• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

مشینی ذہانت (Augmented Intelligence) مصنوعی ذہانت کی طر ف پیش قدمی کی ایک کوشش ہے ۔اس جدید دور میں مشینوں کو الگورتھم (Algorithm)سکھانے کے تجربات کیے جارہے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجیز کی بڑی کمپنیاں مشینی ذہانت کے شعبے میں کا فی سر مایہ کاری بھی کر رہی ہیں ۔گو انسان ابھی حقیقی مصنوعی ذہانت کی تخلیق سے بہت دور ہیں۔ لیکن اس سلسلےمیں تجربات مسلسل کئے جارہے ہیں۔حالیہ کوششوں میں طبیعیاتی ماہرین نے مشینوں کو الگورتھم سکھا کر ایک خاص قسم کے سپر کنڈکٹر کے کوانٹم سے بر تائو کی بابت کافی کارآمد معلومات حاصل کی ہیں جن کے حصول کے لیے ماہرین کئی عرصےسے کوشاں تھے۔ محققین نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک ہائی ٹیمپریچر سپر کنڈکٹر

((high-temparature super conductorکی تصاویر میں چھپے ہوئے پوشیدہ راز دریافت کئے ہیں۔

نیو یارک میںقائم کارنیل یونیورسٹی کی پروفیسر یون آہ کم کے مطابق اس جائزے میں پہلی مرتبہ یہ اندازہ ہوا ہے کہ کوانٹم میٹر کو سمجھنے کے لیے مشینی ذہانت کے کام یاب تجربات کیے گئے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مستقبل میں مشینی ذہانت کو کوانٹم اسپن رقیق کو سمجھنے کی کوشش میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو آنے والے وقت کے اعلیٰ ترین کوانٹم کمپیوٹر بنانے میں کار آمد ہوسکتا ہے۔

حالیہ جائزہ سپر کنڈکٹر پر مرکوز تھا، جس کے ذریعہ بجلی کو بغیر کسی برقی مزاحمت کے منتقل کیا جاسکتا ہے ۔لیکن ایسا ایبسولوٹ زیرو((absolute zero کے ٹیمپریچر پر ممکن ہوتا ہے جو منفی269 ڈگری سینٹی گریڈ کے قر یب ہوتا ہے ۔

ماہرین طبیعیات کی ٹیم نے کیو پر یٹس پر تجربات کیے تھے جو کوپر آکسائیڈ کے سینڈوچ بنے ہوتے ہیں اور یہ منفی 140 ڈگری سینٹی گریڈ پر سپر کنڈکٹر بن جاتے ہیں ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کیوپر ٹیس کے سپر کنڈ کٹر بن جانے کی وجوہات سمجھ کر ہم ایسے انجینئرنگ میٹیریل بنانے کے قابل ہوجائیں گے جو تقریباًکمرے کے ٹیمپر یچر پر کام کرنے والے سپر کنڈکٹر بنانے میں کارآمد ہوگا۔ لیکن کیوپریٹس جب سیوڈو گیپ (pseudogap) (سیوڈوگیپ بہت ہی کم توانائی کی ایسی حالت ہے جس میں صرف چند الیکٹرون کا تعلق ہوتا ہے) کی حالت میں ہو تو عجیب طر ح سے کام کرتا ہےاور یہ حالت جب پیش آتی ہے جب یہ سپر کنڈکٹر بننے کے قریب ہوتے ہیں الیکٹرون اور ایٹم کے درمیان گنجلگ قسم کا باہمی تعامل ہونے کے سبب سیوڈوگیپ بنتا ہے اور اس کی بے ترتیب حالت کے سبب اس کی بابت کچھ معلوم کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ چند ماہرین طبیعیات کیوپر یٹس کی حالت کو’’ڈارک میٹر‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود سیوڈو گیپ کا بیان کرنا ہی سپر کنڈکٹیویٹی کو سمجھنے کی طر ف پہلا قدم ہو گا ۔

اور جس کی بے ترتیب حالت کے سبب اس کی بابت کچھ معلوم کرنا بھی دقت طلب ہے۔ کیوپریٹس کی حالت کوچند ماہرین طبیعات ’’ڈارک میٹر‘ ‘کہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی سیوڈو گیپ کو بیان کرنا ہی سپر کنڈکٹیویٹی کو سمجھنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔حال ہی میںماہرین نے سیوڈو گیپ میں تر تیب کے کچھ آثار دریافت کیے ہیں جن کو الیکٹرون کی ڈینسٹی کی لہریں کہا جاسکتا ہےلیکن ان میں اس ترتیب کو بیان کرنے کے طریقوں میں اختلاف ہے۔ ماہرین کا ایک گروپ ان الیکٹرون کو’’مضبوط باہمی تعاملی ذرات‘‘ کہتا ہے۔ دوسرا گروپ ان کو لہر وں جیسا سمجھ کر’’ ان کو ضعیف باہمی تعامل ‘‘ کہتا ہے۔

ان کی ترتیب کی بابت مزید معلومات کے حصول کے لئے ماہرین کی ٹیم نے((neutral network ڈیزائن کئے تھے ،جس کا خیال ان کوانسانی دماغ کی ساخت کی بابت سوچ کر آیا تھا۔ چناںچہ انہوں نے سیوڈوگیپ کی تصاویر کا جائزہ لیا۔یہ تصاویر اسکین کرنے والی مائیکرو اسکوپک ٹنل میں لی گئی تھیں جو زیادہ تر انسانی آنکھ کو بے ترتیب نظر آتی ہیں، کیوں کہ یہ میٹیریل قدرتی طور پر ہی بے ترتیب ہیں اور پیمائشیںلینے کے دوران جو خفیف سی آوازیں پیدا ہوتی ہیںوہ اس کو مشکل بناتی ہیں۔ چناں چہ مشینی ذہانت کے ذریعہ الگورتھم ان میں ایسا امتیاز کرنا سیکھ سکتا ہے جو انسانی آنکھ کے لئے ممکن نہیں ہے۔

الگورتھم سکھانے کے لیے ٹیم نے نیورل نیٹ ورکس کی کئی اقسام فراہم کی تھیں، جس میں لہروں کی ترتیب اور مختلف تھیوریٹی کل پریڈکشن شامل تھیں۔ جب مشینی ذہانت نے ان مثالوں میں امتیاز کرنا سیکھ لیا تو کیوپریٹس کے سیوڈوگیپ کا اصلی ڈیٹا فراہم کیا گیا تھا۔81سے زائد مرتبہ تجربوں میں الگورتھم نے بار بار الیکٹرون کے ذرّے جیسے پیٹرن کوشناخت کیا جو 1990ءمیں حاصل کیا گیا تھا۔کینیڈا کی شربروک یونیورسٹی کےماہر طبیعیات آندرے میری ٹریمبلے کے مطابق اس مثال میںتو اس کی تفصیل روایاتی لہر کے مقابلے میں ذرّےسے زیادہ ملتی ہے۔ نیدرلینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کے ماہر طبیعیات ملان ایلن کا کہنا ہے کہ پیٹرن کی نوعیت اس کوبیان کرنے میں اہمیت کی حامل ہے ۔یعنی وہ کس وجہ سے نمودار ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ بلا شبہ یہ تیکنیک ماہرین کے لیے ہائر ٹیمپریچر سپر کنڈکٹیویٹی کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو گی ۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیوڈو گیپ کی نوعیت کی بابت مستقبل میں بھی مباحثہ جاری رہے گا۔ چند ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق متاثر کن ہے ۔ اس طر ح کے تجرباتی ڈیٹا کو مشینوں کو الگورتھم سکھانے کے لیے استعمال کرناایک اور چیلنج ہے ۔

لیکن الگورتھم سکھائے ہوئے مفرو ضوں میں صرف فرق بتاسکتا ہے، اس کی بجائے کہ وہ اپنے طور پر خود کوئی بالکل نیاپیٹرن دریافت کرسکے۔ماہرین کی ٹیم اس تیکنیک کو کوانٹم میٹیریل کے ایکسرے ڈفریکشن میں استعمال کرنے کے طر یقے واضح کرنے پر کام کر رہے ہیں ،جس میں روشنی کی لہریں ادھر ادھر پھیل کر تھری ڈائی مینشن (3D) میں اس کی ساخت بناکر دکھا سکتی ہیں ۔اس کے پیٹرن کو روایتی طر یقوں سے حاصل کرنے میں مہینوں لگتے ہیں ۔اس میں مشینی ذہانت کو خود ہی یکسانیتیں شناخت کر کےان کو مختلف گروپ میں کلا سیفائی کرنا ہے ۔پروفیسر کم کے مطابق مشینی ذہانت کو مشینوں کو سکھانے کا سفر ابھی شروع ہوا ہے اورکوانٹم کو سمجھنے کے لیے متعدد مرحلے ہمارے سامنے آرہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین