی تھی۔انہوں نے صبیحہ خانم کے ساتھ اپنے رشتے کو آخری دم تک نبھایا۔ ان کی وفات کے بعد صبیحہ خانم کو کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ معروف اور خود پسند شاعرمنیر نیازی مرحوم نے ایک بار کہا تھا اور ان کا یہ جملہ آج بھی بہت مقبول ہے کہ’’ پاکستان میں تین خوبصورت لوگ ہیں نمبر ایک سنتوش کمار نمبر دو کرکٹر فضل محمود اور تیسرا میں خود ....‘‘

نیر سلطانہ،درپن

پاکستان فلم انڈسٹری کی 50 کے عشرے کی ایک اورکام یاب جوڑی نیر سلطانہ اور درپن کی بھی تھی۔نیر سلطانہ کی پہلی فلم ہدایت کار انور کمال پاشا کی ’’قاتل‘‘ تھی۔ فلم قاتل مسرت نذیر اور اسلم پرویز کی پہلی فلم تھی جو 1955 میں ریلیز کی گئی تھی اس کے بعد ہدایت کار ہمایوں مرزا نے انہیں اپنی فلم ’’انتخاب‘‘ میں ہیروئن منتخب کیا،لیکن اصل شہرت فلم ’’سات لاکھ‘‘ سے ملی۔معاون اداکارہ، ہیروئن یا پھر کیریکٹر ایکٹریس، انہوں نے جو بھی کردار ادا کیا خوب کیا۔ انہوں نے معروف اداکار درپن سے شادی کی۔ درپن کا اصل نام سید عشرت حسین تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1950 میں ہدایت کار حیدر شاہ کی فلم ’’امانت‘‘ سے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے چند پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ درپن اور نیر سلطانہ کی شادی فلمی صنعت کی کام یاب ترین شادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ نیر سلطانہ شادی کے کچھ عرصے بعد فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئیں تھیں۔ 60 کی دہائی کے آخر میں وہ دوبارہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئیں۔ درپن 1980 میں انتقال کرگئے۔ شوہر کے انتقال کے بعد نیر سلطانہ نےان کا بزنس سنبھالا ۔المیہ اداکاری میں نیر سلطانہ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہیں ’’ملکہ جذبات‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

ریاض شاہد،نیلو

مقبول ترقی پسندرائٹروہدایت کارریاض شاہدنے 1962میں پہلی بار فلم ’’سسرال‘‘ میں ہدایت کاری کے فرائض سرانجام دیے۔ ’’سسرال ‘‘ کو پاکستان کی یادگار فلم قرار دیا جاتا ہے۔اس کے بعد انہوں نے ’’فرنگی‘‘ کی کہانی لکھی جس کے ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔انہوں نے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’’زرقا‘‘ اور ’’یہ امن‘‘ جیسی شاہکار فلمیں بنائیں۔جب اپنی فلم ’’زرقا‘‘ بنانے کا اعلان کیا اور اداکارہ نیلو کو فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا ۔اس فلم کے نغمات ترقی پسند شاعر حبیب جالب نے لکھے۔ان کی فلم’’زرقا‘‘ کو تین نگار ایوارڈ دیئے گئے۔ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کی۔نیلو کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا،اسلام قبول کرنے کے بعدوہ’’ عابدہ ریاض‘‘کہلائیں۔نیلو نے 1956 میں فلم ’’بھاوانی جنکشن ‘‘سے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا۔

محمد علی ،زیبا

سپراسٹارمحمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔ بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔1962ء میں محمد علی نےفِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئیرکا آغاز کیا۔ جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں ریلیز ہونے والی فلم "شرارت" سے ملی۔ انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں۔ انہوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ’’علی زیب‘‘ کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انہوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔کہتے ہیں کہ فلم "چراغ جلتا رہا"کے پہلے ٹیک سے ہی محمد علی زیبا کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے، لیکن اس وقت کے معروف اداکار لالہ سدھیر نے زیبا کو شادی کا پیغام دیا ۔

زیبا کی سدھیر سے یہ دوسری شادی تھی ان کی پہلی شادی خواجہ رحمت علی سے ہوئی تھی جو 1959 سے 1962تک رہی اور ان کے فلم انڈسٹری میں آنے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔شادی کے بعد لالہ سدھیر نے زیبا کو فلموں میں کام کرنے سے منع کر دیا۔ مگر زیبا نے اس پابندی کو قبول نہیں کیا،بالآخر طلاق تک نوبت آگئی۔زیبا لاہور واپس آگئیں اور فلموں میں کام کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔1966میںمحمد علی اور زیبا کا نکاح ہوگیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری۔

مصطفی قریشی ،روبینہ قریشی

60کی دہائی میں سندھ دہرتی سے تعلق رکھنے والی مصطفی قریشی اور روبینہ قریشی کی جوڑی بہت مقبول ہوئی،گو کہ انہوں نے فلموں میں ایک ساتھ کام تو نہیں کیا لیکن پردہ سیمیں پہ اپنے منفرد اندازاورعمدہ کارکردگی سے خود کو منوایا۔مصطفی قریشی نے بھی شو بزمیں اپنا کیرئیرکا آغاز بہ حیثیت صدا کار کیا۔ان کی پہلی فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘1958میں ریلیز ہوئی ،جس نے باکس آفس پر زبردست بزنس کیا۔ پنجابی فلموں نے ان کی شہرت کومزید چارچاند لگادیے ۔ پہلی پنجابی فلم ’’چارخون دے پیاسے‘‘میں بھی یادگار کردار نبھایا ۔اسی طرح فلم ’’ مولا جٹ ‘‘ میں مصطفیٰ قریشی نے نوری نت کے کردار کو بھی انمول بنادیا ۔مصطفی قریشی کی اہلیہ روبینہ قریشی ان کے فلم میں آنے سے قبل اعلیٰ پائے کی فنکارہ تھیں، انہوں نے منفرد آواز کے ساتھ کئی لازوال گیت گائے اور ’’بلبلِ مہران‘‘کا بھی خطاب پایا۔مصطفی قریشی کی روبینہ سے ملاقات ریڈیو اسٹیشن حیدرآباد میں ہوئی تھی۔1971میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔شادی کے بعد بھی کافی عرصے تک روبینہ قریشی آواز کا جادو جگاتی رہیں۔

شبنم،روبن گھوش

ماضی کی ایک اور اداکارہ شبنم جو آج بھی دلوں پر راج کرتی ہیں،70 اور80 کے عشرے میں فلمی دنیا پہ حکمرانی کی۔ان کا اصل نام ’’جھرنا‘‘تھا، 1962ء میں فلم ”چندا “ میں بطور معاون اداکارہ فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والی شبنم بہت جلد آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں،انہوں نے اپنی عمر کے بیس سے زائدبرس پاکستان فلم انڈسٹری کے نام کئے، اور دوسو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انمول، آئینہ، دل لگی، پہچان ،چندہ، آس، آبرو اور زینت ان کی سپر ہٹ فلمیں ہیں۔1966میں میوزک ڈائریکٹر رابن گھوش کے ساتھ شادی کی ،جوفلمی دنیا کی کامیاب شادیوں میں شمار ہوئی۔روبن گھوش نے بے شمار مقبول گانوں کی دھنیں تخلیق کیں۔روبن گھوش کی مشہور فلموں میں چکوری، تلاش، چاہت، آئینہ، امبر، بندش، دوریاں شامل ہیں۔90 کے عشرے میں یہ جوڑا بنگلا دیش منتقل ہوگیا۔2016 میں روبن گھوش مختصر بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔اداکارہ شبنم نے آخری وقت تک شوہر کی خدمت میں کسر نہ اٹھا رکھی۔

خیام سرحدی ، صاعقہ

پاکستان کے سینئر ٹی وی و فلمی ورسٹائل اداکارخیام سرحدی ہدایت کار ضیا سرحدی کے بیٹے تھے۔انہوں نے امریکا سے سینماٹو گرافی کا کورس کیا۔ خیام سرحدی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈرامے ’’ایک تھی مینا‘‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے لاتعداد ٹی وی سیریلز اور سیریز میں کام کیا جن میں وارث، اندھیرا اجالا، من چلے کا سودا سرفہرست ہیں۔ انہوں نے قائداعظم پر بننے والی ڈاکومنٹری فلم ’’جناح‘‘ میں بھی سردار عبدالرب نشتر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ان کی پہلی بیوی عطیہ شرف تھیں، جو خود ٹی وی اور فلم کی آرٹسٹ تھیں ۔ یہ شادی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ ان کی دوسری شادی اداکارہ صاعقہ سے ہوئی،جو کامیاب ثابت ہوئی۔ صاعقہ بعد میں صاعقہ خیام کے نام سے مشہور ہوئیں۔70 کی دہائی میںفلمی دنیا میں قدم رکھنے والی اداکارہ صاعقہ نے اپنے منفرد انداز سے فلم انڈسٹری میں مقام حاصل کیا۔انہوں نے فلموں میں ہیروئین اورمعاون کے کردار ادا کیے ،تاہم انہیں مزاحیہ اداکاری میں ملکہ حاصل تھا۔ان کی پہلی فلم شباب کیرانوی کی’’سنگدل‘‘ تھی۔ان کی مشہور فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘مکمل کامیڈی تھی۔2011 میں خیام سرحدی کی وفات کے بعد صاعقہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ لاہور میں قیام پزیر ہیں۔

افضل خان، صاحبہ

شہر’’ حویلیاں‘‘ سے تعلق رکھنے والے افضل خان کی شکل ہالی وڈ کے فلم اسٹار ’’سلوسٹر اسٹالن‘‘ سے مشابہت رکھتی تھی۔اس دور میں سلوسٹر اسٹالن کی ریمبو سیریز بہت ہٹ ہوئی تھی۔اسی مشابہت کی بنا پر افضل خان کو شو بز میں کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ہدایت کار رؤف خالد کی ڈرامہ سیریل’’گیسٹ ہاؤس ‘‘میں ’’جان ریمبو‘‘کے کردار سے شوبز میں قدم رکھا۔یہ 90 کی دہائی تھی۔ان کی پرفارمنس کو بہت پسند کیا گیا۔ان کی شہرت کے باعث معروف ہدایت کار سعید رانا نے انہیں فلموں میں کام کرنے کی آفر دی،یوں افضل خان عرف جان ریمبو فلمی دنیا کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ان کی پہلی فلم ’’ہیرو‘‘ تھی،جس میں فلم اسٹار نشو کی بیٹی صاحبہ اور اظہار قاضی بھی تھے۔ریمبو اور صاحبہ کی جوڑی کافی مقبول ہوئی۔اس جوڑے نے متعدد فلموں میں کام کیا۔ فلم’’معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘کی شوٹنگ کے دوران ان کے درمیان حقیقی محبت کی کہانی بھی شروع ہوگئی اور نشو بیگم کی شدید مخالفت کے باوجود 1996 میں صاحبہ اور ریمبو کی شادی ہوگئی۔

ارباز خان، خوشبو

ماضی کے معروف اداکار آصف خان کے صاحبزادے ارباز خان نے 1996میں اردو فلم ’’گھوگھنٹ‘‘ سے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ارباز خان کا اصل نام عارف خان ہے،وہ پشتو فلموں کے مقبول اداکار ہیں۔ 2003 سے انہوں نے پشتو فلموں میں کام کا آغاز کیا۔اسٹیج اور فلموں کی اداکارہ خوشبو سے 2004یں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔اداکارہ خوشبونےکئی پنجابی اور اردو فلموں میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا۔ یہ فلمی جوڑی ٹی وی کے اکثر پروگراموں میں نظر آتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین