ڈاکٹر ساجد اسلام بھٹی
عالمی ادارۂ صحت، انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فائونڈیشن کے باہمی اشتراک سے دنیا بَھر میں ہرسال مارچ کی دوسری جمعرات کو’’ گُردوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔امسال یہ دِن14مارچ کو منتخب کردہ تھیم"Kidney Health for Everyone Everywhere"کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ دراصل یہ ایک عالمی آگاہی مہم ہے، جس کا مقصد ہر طبقۂ فکر تک گُردوں کی اہمیت اور اس سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات فراہم کرناہے، تاکہ بروقت تشخیص و علاج ممکن ہوسکے۔اس ضمن میں پاکستان میں بھی ہر سال گُردوں کے عالمی دِن کے موقعے پر پبلک اسکریننگ پروگرام کے ساتھ ہر سطح تک شعور و آگاہی عام کی جاتی ہے۔
دراصل دُنیا بَھر میں گُردوں کے عوارض کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے،جس کا ایک سبب معاشرے میں پائی جانے والی عدم مساوات بھی ہے،جب کہ سماجی حالات ،آبادی کا پھیلاؤ، رہن سہن، کام کی نوعیت، عُمر، غربت، جنسی تفریق، تعلیم کی کمی، پیشہ ورانہ خطرات اور آلودگی جیسے عوامل مرض میں اضافے کی اہم وجوہ ہیں۔انسانی جسم کےچند پیچیدہ اعضاء میں گُردے بھی شامل ہیں،جو کمر کے وسط، پسلیوں کے نیچے دونوں اطراف میں موجود ہوتے ہیں۔ بظاہر بیج کی مانند دکھائی دینے والے گُردوں کا سائز تقریباً بند مُٹھی کے برابر ہوتا ہے، لیکن یہ جسم میںکئی اہم افعال انجام دیتے ہیں۔ مثلاً خون میں موجود غیر ضروری اجزاء کو بہ ذریعہ پیشاب خارج کرنا، کیمیائی توازن برقرار رکھناخصوصاً سوڈیم،پوٹاشیم کی مقدار،خون کے دباؤ پر قابو، کیلشیم کی مقدار کی درستی(جو ہڈیوں کی صحت کی ضامن ہے) اور خون کے سُرخ ذرّات کی افزایش کا عمل انجام دینا وغیرہ۔گُردوں میں کئی چھوٹے چھوٹے فلٹرزہوتے ہیں، جو ان کی بنیادی اکائی کہلاتے ہیں۔اگر ان فلٹرز میں اگر کوئی خرابی واقع ہوجائے ،تو گُردےکا کوئی مرض لاحق ہوسکتاہےیا پھر یہ ناکارہ بھی ہوسکتے ہیں۔گُردوں کے عوارض کو دو اقسام میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ایک قسم کرونک کڈنی ڈیزیز(سی کے ڈی) یعنی گُردوں کی مزمن/دائمی بیماری کہلاتی ہے۔ یہ وہ قسم ہے، جس میںگُردے وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ مہینوں، برسوں کے حساب سے خراب ہوتے ہیں۔دوسری قسم میں حادثاتی/جلد شدّت اختیار کرنے والی بیماریاں یعنی ایکیوٹ کڈنی ڈیزیزز (اے کےڈی) شامل ہیں ۔مثلاً اگر کسی بیماری کے باعث جیسےدِل کے عوارض،ذیابطیس، بُلند فشارِ خون،موٹاپے، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، ملیریا، ایچ آئی وی، بخار یا پھر کسی قسم کے انفیکشن کے سبب اچانک ہی گُردے کام کرنا چھوڑ دیں۔ گُردوں کا عارضہ چاہے کرونک ہو یا ایکیوٹ، نہ صرف ابتدائی مرحلے میں موت کی وجہ بن سکتا ہے،بلکہ بڑھتی ہوئی عُمر میں بھی متعدد طبّی مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں تقریباً 850ملین ا فراد گُردوں کے مرض میں مبتلا ہیں،جب کہ 24ملین اموات کی وجہ گُردوں کی دائمی بیماری ہے۔واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں چھٹے نمبر پر تیزی سے بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ بھی سی کےڈی ہی ہے۔اسی طرح دُنیا بَھر میں 13ملین افراد ایکیوٹ کڈنی ڈیزیز زمیں مبتلا ہیں، جن میںسے 85فی صد مریضوں کا تعلق متوسط آمدن والے مُمالک سے ہے۔نیز،ہر سال کم از کم 1.7ملین افراد اے کے ڈیزیز زکے باعث انتقال کرجاتے ہیں۔
پاکستان میں گُردوں کے عوارض لاحق ہونے کی یوں تو کئی وجوہ ہیں، مگر سرِفہرست ذیابطیس کا عارضہ ہے۔پاکستان میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال دس لاکھ کی آبادی میں سےکم از کم 100افراد میں سی کے ڈی تشخیص کیا جاتا ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ ذیابطیس ہے۔ دوسرے نمبر پر گُردوں کی سوزش(Glomerular Disease)ہے، جو ان کے ناکارہ ہونے کا باعث بنتی ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق کراچی میں گُردوں کے عوارض کا سبب بھی یہی گُردوں کی سوزش ہے۔بُلند فشارِ خون کو تیسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے،کیوں کہ خون کا دبائو گُردوں کی کارکردگی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔مگر چوں کہ زیادہ تر کیسز میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، تو تاخیر سے تشخیص گُردوں کے ناکارہ ہونے کی وجہ بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں،ماٹاپا، درد رفع کرنے والی اورجڑی بوٹیوں سے کشید کی گئی ادویہ، گُردوں کی موروثی بیماریاں مثلاً ایف ایس جی ایس(Focal segmental glomerulosclerosis)اور پی کےڈی(polycystic kidney disease) وغیرہ بھی گُردوں کے عوراض لاحق ہونے کا سبب ہیں۔واضح رہے کہ گُردے کا عارضہ اگر موروثی ہے، تو زیادہ تر کیسز میں مرض کی علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی 90فی صد گُردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔گُردوں کے امراض کی عام علامات میںچہرے اور پائوں کا ورم، تھکاوٹ، بھوک میں کمی، توجّہ دینے میں دقّت، پیشاب میں خون کا اخراج یا جھاگ بننا،مثانے میں جلن، اُلٹیاں اور سانس میں تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔ گُردوں کے دائمی امراض کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں علامات بہت تاخیر سے ظاہر ہوتی ہیں،لہٰذا وہ افراد جو ذیابطیس،ہائی بلڈ پریشرمیں مبتلا ہیں،خاندان میں کوئی گُردوں کےعارضےمیں مبتلا ہو،طویل عرصے سے ادویہ استعمال کررہا ہو یا پھر صُبح کے وقت چہرے اور آنکھوں پر سُوجن ظاہر ہو، وہ معالج کے مشورے سے گُردوں کاٹیسٹ لازماًکروائے۔عمومی طور پر گُردے کی کارکردگی جانچنےکے لیے پیشاب کا ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں خون کا ٹیسٹ،جس میں ہیمو گلوبین، یوریا، کریٹینن،پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، کیلشیم کی مقدار جانچی جاتی ہے، گُردے کا الٹراسائونڈ،جس کے ذریعے گُردے کا حجم، جسامت، گُردے و مثانے میں پتھری یا گلٹی وغیرہ کی تشخیص ممکن ہے، پیٹ کا ایکسرےعموماً پتھری کی تشخیص کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض کیسز میں انٹراوینس یوروگرافی(Intravenous urography)بھی تجویز کی جاتی ہے۔ اس طریقۂ تشخیص میں مریض کو ایک مخصوص انجیکشن لگایا جاتا ہے،جس کے ذریعےمرض کی تشخیص سہل ہوجاتی ہے۔علاج کی ضمن میںگُردوں کی بیماریوں کو دوحصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔یعنی طبّی عوارض اور سرجیکل۔ گُردوں کے وہ تمام امراض، جن کا علاج ادویہ کے ذریعےکیا جاتا ہے، وہ طبّی عوارض میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً گُردے کی سوجن،ناکارہ ہوجانا،نفروٹک سینڈروم، پیشاب کے اخراج میں خرابی اورمثانے کی جلن وغیرہ۔جب کہ ان کے اسپیشلسٹ نیفرولوجسٹ کہلاتے ہیں۔ سرجیکل بیماری کا علاج یورولوجسٹ کرتے ہیں۔ان عوارض میں مثانے کی پتھری،پروسٹیٹ کی بیماریاں،مثانے کا کوئی پیدایشی مرض اور سرطان وغیرہ شامل ہیں۔سرجیکل میں مختلف طریقۂ علاج مستعمل ہیں ۔جیسے آپریشن، خردبین سے جانچ، اینڈواسکوپی اور لیزر تھراپی وغیرہ۔
گُردے ناکارہ یا فیل ہونے کی بات کریں،تو اس سے مُراد دونوں گُردوں کے افعال میں کمی واقع ہونا ہے۔ واضح رہے کہ خون میں کیمیائی تبدیلی یعنی کریٹینن اور یوریا کی مقدار میں اضافہ گُردوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔گُردے فیل ہونےکی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم میں گُردے اچانک ناکارہ ہوجاتے ہیں، جسے ایکیوٹ کڈنی فیلئیر کہا جاتا ہے۔ اچانک گُردے فیل ہوجانے کی وجوہ بالعموم جُزوقتی ہوتی ہیں۔ جیسےدست و اسہال کے باعث جسم میں پانی کی شدید کمی، زچگی یا دورانِ حادثہ زائد مقدار میں خون ضایع ہوجانا ،ملیریا یا جسم میں کوئی شدید انفیکشن پھیل جانا وغیرہ۔علاج کے بعد گُردے پوری طرح ٹھیک ہوجاتے ہیں۔دوسری قسم، جو کرونک کڈنی فیلئیر کہلاتی ہے، اس میں گُردے رفتہ رفتہ طویل عرصے میں اس طرح خراب ہوجاتے ہیں کہ پھر دوبارہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ گُردوں کے دائمی طور پر ناکارہ ہونے کی وجوہ میں بُلند فشارِ خون، ذیا بطیس اور گُردوں کی اپنی بیماریاںشامل ہیں، جب کہ اہم علامات میں جسم پر سُوجن، بھوک کم لگنا، جی متلانا، کم زوری اورکم عُمری میں ہائی بلڈ پریشر ہونا وغیر شامل ہیں۔گُردے ناکارہ ہونے کی جانچ کے لیے عموماً بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے کریٹینن اور یوریا کی مقدارجانچی جاتی ہے،کیوں کہ گُردے خراب ہونے کی صورت میں خون میں کریٹینن اور یوریا کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔جب گُردے خراب ہونا شروع ہوتے ہیں، توابتدائی مراحل میں ادویہ اور کھانے پینے میں پرہیز کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے،لیکن جب خون میں کریٹینن کی مقدار 8یا10ملی گرام تک بڑھ جائے اور دوا اور پرہیز کے باوجود بھی افاقہ نہ ہو، تب ڈائی لیسز یا پھر گُردوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے۔اگرچہ گُردوں کے دائمی مریضوں کے لیے مؤثر علاج ٹرانس پلانٹیشن ہے، مگر ایک عام آدمی کے لیے اس کے اخراجات برداشت کرنا قدرےمشکل ہے۔کم از کم 70فی صد آبادی کے لیے تو ناممکن ہی ہے۔رہی بات ڈائی لیسز کی،تو پاکستان میں چوں کہ ڈائی لیسز مشین اور اس سے منسلک دیگرآلات بیرون مُمالک سے درآمدکیے جاتے ہیں،اس لیے یہ طریقۂ علاج بہت مہنگا پڑتاہے۔
ڈائی لیسز کی نسبت ٹرانس پلانٹ مؤثر ترین علاج ہے کہ ٹرانس پلانٹ کروانے والے مریض کے گُردے کی عُمربڑھ جاتی ہے، لیکن گُردوں کی پیوندکاری بھی تب ہی کی جاتی ہے، جب گردے مکمل طور پر ناکارہ ہوچُکے ہوں۔گُردوں کی پیوند کاری دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ اوّل مریض کے ایسے رشتے دار سے گُردہ لیا جائے، جو طبّی اعتبار سے صحت مند ہو۔ دوم، کسی فرد کے مرنے کے بعد اس کا گُردہ مل جائے، جو ’’بعد از مرگ عطیہ‘‘ کہلاتا ہے۔ نیا گُردہ عام طور پر پیٹ کے نچلے حصّے میں مثانے کے ساتھ لگایا جاتا ہے، جس کے بعد مریض عام افراد کی طرح زندگی بسر کرسکتا ہے۔ تاہم، گُردوں کی پیوند کاری میں ریجیکشن کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یعنی مریض کے جسم کا نئے گُردے کو قبول نہ کرنا۔اس ضمن میں مدافعتی نظام کے کنٹرول کے لیے ٹرانس پلانٹ کے بعدتاعُمر مخصوص ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ مریض کا، گُردہ عطیہ کرنے والے سے جتنا قریبی رشتہ ہوگا ریجیکشن کے امکانات اُتنے ہی کم ہوجائیں گے۔ٹرانس پلانٹ کے لیے سب سے پہلا مرحلہ ٹشو ٹائپنگ ہے۔اس طریقۂ کار کے ذریعے مناسب ترین ڈونر (گردہ دینے والا) چُنا جاتا ہے۔ عموماً ٹرانس پلانٹ کےحوالے سے ذہنوں میں مختلف سولات جنم لیتے ہیں، آیا یہ طریقۂ کار دینی نقطۂ نگاہ سے جائز بھی ہے یا نہیں۔ یا پھر کون سے افراد باآسانی اپنا گُردہ عطیہ کرسکتے ہیں؟ تو اس ضمن میں دنیا بَھر کے تمام بڑے مذاہب کے ساتھ خاص طور پر دینِ اسلام نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔اور وہ افراد، جن کی عُمر 18سال سے زیادہ ہو اور دونوں گُردے بالکل صحیح کام کر رہے ہوں،اپنی زندگی میں ایک گُردہ اور موت کے بعد دونوں گُردے عطیہ کر سکتے ہیں۔
ٹرانس پلانٹیشن یا منتقلیٔ اعضاء تاریخ کا ایک منظّم سفر ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح ماہرینِ طب نے انسانی جسم کی ساخت اور نظام کو سمجھا اور مستقل جدوجہد جاری رکھی،تاکہ نہ صرف بیماریوں کے خلاف نبرد آزما ہوا جاسکے، بلکہ موت جیسی ابدی حقیقت کو مزید سمجھا جائے۔دُنیا میں سب سے پہلے 1840ء میں لندن میں خون منتقلی کا عمل کام یابی سے کیا گیا،جب کہ1933ء میں روس میں دو مختلف بلڈ گروپس کے انسانوں میں پہلی مرتبہ گُردوں کی پیوند کاری کی گئی،تو 1954ء میں امریکا کے ڈاکٹر رچرڈایچ لاور(Dr. Richard H. Lawler) نے پہلی مرتبہ گُردے کی کام یاب پیوند کاری کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عمل صرف گُردوں کی تبدیلی تک محدود نہیں رہا، بلکہ دیگر اعضاء کی پیوند کاری بھی عمل میں لائی گئی۔ دُنیا کے وہ مُمالک، جو اس ٹیکنالوجی میں سرِ فہرست ہیں، اُن میں ناروے، امریکا، اسپین، آسٹریلیااور بیلجیئم شامل ہیں،جب کہ اسپین، مالٹا اور کروشیا وہ تین مُمالک ہیں جہاں بعداز مرگ عطیہء اعضاء کی شرح سب سےبُلند ہے۔جی او ڈی ٹی(Global Observatory on Donation and Transplantation) 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اعضاء کی پیوند کاری کرنے والے پچاس سرِفہرست مُمالک میں ترکی، سعودی عرب، ایران، اردن ،لبنان، مصر، لیبیا،اور کویت شامل ہیں، جب کہ بعدازمرگ اعضاء کے عطیات ایران، ترکی، کویت، سعودی عرب، قطر، لبنان اور ملائیشیا میں بھی بڑی تعداد میںدئیے جاتے ہیں۔دُنیا کے تمام ترقّی یافتہ اور ترقّی پزیر مُمالک میں اعضاء کی پیوند کاری ایک مربوط نظام کی صورت میں نافذالعمل ہے،جس کی وجہ سے اعضاء کی پیوند کاری اورعطیۂ اعضاء کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔مسلم مُمالک کی بات کریں توترکی میں’’ پہلا قانونی مسوّدہ برائے پیو ندکاری اور عطیۂ اعضاء ‘‘1979ءمیں پیش کیا گیا،جو دُنیا میں اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا،جب اعضاء کی پیو ندکاری کے ضمن میں قانون سازی کی گئی۔1980ءمیں ترکی کی وزارتِ مذہبی امور کے تحت مقتدر علماء کی کاؤنسل نے اعضاء کے عطیے کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیا اور یہ فتویٰ پوری مسلم اُمّہ کےلیے سنگ ِمیل ثابت ہوا۔ سعودی عرب میںبھی باقاعدہ طور پر اعضاء کی پیوندکاری کامربوط نظام قائم ہے،جب کہ ایران کا شمار ُدنیا کے ان پچاس مُمالک میںکیا جاتاہے، جہاں بعداز مرگ عطیہ اعضاء کابہترین نظام رائج ہے ۔کویت میں1984ءمیں’’تنظیمِ اعضاء پیو ند کاری، کویت‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔معیارِ تعلیم اورمنظّم طرزِزندگی کے باعث لبنان میں بھی تبدیلیٔ اعضاء کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ ملائیشیا میں اعضاء کی پیوندکاری کاآغاز1975ءمیں گُردے کی پیوندکاری سے کیا گیا تھا اور اب ایسے بیش تر ادارے عوام کی دسترس میں ہیں۔اعضاء کی پیوندکاری کی شرح بڑھنے کے باوجود یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ اب بھی پیوندکاری کی ضرورت کو صرف10 فی صد تک ہی پورا کیا جاسکا ہے۔ عالمی سطح پر اب بھی90 فی صد مریض اس سہولت سے محروم ہیں،جس کے لیے "Deceased Organ Donation" کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔
گُردوں کے عوارض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ابتدا ہی سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ جیسا کہ کم نمک اور کم چکنائی والی غذائیں استعمال کی جائیں۔ روزانہ کم از کم 30منٹ تک ورزش کی جائے۔الکحل اور تمباکو نوشی سے اجتناب برتیں، وزن کا خاص خیال رکھیں۔ خدانخواستہ آپ بُلندفشارِخون یا ذیابطیس میں مبتلا ہیں، تو باقاعدگی سے اپنا طبّی معائنہ کروائیں، جب کہ اگر یہ بیماریاں خاندان میں پائی جاتی ہیں، تو خاندان کے ہر فرد کو 20سال کی عُمر کے بعد ہر سال اپنا طبّی معائنہ لازماً کروانا چاہیے۔
(مضمون نگار، ایسو سی ایٹ پروفیسر آف نیفرولوجی ہیں اور ایس آئی یو ٹی سے منسلک ہیں)