• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظمؒ کے زیر استعمال رہنے والی عمارتیں

کسی بھی قوم کو اپنے ہیروز سے وابستہ چیزوں سے محبت ہوتی ہے۔ قوم کے وہ افراد جو اپنے ہیروز کے دورمیں موجود نہیں تھے یا ان کے بعد کی نسلیں جب اپنے ہیروز سےوابستہ نادر اشیا اور یادگارکو دیکھتیں ہیں تو انہیں ان سے سیکھنے اور متاثر ہونے کا موقع ملتاہے۔ اپنے ہیروز کی نادر ونایاب چیزوں کو آنے والی نسلوں کیلئے قائم و دائم رکھنا زند ہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔ اپنے نوجوانوں کی معلومات میں اضافے کے لیے آج ہم اپنے محترم قائد محمدعلی جناح کی چند رہائشگاہوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

وزیر مینشن، کراچی

کراچی کے قدیم اور گنجان آباد علاقے کھارادر میںپیلے پتھروں اور لال جالی والی خوبصورت عمارت وزیر مینشن میں25دسمبر1876ء کو بانی پاکستان نے اپنی آنکھ کھولی۔1953ء میں حکومت نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ طور پر اسے قومی ورثے کا درجہ دے دیا تھا۔ اس کی نچلی منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل پر گیلری تشکیل دی گئی اور14اگست1953ء کو عوام الناس کے لئے اسے کھول دیا گیا۔ اس میں ایک اور گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا، جب1982ء میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن‘ کے سپرد کیں۔ دو منزلہ گیلریوں میں قائداعظم کے زیر استعمال رہنے والے فرنیچر، ا ن کے ملبوسات، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور دوسری بیوی رتی بائی کے زیرِاستعمال رہنے والی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ قائدِ محترم کا اہم ترین اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں وہ ان کی قانون کی کتب ہیں، جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کیا کرتے تھے۔ کہاجاتاہے کہ 1992ء میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو انھوں نے یہاں کا بھی دورہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب، جس میں ان کے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

گورنر ہائوس، کراچی

نئی حکومت کے آتے ہی عوام کیلئے کھولا جانے والا کراچی کا گورنر ہائوس بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا مسکن رہا ہے۔ بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم کے یہاں قیام کے دوران زیرِاستعمال رہنے والی بہت سی نادر اشیا آج بھی اسی تاریخی گورنر ہائوس میں موجود ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ’ایوان صدر‘ اور موجودہ ’گورنر ہاؤس1845ء میں برطانوی دور حکومت کے پہلے گورنر چارلس نیپیئر کی قیام گاہ بھی رہا ہے۔ دراصل یہ عمارت انہی کی ملکیت تھی، جسے بعد میں انہوں نے حکومت برطانیہ کو48ہزار روپے میں فروخت کردیا تھا۔

جناح ہائوس، ممبئی

1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد محمد علی جناح پاکستان تشریف لے گئے اور اس نئی مملکت کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاںنبھانے لگے مگر قائد اعظم کی کوٹھی وہیں رہ گئی، اس عمارت کا نام ساؤتھ کورٹ ہے،جو جنوبی ممبئی کے مالابار ہلز علاقے میں واقع ہے۔ یہ عمارت بنوانے کیلئے قائد اعظم نے تقریباً 2 لاکھ روپےکے اخراجات کیے تھے۔ عمارت کا ڈیزائن مشہور آرکیٹیکٹ كلاڈ بیٹلے کا تیار کردہ ہے۔ اس میںلگے سنگ مرمر اٹلی سے منگوائے گئے تھے۔ مسلمانوں کیلئے علیحدہ ملک کے حصول کیلئے وہ اس کوٹھی کو ہمیشہ کیلئےچھوڑکر پاکستان آگئے تھے۔

دہلی کا بنگلہ

قائد اعظم محمد علی جناح نے1939ء میں دہلی میںبنگلہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ کافی تلاش کے بعد 10 اورنگزیب روڈ پر واقع ڈیڑھ ایکڑ رقبے پر محیط ایک بنگلہ خریدا گیا۔ اس بنگلے کو ایڈورڈ لٹین کی ٹیم کے رکن رابرٹ ٹور رسل نے ڈیزائن کیا تھا۔ ہمیشہ کے لیے دہلی چھوڑنے سے ایک دن قبل جناح نے اپنا بنگلہ تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں ا پنے دوست ڈالمیا کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ قائد اعظم کے دہلی چھوڑتے ہی بنگلے کے اوپر سے مسلم لیگ کا پرچم اُتار لیا گیا۔ آج اس بنگلے کی قیمت کئی سو کروڑ روپے ہے۔

قائد اعظم ریزیڈنسی، زیار ت

کوئٹہ سے 122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع یہ رہائشگاہ1892ء کے آس پاس لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں زیارت ریزیڈنسی کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا، جب یکم جولائی کوقائد اعظم اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کےکہنے پر بیماری کے باعث یہاں تشریف لائے۔ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو مہینے دس دن اسی عمار ت میں گزارے۔ بعد میں اس رہائش گاہ کو "قائد اعظم ریزیڈنسی" کے نام سے قومی ورثے میں شامل کرلیا گیا۔

تازہ ترین