ایک وقت تھا جب عورت کو نازک سمجھا جاتا تھالیکن آج کی عورت کو دیکھیں تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا۔ عورت کو صنف نازک کہنا ایک ایسا مغالطہ ہے، جس میں مشرق اور مغرب دونوں ہی مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت جسمانی، معاشی اور معاشرتی سمیت کسی بھی لحاظ سے صنفِ نازک کہلانے کی مستحق نہیں ہے، اس کے برعکس وہ ایک مضبوط شخصیت کی مالک ہوتی ہے۔
کسی زمانے میں خواتین کا گاڑی چلانا حیرت کی بات سمجھی جاتی تھی مگر آج آپ کسی بھی سڑک پر جائیںتو آپ کو کئی خواتین گاڑی چلاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ خواتین کا اپنی ذاتی گاڑی چلانا تو اب عام بات ہوگئی ہے لیکن کراچی کی کبریٰ امجد نے ڈرائیونگ کو اپنا پیشہ بناکر ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ یہ خاتون وین ڈرائیور مرد ڈرائیوروں کی طرح شہر کی سڑکوں پر اپنی وین چلاتی ہیں۔
خواتین ٹرک، گھر ، کمپنیاں ،ادارے اورملک چلارہی ہیں اور ان کو چلانا ٹینشن سے کم نہیں ہوتا۔ صرف یہی، نہیں مہم جوئی میں بھی خواتین مردوں سے کم نہیں ہیں۔ ثمینہ بیگ 2013ء میں صرف 21سال کی عمر میں ماوئنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کرچکی ہیں۔ وہ پاکستان کی پہلی نوجوان کوہ پیماہ بھی ہیں، جس نے شمشال میں پہلے کبھی نہ سر ہونے والی چاشکن کی چوٹی سر کی ہے۔ اس چوٹی کی اونچائی6400میٹر ہے۔ 2016ء میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ثمر خان نے سطح سمندر سے ساڑھے 4ہزار میٹر بلند بیافو گلیشئر پر سائیکل چلا کر نیا ریکارڈ قائم کیا، جب کہ انہوں نے اسلام آباد سے بیافو گلیشیئر تک سائیکلنگ کا بھی ریکارڈ بنایا ہے۔ بیافو گلیشیئر کو قطب شمالی و جنوبی سے باہر دنیا کا تیسرا طویل ترین گلیشیئر سمجھا جاتا ہے۔
مضبوط اعصاب
ماہرین نے تحقیق کے بعد واضح کردیا ہے کہ ہر دور کی خواتین طاقت اور ارادے میں مردوں سے زیادہ مضبوط اور توانا پائی گئی ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں جہاں بھی خراب حالات آئے، وہاں مردوں کے مقابلے میں خواتین ہر مشکل سے نمٹنے میں کامیاب نظر آئیں۔ماہرین نے حیاتیاتی طور پر بھی خواتین کے اعصاب کو مضبوط پایا، تحقیق سے ثابت ہوا کہ بیماریوں میں خواتین کی قوت مدافعت مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، یہی نہیں ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی خواتین مردوں سے بازی لے گئی ہیں۔ تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ خواتین میں پاگل ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
مردوں سے زیاد ہ برداشت
ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کسی گہرے اور شدید زخم کی صورت میں عورتوں کے زندہ بچنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں 14فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ امریکا کی جانزہاپکنز یونیورسٹی کےا سکول آف میڈیسن میں سرجری کے پروفیسرڈاکٹر عادل حیدر کہتے ہیں کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں، مگر جہاں تک گہرے زخموں اور شدید چوٹوں کا تعلق ہے تو ان میں زندہ بچنے کی صلاحیت مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے اندر موت کے خلاف مزاحمت کا ایک مضبوط قدرتی نظام موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بچوں کو جنم دینا اور ان کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔ جب کہ قدرت نے مردوں کو اس کام کے لیے نہیں بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین میں زخموں کا مؤثر اور بہتر طورپر مقابلہ کرنے کی صلاحیت ، ان میں موجود ایک خاص ہارمون کے باعث ہوتی ہے، جسے ایسٹروجن کہتے ہیں۔ ہنگامی صورت حال میں یہ ہارمون خواتین کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بیماریوں کے خلاف مزاحمت
ماہرین کے مطابق امکانی طورپر اسی ہارمون کی وجہ سے ہی خواتین میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت کا نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اسی لیے خواتین ہی زیادہ تر lupus جیسے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں کیونکہ اس مرض میں جسم کا قدرتی مدافعتی نظام ضرورت سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔ تاہم ابھی یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ خواتین میں شدید زخموں میں زندہ بچ جانے کے اضافی امکان کی وجہ صرف ایسٹروجن ہارمون ہے یا اس میں ٹسٹوسٹرون کا بھی عمل دخل ہے۔ ٹسٹوسٹرون مردوں میں پایا جانے والا ہارمون ہے، جو قلیل مقدار میں خواتین میں بھی موجود ہوتا ہے۔ ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین کو درد اور تکلیف کا احساس مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتاہے۔ اس کی وجہ ان کا قدرتی نظام ہے۔ مثال کے طورپر خواتین کے چہرے کی جِلد میں فی مربع سینٹی میٹر محسوس کرنے والے34اعصاب ہوتے ہیں جب کہ مردوں میں یہ تعداد صرف 17ہے۔پھر بھی وہ مضبوط قوت ارادی سے در د کوبرداشت کرتی ہیں۔