چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ملک کے لئے وہ کام کر رہے ہیں جو ماضی میں کوئی نہ کر سکا۔ اُن کے اِن تاریخی کارناموں کو یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف مافیاز کو بے نقاب کیا بلکہ ان کے خلاف نظامِ عدل کو متحرک بھی کیا۔ انہوں نے بنجر ہوتے ہوئے ملک کے لئے ڈیموں کی تحریک شروع کی، انہوں نے لوگوں کی صحت سے کھیلنے والوں، ملک کو لوٹنے والوں اور اداروں کو برباد کرنے والوں کو کس کے رکھ دیا ہے، کل کے طاقتور قبضہ گروپ آج کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں زیادہ کرپشن کرنے والے اداروں کو دیکھا جائے تو ان میں ایف بی آر، ایف آئی اے، تعمیرات، آب پاشی اور پولیس کے علاوہ درجنوں ادارے شامل ہیں مگر آج میں یہاں صرف پولیس کا ’’چہرہ‘‘ دکھانا چاہتا ہوں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس ادارے میں عمدہ لوگ نہیں ہیں لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشرے میں کرپشن کی بڑی وجہ اسی ادارے کے لوگ ہیں، پولیس میں ایک اندرونی سروے کی اشد ضرورت ہے جس طرح ایف آئی اے میں ایک اندرونی سروے موجودہ ڈی جی بشیر میمن نے کروایا ہے۔ اس سروے میں ایف آئی اے کے کئی انسپکٹرز اور دیگر اہلکار کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں، ایک ملتانی انسپکٹر کروڑوں جبکہ میانوالی کا ایک انسپکٹر قریباً ستر کروڑ سے زائد کا مالک نکلا۔
میں اس اہم مرحلے پر جب ملک میں ہر طرف احتساب کا نعرہ لگ رہا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ پولیس کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس صاحب کو چاہئے کہ وہ پورے ملک سے پولیس افسران کی عمریں چیک کروائیں، خاص طور پر پندرھویں کامن سے لے کر پچیسویں کامن تک افسران پر نگاہ ڈالیں۔ ان میں سے اکثر افسران نے اپنی عمریں کم ظاہر کی ہیں، بعض نے چار سال تو بعض نے سات سال کم ظاہر کی ہیں۔ ان افسران کی اکثریت کا تعلق ایسے صوبے سے ہے جہاں کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ مہربانی فرما کر عمروں کا یہ ٹیسٹ کراچی کے کسی اسپتال سے نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہاں سے تو بوتلوں میں سے تیل اور شہد ہی برآمد ہوتا ہے۔ اگر عمروں کا یہ ٹیسٹ پنجاب کی فرانزک لیبارٹری سے ہو گیا تو پھر گریڈ اکیس اور بائیس کے یہ افسران گھروں کو چلے جائیں گے۔ ان افسران کی غیر ملکی شہریتیں بھی چیک ہونی چاہئیں تاکہ احتساب ہوتا ہوا نظر آئے۔
پولیس کس طرح جھوٹی ایف آئی آرز درج کرتی ہے، کس طرح قتل کرواتی ہے اور جرائم کے کیا کیا انداز ہیں اس کی تازہ ترین مثالیں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے علاقے سے برآمد ہو رہی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں کئی پولیس افسران کئی اہلکاروں سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کو جیل پہنچانے کا سہرا ڈیرہ غازی خان کے آر پی او شیخ محمد عمر کے سر ہے۔ ڈیرہ غازی خان چار اضلاع پر مشتمل ڈویژن ہے۔ اس میں ڈیرہ غازی خان کے علاوہ راجن پور، مظفر گڑھ اور لیہ شامل ہیں۔ آج کل ان چاروں اضلاع کے ڈی پی او اور ان اضلاع میں کام کرنے والے پندرہ ڈی ایس پی بڑے متحرک ہیں، یہ سب متحرک افسران دعا کے ساتھ سفارشیں بھی کروا رہے ہیں کہ کسی طرح شیخ محمدعمر کو تبدیل کر دیا جائے۔ اب ان سفارشوں میں سیاستدانوں کی سفارشیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ان سفارشیوں نے میڈیا کے کچھ افراد کو بھی شامل کر لیا ہے۔ شیخ محمد عمر نے آخر کیا کر دیا ہے کہ ان کے خلاف سفارشوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ یہ کہانی بڑے مزے کی ہے۔ یہ پولیس افسر امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں تھا، وہاں سے آیا تو پھر نیکٹا میں چلا گیا پھر اسے نگران دور میں آر پی او ڈیرہ غازی خان لگا دیا گیا، اس کی سفارش صرف اس کا کام ہے۔ وزیراعظم نے آئی جی اسلام آباد کے لئے چار افسران کے انٹرویوز کئے۔ باقی تین افسر تین تین منٹ بعد فارغ ہو گئے مگر اس افسر کو پندرہ منٹ ملے۔ اس نے پندرہ منٹ میں پوری کہانی سنائی کہ پولیس کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے، اس نے صاف بتا دیا کہ سہولیات کے بعد اب پولیس میں پولیسنگ کی ضرورت ہے۔ یہ افسر آئی جی اسلام آباد تو نہ لگ سکا اور پھر وہیں جا کے فرائض انجام دینے لگا۔ اس نے ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے جرائم کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ جرائم رات کو سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ اس جائزے کے بعد اس نے ڈویژن کے چاروں ڈی پی اوز کو ویڈیو لنک پر لیا۔ چاروں سے پوچھا کہ سنائو آپ کے اضلاع میں پولیس پٹرولنگ ہو رہی ہے؟ چاروں یک زبان ہو کر امیر تیمور کے نجومیوں کی طرح بولے ’’جی بالکل‘‘۔ پھر اس نے پوچھا کہ اچھا یہ بتائو کہ پولیس پٹرولنگ کا ہیلپ لائن نمبر کیا ہے؟ اس سوال پر چاروں ڈی پی اوز چپ ہو گئے، کسی کو ہیلپ لائن نمبر ہی معلوم نہیں تھا۔ اس کے بعد اس نے پندرہ ڈی ایس پی افسران سے پوچھا کہ تم اپنے علاقوں میں گشت کرتے ہو؟ سب بولے، جی ہاں! اگلے دن ان افسران نے آر پی او کے حکم پر اپنی لوکیشن بتائی، آر پی او نے بتائی گئی لوکیشن چیک کروائی تو تین افسران نے جھوٹ بولا۔ اب یہ سب افسران لوکیشن بتاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے کشمور جانے والے چار سو کلومیٹر کے راستے میں اس نے چیک پوسٹ بنوا کر حادثات کے علاوہ پولیس کا بھتہ بھی رکوا دیا، اس نے قتل کو خودکشی بنانے والے ایک ڈی ایس پی اور اہلکار کو ہتھکڑیاں لگوا دیں۔ اسی طرح کی کچھ اور خطائیں کر ڈالیں۔ اس افسر سے عام لوگ خوش ہیں۔ اب سردار عثمان بزدار کے علاقے میں پولیس جاگ رہی ہے، جرائم ختم ہو رہے ہیں اگر وہ پورے پنجاب کو ایسا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں کم از کم آٹھ اور شیخ عمر ڈھونڈنا پڑیں گے۔ یہ مشکل کام نہیں ہے۔ انہیں احسان یونس، احمر عمران، افضل بٹ اور ڈاکٹر رضوان کی صورت میں یہ مل جائیں گے، اسی طرح انہیں پنجاب کے چھتیس اضلاع میں علی محسن جیسے ڈی پی اوز چاہئیں، انہیں یہ افسران فیصل شہزاد، زاہد مروت، مستنصر فیروز، سرفراز ورک اور ان جیسے دیگر افسران کی صورت میں مل جائینگے۔ سردار عثمان بزدار کو چاہئے کہ وہ پورے پنجاب کو بہتر بنانے کیلئے بہترین افسران لگائیں۔ پولیس میں اچھے افسران موجود ہیں، اگر پنجاب کا معتدل مزاج وزیر اعلیٰ صوبے کے عوام کو کرپٹ پولیس افسران سے نجات دلانے میں کامیاب ہو گیا تو یقیناً وہ پنجاب کا مسیحا ہو گا، لوگ اسے دعائیں دیں گے۔ بقول ڈاکٹر اقبال مرزا ؎
جل جائیں گے پر جو میرے ساتھ اڑے
راہیں ہیں دشوار میں کس کی بات کروں