• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لفظ ’’ماں‘‘ سنتے ہی ذہن میں وہ پیکرِخلوص جلوہ گر ہوتا ہے، جس کے تصوّر سے راحت، ذکر سے تسلّی، بیان سے الفت اور خیال سے پیار کا احساس ابھرتا ہے۔ ماں کے ہاتھوں کا لمس، اس کے جسم کی خوشبو، اس کے وجود کا احساس، اس کا سراپا، دل جوئی، دل داری، غم خواری اور غم گساری کی علامت ہے۔ ماں کی شفقت بھری آواز، عالمِ تصور میں جب سماعت سے ٹکراتی ہے، تو ماضی کے گزرے لمحات یادوں کے حسین چراغ بن کر روشن ہوجاتے ہیں۔ایک برس قبل ماہِ محرّم میں جمعے کے دن جب مساجد سے اذانیں بلند ہورہی تھیں، عین اُسی وقت امّی نے جان، جانِ آفریں کے سپرد کی اور اس دارِ فانی سے کُوچ کرگئیں، جس کے بعد چاہتوں اور محبتوں کا ایک خوب صورت سفر تمام ہوا۔ التفات و مہربانی کا شجرِ سایہ دار سَروں سے اُٹھ گیا اور چاہت بھری نظروں سے دیکھنے والی، محبّت کے پھول نچھاور کرنے والی ماں ہم سے جدا ہوگئیں۔ہم حرماں نصیب نہ صرف ماں کے دستِ دعا اور دستِ شفقت سے محروم ہوئے، بلکہ ماں کی ممتا کو بھی ترس گئے۔ اُن کے جانے کے بعد یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ مشکلاتِ زمانہ سے نبردآزمائی کے بعد بھلا کس کے پاس جائیں گے، کس سے اپنے دل کی باتیں کریں گے، کون ہمارے دُکھ درد سن کر تسلّی کے دو لفظ بولے گا اور کس سے دعائوں کا کہیں گے، کون راتوں میں اُٹھ اُٹھ کر دعائے نیم شب میں ہمیں یاد کرے گا۔؎خاکِ مرقد پر تیری لے کر یہ فریاد آئوں گا.....اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا۔ زندگی کے سرد و گرم، مصائبِ حیات کی تلخیوں سے تنگ سے آکر ہم جب بھی ماں کے پاس جاتے، تو جیسے کوئی کم سِن و معصوم بچّہ پُرنم آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھتا ہے، بے چینی و بے قراری سے اُس کے پیار کے لیے ہُمکتا ہے، اور ماں کی ممتا جوش مارکے اپنے بچّے کو آغوش میں بھرلیتی ہے، تو بالکل اُسی طفلِ معصوم کی مانند ہماری حالت بھی کچھ یوں ہوتی؎ زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم.....صحبتِ مادر میں طفل ِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم۔

میری امّی کان پور (بھارت) کے ایک تعلیم یافتہ اور خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ابّو کے ساتھ بھی نرم وگرم حالات میں خوب نباہ کیا، ابّو کی سعودی عرب میں نوکری تھی۔ وہ سال دو سال بعد پاکستان آتے، اس دوران امّی اپنے پانچ بچّوں کے ساتھ نہایت سادگی اور قناعت کے ساتھ وقت گزارا کرتیں۔ ابّو گھر کے اخراجات کے لیے جو پیسا بھیجتے، اُسے بڑی احتیاط اور کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کیا کرتیں اور جب ابّو کی نوکری ختم ہوگئی، تو وہ وقت بھی انتہائی صبر و شکر سے اس طرح گزارا کہ اُن کے قریبی رشتے داربھی اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ کن حالات سے دوچار ہیں۔ ہر تہوار پر پورے سسرال، میکے کی اس انداز سے دعوت کرتیں کہ کسی کوہمارے معاشی حالات کا اندازہ تک نہ ہوپاتا۔ سال ہا سال یہ سلسہ جاری رہا۔ مہمان نوازی طبیعت میں اس قدر رچی بسی تھی کہ ضعیفی اور بیماری کے باوجود ہر آنے جانے والے کی ضیافت کی فکر میں مبتلا اور مہمان کی خاطر تواضع کے لیے بے چین رہتیں۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند اور قرآنِ کریم سے خاص شغف رکھتی تھیں۔ روزانہ عصرکے بعد تلاوتِ قرآن کا ضرور اہتمام کیا کرتیں اور حفاظ کا بڑا اکرام کرتیں۔ انہیں تعلیم سے بے حد لگائو تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد نامساعد حالات کے باوجود میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔اُس زمانے کی میٹرک تک تعلیم اس قدر پختہ اور معیاری ہوتی تھی کہ اردو اور انگریزی تو کیا، فارسی کی گلستان اور بوستان بھی نوکِ زبان ہوتی، ریاضی میں اس قدر مہارت تھی کہ بچّوں کو پیچیدہ سوالات کھیل کھیل میں سمجھا دیا کرتیں۔ کتب بینی کا اس حد تک شوق تھا کہ اُن کے بستر کے اطراف رسائل و جرائد کا انبار لگارہتا۔ رات دیر تک مطالعہ کیا کرتیں۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود تمام بچّوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بچیّوں کی تربیت کا معاملہ ان کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ انہوں نے اولاد کی تربیت اس طرح کی کہ غربت میں بچپن گزارنے کے باوجود اولاد نے کبھی کسی کے مال ودولت کو حسد کی نظرسے نہیں دیکھا۔بچوں کو کبھی بلند آواز سے نہیں ڈانٹا، آنکھوں کے اشارے سے بات سمجھادیا کرتیں کہ کس وقت کون سا روّیہ مناسب ہے اور کون سا نہیں۔ اس کے برعکس آج کل تربیت کا بڑا فقدان نظرآتا ہے، مثلاً بچّے کسی کے گھر جائیں، تو وہاں ایک طوفانِ بدتمیزی مچادیتے ہیں کہ میزبان کانوں کو ہاتھ لگالیتے ہیں، مگر جب ہم امّی کے ساتھ کسی کے گھر جاتے، تو امّی کے اشارئہ ابرو پر چلتے، کسی چیزکو لینے کی اجازت دیتیں، تب ہی ہاتھ لگاتے۔ ان کی دی ہوئی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ہم کبھی بے کار باتیں، ہنسی مذاق، بڑوں کے سامنے بے جا گفتگو ہرگز نہ کرتے، بلکہ نہایت مؤدّب رویہ اختیارکرتے۔ ہنرمندی، سلیقہ شعاری، دست کاری اور سگھڑپن میں امّی طاق تھیں۔ کیا سلائی، کیا کڑھائی اور کیا بُنائی، وہ ہرقسم کے ہنر میں ماہر تھیں۔ یہی تربیت بیٹیوں کو بھی دی۔ وقت کے زیاں کو سخت ناپسند کرتی تھیں۔ کسی نہ کسی کام میں ہروقت مصروف رہتیں، انہیں باغ بانی اور پالتو جانور پالنے کا بڑاشوق تھا، جس قدر گھرمیں گنجائش ہوتی، کوئی نہ کوئی جانور ضرور پالتیں، خاص طور پر پرندے انہیں بہت پسند تھے۔ پودوں سے بھی خوب لگائو رکھتیں، گھر میں پھلوں، سبزیوں کے پودے لگاتیں، آخری وقت تک چلتی پھرتی اور کام کرتی رہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق، اگراتنی متحرک نہ ہوتیں، تو کب کی معذور ہوکر بستر سے لگ جاتیں۔ 88سال کی طویل عمر پائی اور زندگی بھر تمام معاملات میں بہت ہی مستعد و متحرک رہیں۔

باگاہِ رب العزت میں دُعا ہے کہ ’’اللہ پاک! میری والدہ کی ان مساعئی جمیلہ کو قبول فرما،ان کی مغفرت فرما اور انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرما۔‘‘

(سعدیہ ادریس، اسسٹنٹ پروفیسر،نیوٹریش اینڈ ڈائیٹیٹکس ڈیپارٹمنٹ)

تازہ ترین