• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21ویں صدی میں خواتین اپنی حیثیت اس انداز میں تسلیم کروا رہی ہیں، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ خواتین کے حقوق اور خواتین کو مساوی حیثیت دینے کے حوالے سے عالمی سطح پر جتنی تحاریک آج چل رہی ہیں، ماضی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ حالیہ مہینوں میں، صنفی مساوات کے لیے آئس لینڈ نے خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہ دینے کی قانون سازی کی ہے، جس پر عمل نہ کرنے والوں کو سزائیں اور جرمانے ہونگے، تو دوسری جانب دبئی اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک بھی خواتین کے حقوق کے لیے مؤثر قانون سازی کررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن خود بھی خاتون ہیں اور ساتھ ہی جمہوری دنیا میں اس وقت سب سے کم عمر سربراہ حکومت بھی ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے، انھیں زیادہ سے زیادہ حقوق دینے اور صنفی مساوات بڑھانے کے لیے کولمبیا کی نئی حکومت کے سربراہ اور قدامت پسند وزیراعظم Ivan Duque نے اپنی کابینہ میں مردوںاور خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی ہے۔ 16 وزراء پر مشتمل کابینہ میں 8مرد اور 8خاتون وزراء شامل کیے گئے ہیں۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند صدر اِوان ڈوک نے انتخابات جیتنے کے بعد ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا،’یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کولمبیا کی خواتین، لیڈرشپ پوزیشنز پر براجمان ہوں۔ کولمبیا کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیرِ داخلہ کا تقرر کیا جائے گا‘۔

اِوان ڈوک کی کابینہ میں وزارت توانائی اور وزارت انصاف جیسی انتہائی اہم وزارتیں بھی خواتین کو دی گئی ہیں۔ سیاسی اثرورسوخ اور طاقتور ہونے کے باعث ان وزارتوں کو عام طور پر مردوں کی وزارتیں سمجھا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں، کولمبیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون مارٹا لوزیا رامریز (Marta Lucia Ramrez)کو ملک کی نائب صدر منتخب کیا گیا ہے۔

کولمبیا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’نیشنل ویمن نیٹ ورک‘ کی سربراہ بیٹریز کوئنٹیرو (Beatriz Quintero) اسے علامتی طور پر اہم قرار دیتی ہیں۔ ’علامتی لحاظ سے یہ بہت اہم ہے اور یہ ایک بڑی ثقافتی اور تہذیبی تبدیلی ہے۔ مستقبل کی حکومتوں کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ اس نئی حقیقت کو پسِ پشت ڈال کرصنفی مساوات کو جاری نہ رکھیں‘۔

مارٹا رامریز مزید کہتی ہیں، ’کولمبیا کی ایک لڑکی آج ایک خاتون نائب صدر کو دیکھ سکتی ہے اور یقیناً اب کوئی بھی لڑکی مستقبل میں ملک کی صدر اور نائب صدر بننے کی خواہش کا اظہار کرسکتی ہے‘۔

عالمی سطح پر 2017ء کے دوران، 23.4 فیصد پارلیمانی اراکین کی تعداد خواتین پر مشتمل تھی۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ خواتین پارلیمانی رہنماؤں کی تعداد شمالی یورپ یعنی اسکینڈےنیوین ملکوں میں تھی، جبکہ سب سے کم تعداد عرب اور بحر الکاہل کی جزیراتی ریاستوں میں تھی۔ یہ اعدادوشمار انٹر پارلیمینٹری یونین (IPU)کی رپورٹ میں بتائے گئے ہیں، جوکہ بین الاقوامی پارلیمانوں کی تنظیم ہے۔

انفرادی طور پر ملکوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ خواتین روانڈا کی پارلیمان میں ہیں، جہاں خواتین پارلیمانی رہنماؤں کی تعداد 61.3فیصد ہے، جس کے بعد بولیویا، کیوبا اور میکسیکو کا نمبر آتا ہے۔

ہرچندکہ اس بات کے سائنسی اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ لیڈرشپ پوزیشنوں پر خواتین کی موجودگی، خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو بہتر طور پر آگے لے جاسکتی ہے، تاہم اس سے فرق پڑسکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ خواتین کا لیڈرشپ پوزیشنوں پر آنے کا یہ اثر ہوسکتا ہے کہ، خواتین کے جن مسائل کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، جیسے خواتین پر تشدد اور مساوی تنخواہ کے مسائل، انھیں پالیسی سازی کے عمل میں اہمیت حاصل ہوجائے۔

اقوام متحدہ کے مطابق لیڈرشپ پوزیشنوں پر زیادہ خواتین کا مطلب یہ بھی ہے کہ معیشت زیادہ تیزی سے ترقی کرے گی۔ ’2030ء تک سیاست میں خواتین کی مساوی نمائندگی‘ اقوامِ متحدہ کے اہداف میں بھی شامل ہے۔

حالیہ برسوں میں، سیاست کے میدان میں خواتین کو زیادہ نمائندگی دینے کے حوالے سے کولمبیا اور پورے لاطینی امریکا میں اچھی خاصی پیشرفت ہوئی ہے۔ رضاکارانہ اور قانون سازی کے ذریعے لازمی اسکیم کے تحت، سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ زیادہ خواتین کو پارلیمان میں نمائندگی دیں۔ ان کوششوں کے نتائج کافی حوصلہ افزاء ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ برازیل سے لے کر چلی اور کوسٹا ریکا تک، لاطینی امریکا میں سب سے زیادہ خواتین سربراہ مملکت اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ تاہم لاطینی امریکا میں نچلی سطح پر ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، جہاں مقامی حکومتوں میں گہرے رنگ اور دیہی نسل سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔ کولمبیا میں خواتین میئرز کی تعداد 15فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ پانچ میں سے ایک پارلیمانی رُکن خاتون ہے۔

ان ہی زمینی حقائق کے پیشِ نظر، خطے میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم انٹر امریکن کمیشن آن ہیومن رائٹس (IACHR) نے خطے اور تنظیم کے رُکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ خصوصاً لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی سیاسی شرکت کو بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔

تازہ ترین