• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی اعضاء کی تجارت:چین، بھارت،پاکستان،کوسوو اور فلپائن سرفہرست

اسلام آباد(ایوب ناصر، تنویر ہاشمی)دنیا میں 4کروڑ سے زائد افراد جدید غلامی کی مختلف اقسام کا شکار ہیں جس میں انسانی سمگلنگ اور اس دوران کے اعضاء کا نکالنا اور ان کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔گلوبل سلیوری انڈکس 2018کی رپورٹ کے مطابق جدید غلامی کی بھیانک شکل یہ ہے کہ انسانی سمگلنگ کے دوران ان کے عضاء نکال لئے جاتے ہیں ان میں ترقی پذیر ممالک سےا عضاء کو نکال کر ترقی یافتہ ممالک میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی انسانی اعضا ء کو غیر قانونی طور پر نکالنے اور پیوندکاری کا عمل جاری ہے ۔ فوربز میگزین کی رپورٹ کے مطابق ایک ملک کے دوسرے ملک میں غیر قانونی نقل مکانی کرنیوالے افراد کے اعضا ء زبردستی نکال لئے جاتے ہیں تاہم اسکی محدود معلومات ہیں ۔ آج 25 مارچ کو دنیا میں غلامی کے شکار افراد کی یاد میں اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دن منایا جارہا ہے انسانی غلامی کی جدید شکل میں اس وقت 4 کروڑ 3 لاکھ افراد مختلف قسم کی غلامی کا شکار ہے عالمی ادارہ صحت کے اعدا دوشمار کے مطابق دنیا میں عالمی سطح پر اعضا ء کی ٹرانس پلانٹ میں 10 فیصد غیر قانونی اعضا ء کی سمگلنگ کے ذریعے ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیرقانونی انسانی اعضاء کی تجارت میں شامل ممالک میں چین ، بھارت ، پاکستان کو سوو اور فلپائن سہر فہرست ہیں ۔ چین کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہر سال 10 ہزار اعضا ء کی ٹرانس پلانٹیشن ہوتی ہے تاہم ریسرچ کے مطابق یہ تعداد 60 ہزار سے ایک لاکھ تک ہے ۔ گلوبل سلیوری انڈکس2008 کے مطابق عالمی سطح پراس دھندےکا حجم 84 کروڑ ڈالر سے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر تک ہے ۔بھارت میں لوگ اپنے گردے فروخت کر دیتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک امریکا، کینڈا ، آسٹریلیااور برطانیہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک بھارت ، چین ، فلپائن اور پاکستان سے انسانی ا عضا ءحاصل کرتے ہیں بعض ممالک میں قیدیوں کے اعضا بھی نکال کر سمگل کر دیئے جاتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق اعضا ء کو نکالنا اور اس کی سمگلنک میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز ملوث ہوتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں بھی گردوں سمیت دیگر انسانی اعضا ء کو غیر قانونی طورپر نکالنے اور سمگل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اگرچہ اس کے خلاف حکومت نے قانون سازی کی ہے اور سزائیں بھی مقرر کی ہیں لیکن یہ سلسلہ رک نہیں سکا۔انسٹیٹیوٹ آف کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ کے ایم ڈی ڈاکٹر سعید اختر سے جب اس ضمن میں رابطہ کیاگیا تو انہوں نے بتایا کہ2010 ءتک تو پاکستان میں گردوں کی غیرقانونی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر تھا، کراچی میں ڈاکٹر رضوی پہلےسے اس غیرقانونی دھندے کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جمیل احمد خان کاکہنا ہے کہ گردہ تبدیل کرانے کے خواہاں لوگوں میں بھی کسی حد تک شعور آگیا ہے ۔راولپنڈی اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں کے دو انتظامی سربراہوں سے جب گردوںاور لیور ٹرانسپلانٹ کےغیرقانونی دھندے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتال ان الزامات سے بری الزمہ ہیں۔

تازہ ترین