• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، خاص طور پر انسانی ٹشوز، خلیوں اور ویسلز کی تیاری کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تجربات جاری ہیں۔ محققین ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے ٹشوز تیار کئے جا سکیں، جو انسانی جسم میں زندہ ٹشوز کی طرح نشوونما پا سکیں۔ اناٹومی کے لئے تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ اس کا بنیادی تصور یہ ہی ہے کہ صحیح خلیہ حاصل کیا جائے اور پولیمر جیل کی مدد سے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے خلیے کا اصل اسٹرکچر پرنٹ کیا جائے اور یہ خلیہ زندہ خلیوں کی طرح پرورش پا سکے۔ اگر یہ مقصد حاصل کر لیا جائے تو اس کے بعد اعضاء کی پیوند کاری کے لئے کسی ڈونر کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور لاکھوں افراد کی زندگیاں بچانا ممکن ہو سکے گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی اعضاء کی تیاری جدید طب کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

نیچر بائیو ٹیکنالوجی نامی جنرل میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق اس نئی پیش رفت سے کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والی خرابی کو زندہ ریشوں کے استعمال سے درست کیا جا سکے گا۔

تحقیق کے مطابق جب تھری ڈی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ہڈیاں اور پٹھے جانوروں میں نصب کیے گئے تو انھوں نے نارمل طریقے سے کام کرنا شروع کر دیا۔

امریکا میں پروان چڑھنے والی اس ٹیکنالوجی کو ماہرین نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی سے مشابہ قرار دیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے متاثرہ انسان کے اپنے ہی خلیوں کو ایک خاص ترکیب سے گزارنے کے بعد ان کے ٹوٹے ہوئے جبڑے اور کان کو دوبارہ بنایا جا سکتا ہے، یا پھر کسی کے دل میں سوراخ تک کو بھی بند کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ان اعضاء کی تیاری میں ایک بڑا مسئلہ انسانی خلیوں کو زندہ رکھنا ہے کیونکہ دو ملی میٹر سے زیادہ موٹے ریشوں میں ان کے خلیوں تک آکسیجن اور دیگر غذائی اجزا نہیں پہنچ پاتے۔

اس کے لیے امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے ویک فوریسٹ بیپٹسٹ میڈیکل سینٹر کی ایک ٹیم نے یہ نئی تکنیک نکالی ہے کہ تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے تیار کیے جانے والے ریشوں میں اسپنج کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ رکھے جائیں تاکہ آکسیجن اور غذائی اجزا ان تک پہنچتے رہیں۔

پرنٹنگ نظام کے ذریعے ریشے اور اعضاء تیار کرنے کے اس عمل میں، جسے آئی ٹوپ کہا جاتا ہے، قدرتی طور پر تحلیل ہو جانے والے پلاسٹک سے تیار کی جانے والی شکل کو، خلیوں سے بھرپور پانی پر مشتمل ایک مادے کے ساتھ ملایا جاتا ہے، جس سے تیار کیے جانے والے اعضاء کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ جب یہ اعضاء جانوروں میں لگائے گئے تو ان کا پلاسٹک خود بہ خود الگ ہو گیا اور اس کی جگہ اس کے اندر پروان چڑھنے والے خلیوں سے بنے اعضاء نے لے لی۔ کچھ ہی عرصے بعد زندگی سے بھر پور ان خلیوں میں خون کی شریانیں اور رگیں بھی پیدا ہو گئیں۔

تحقیق کے رہنما پروفیسر انتھونی اٹالا کہتے ہیں کہ تھری ڈی پرنٹر سے تیار کردہ ان ریشوں کو انسانی اعضاء کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تھری ڈی پرنٹر سے تیار کردہ ان ریشوں میں انسانی ریشوں جتنی طاقت موجود ہے لیکن تحقیق کار یہ دیکھ رہے ہیں کہ ریشے کتنے دن تک زندہ رہتے ہیں۔

پروفیسر اٹالا کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ نے طب کی دنیا میں نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ ’مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک مریض آتا ہے، جس کے جبڑے کا ایک حصہ کسی حادثے کی وجہ سے متاثر ہو گیا ہے۔ ہم اس مریض کو داخل کر لیں گے اور اس کے جبڑے کی تصاویر لیں گے اور پھر ہم ان تصاویر کو اپنے سافٹ ویئر میں منتقل کر دیں گے، جہاں پرنٹر متاثرہ یا غائب ہونے والے حصے کو نئے سرے سے تخلیق کرے گا جو مریض کو بآسانی لگایا جا سکتا ہے‘۔

اسی تکنیک کے ذریعے قدرتی طور پر تحلیل ہوجانے والی جھلی سے اعضاء کی شکل تیار کرنے کے بعد اس کو خلیوں کے مرکب میں ڈبو دیا جاتا ہے اور جسے مریضوں پر کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

چندسال قبل ویک فوریسٹ سینٹر میں خواتین کو لیبارٹری میں تیارکردہ رحم لگائے گئے تھے لیکن اس علاج میں سب سے مشکل مرحلہ ان اعضاء کے خلیات کو لمبے عرصے تک زندہ رکھنا تھا۔

پروفسر اٹالا کہتے ہیں، ’اس تحقیق میں ہم نے مضبوط خلیے پرنٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں پٹھوں کے نرم ریشوں سے لے کر کان کی نرم ہڈی اور دیگر سخت ہڈیاں شامل ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر کام جاری رکھتے ہوئے ہم دیگر انسانی ریشے بھی تیار کر لیں گے‘۔

ایک وقت ایسا آئے گا جب انسانی اعضاء کولیبارٹری میں بنانے کے بجائے لوگوں کے جسم پر ہی پرنٹ کیا جائے گا۔

یونیورسٹی کالج لندن کے سرجن پروفیس مارٹن برچال کہتے ہیں کہ یہ نتائج واقعی حیران کن ہیں۔ ’انسانی ریشوں اور اعضاء کو پرنٹنگ کے ذریعے بنانے پر کافی عرصے سے کام جاری تھا لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ تکنیک اتنی جلدی ترقی کرجائے گی۔ وہ مرغی ایجاد کر لی گئی ہے،جو واقعی سونےکے انڈے دیتی ہے۔ تاہم اس ٹیکنالوجی کو انسانوں پر استعمال کرنے سے قبل اس پر مزید تحقیق کرنی ہوگی‘۔

تازہ ترین