• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کا انتہائی اہم جاسوسی سفارتکار Yuri Brezmenov سرد جنگ کے دوران بھارت میں اپنے مخصوص مشن پر برسوں متعین اور مصروف رہا۔ بعد ازاں اپنے ملک کی پالیسیوں سے متنفر ہو کر ایک مفرور کے طور پر امریکہ پہنچا اور اپنی ساری خفیہ سرگرمیوں کے راز ٹی وی انٹرویو، لیکچرز اور ایک کتاب کے ذریعے افشا کر دیئے۔ اس نے بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنے بھی بھارتیوں کو کمیونزم ،لبرل ازم، Feminismاور Activistsکے طور پر پیسے دے کر محرک کرتا تھا وہ سب دراصل احمق مگر مفید تھے، اُن لوگوں کو وہ اپنے مخصوص انداز میں Useful Idiots کہتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے انڈیا میں مامور رہنے والے روسی جاسوسOleg kalugin نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ انڈیا کے اندر اپنی سرگرمیوں کے لئے لوگوں کی مخصوص خدمات حاصل کرنے کے  لئے خفیہ بھرتیاں کر رہا تھا تو اُسے لگا کہ "Whole Nation is for SALE"ان دونوں اعلیٰ ترین انٹیلی جنس افسروں کی یہ دہائیوں پرانی باتیں آج کے بھارت کی ریاستی پالیسیوں کو دیکھ کر دکھ بھری سوچ سے یاد آرہی ہیں۔

ذرا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس وقت کی دو عالمی طاقتیں امریکہ اور روس تھیں، جبکہ آج کہ عالمی آرڈر میں روس کی جگہ چین لے چکا ہے۔ اس وقت مغربی بلاک کا بڑا اور جنگی اتحادی پاکستان تھا، مگر آج کی دو عالمی طاقتوں کی مخفی سرد و گرم جنگ میں بھارت امریکی بلاک کا باضابطہ حصہ بن چکا ہے۔ مزید غلطی بھارت یہ کر رہا ہے کہ چین جیسے پڑوسی، جس کے ساتھ بھارت کی سب سے لمبی زمینی سرحد ملتی ہے اور اس بارڈر میں تین بڑے اور کچھ چھوٹے تنازعات بھی ہیں، کو چھوڑ کر امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہونا شروع ہو چکا ہے۔ بھارت خطے کا واحد ملک ہے جو تاحال سی پیک کی مخالفت کرتا ہے۔ اسی طرح بھارت صرف پاکستان کی مخالفت اور اُسے نقصان پہچانے کے لئے افغانستان جیسے مشکل ترین جنگی ملک میں امریکہ کا اتحادی بنا اور جنگی سرمایہ کاری کی، پاکستان دشمنی میں بھارت یہ بھی نہیں سمجھ پایا کہ امریکہ نے افغانستان میں جاری بے سود اور ہاری ہوئی جنگ کا بوجھ بھارت کے کندھوں پر ڈا لے ر کھا مگر امریکی انخلاء کے بعد یہ سب بیکار ہوتا واضح نظر آ رہا ہے۔

بھارت کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ امریکہ کسی بھی ایشیائی ملک کو طاقت ور اور ترقی یافتہ ہوتا پسند نہیں کرتا۔ روس، جاپان اور چین اپنے بل بوتے پر عالمی طاقت بنے ہیں۔ امریکہ اپنے علاوہ صرف یورپ اور آسٹریلیا کو اپنے جیسا سمجھتا ہے۔ آپ ترکی کی مثال لے لیں جس نے اپنے آپ کو سیکولر کیا، اسرائیل کو تسلیم کیا مگر پھر بھی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ نہیں مانا گیا کیونکہ ترکی ایک مسلم اور قدرے ایشیائی ملک ہے۔ تھوڑا مزید غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر بھارت چین کی عالمی حیثیت کو تسلیم کرے ،اس کی عالمی معاشی پالیسیوں اور منصوبوں کا حصہ بنے تو نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و خوشحالی آتی ہے بلکہ چین اور روس کی سربراہی میں ایشیا ایک مضبوط اور دنیا کا سب سے بڑا بلاک بن سکتا ہے۔ اس بلاک میں دنیا کی تقریباً آدھی بستی آباد ہے جس سے یہ خطہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے ۔مگر حالیہ کشیدگی کے تناظر میں یہ مارکیٹ کی بجائے موت کی وادی کا منظر پیش کر رہا ہے

بھارت انتہائی شدت سے پہلے ہی پاکستان مخالف سرگرمیوں میںمصروف تھا اور اسی تواتر میں حالیہ جنگی کشیدگی پیدا کر بیٹھا ہے جب کہ امریکی ایماء پرچین کے خلاف بھی برسرپیکار ہے جس سے عاجز آکر چین نے جواب دیے۔ گزشتہ سال چین کے سفیر نے عین اس وقت سکھوں کی مقدس جگہ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کیا جب سکھ برطانیہ میں 2020 آزاد خالصتان کے ریفرنڈم کے لئے مظاہرہ کر رہے تھے۔یہ واضح طور پر سکھوں کی تحریک کی حمایت کا اشارہ ہے مگر بھارتی حکمران غور اور ہوش نہیں کر رہے۔چین نے بھارت کے سب سے بڑے دریا برہم پترا پر ڈیم کا افتتاح کر دیا ہے اس ڈیم کی مدد سے چین جب چاہے اس دریا کا سارا پانی روک سکتا ہے ۔واضح رہے کہ یہ دریا جنوبی ا یشیا کا سب سے بڑا دریا ہونے کی وجہ سے بھارت کا بیٹا کہلاتاہے ۔

گزشتہ سال مودی کے دورہ چین کے موقع پر چین کے چینلوں نے کشمیر اور اروناچل پردیش کے علاقوں کو بھارت کا حصہ نہ دکھا کر اپنی خارجہ پالیسی کا بڑا پیغام بھی دے دیا تھا ۔اسی طرح واضح رہے کہ چین کشمیر سے آنے والے کشمیریوں کو ایک اسپیشل سہولت والا فوری stapleویزہ جاری کرتا ہے۔مندرجہ بالا حقائق میں نے گزشتہ سال ایک کالم میں بھی لکھے تھے مگر یہ تازہ ترین صورت حال کی عکاسی کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے اگر بھارت نے اپنی ا حمقانہ اور موجودہ مہلک جنگی پالیسیاں اور حرکات مزید جاری رکھیں اور جواب میں روس اور چین نے بھارت کے اندر جاری علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت شروع کر دی تو سویت یونین کی طرز پر بھارت بھی مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو سکتا ہے اور مختلف ریاستوں کی کنفیڈریشن بنتا نظر آتاہے۔اور پاکستان مخالفت میں جلتے دماغ کی آگ کی وجہ سے بھارت تاریخ میںمفید ہی نہیں بلکہ مہلک ترین احمق جانا جائے گا۔ رہی بات ایٹمی جنگ کی تو اس کے نتیجے میں نسلوں کو سبق تب ملے گا اگر کوئی زندہ بچے گا اس لئے بھارت کو ایٹمی حملہ کرنے سے پہلے بار بار نہیں بلکہ آخری بار سوچنا ہوگا ۔اس لئےڈی جی ISPRنے جسے صرف بیوقوف دشمن کہا ہے وہ مہلک ترین احمق دشمن ہے۔مگر امید ہے Fantastic Tea کے ــ ’’سڑکے‘‘بھرے گھونٹوں کے بعد بھارت ناشتے کی دہائیوں پرانی خود کش خواہش نہیں کرے گا ۔

تازہ ترین