پروفیسر شاداب احمد صدیقی،حیدرآباد
گزشتہ دنوں میٹرک میں زیر تعلیم ایک طلبہ سے ملاقات ہوئی، حسب عادت اس سے سوال کیا کہ، ’’آپ بڑے ہو کر کیا بنا چاہتے ہیں؟‘‘ طالب علم نے جواب دیا کہ ’’میں ڈاکٹر بنوں گا‘‘۔ پھر اس سے پوچھا کہ، ’’اچھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ، نویں جماعت میں آپ نے بائیولوجی کا انتخاب کیا تھا، کیسا تجربہ رہا بائیو پڑھنے کا، کسی مشکل کا سامنا تو نہیں رہا؟‘‘۔ طلبہ کچھ پریشان نظروں سے ہمیں دیکھتا اور ہماری باتیں سنتا رہا۔ جب ہم نے اپنا سوال مکمل کیا تو اس نے بتایا کہ، ’’میرے تمام دوست کمپیوٹر کا انتخاب کر رہے تھے، اسی لیے میں نے بھی نائیتھ میں کمپیوٹر کی تعلیم ہی حاصل کی ہے، البتہ انٹر میں پری میڈیکل لینے کا ارادہ ہے۔‘‘
اس کا جواب سن کر کچھ پریشانی سی ہوئی کہ، کمپیوٹر سے میٹرک کرنے والا بچہ انٹر میں میڈیکل کیسے لے سکتا ہے۔ یہ المیہ صرف اس طلبہ کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے نوجوان ہیں، جنہیں درست رہنمائی نہ ہونے کے باعث غلط شعبوں کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ بعدازاں انہیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سو الگ، خوابوں کی تکمیل نہ ہونے کا افسوس زندگی بھر ساتھ رہتا ہے۔ بلاشبہ تعلیم کسی بھی قوم و ملّت کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، بلکہ معاشرتی زیست کی فنا و بقا کا مکمل انحصار اسی کے گرد ہوتا ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے ہر دور میں اس کی افادیت کو محسوس کیا گیا ہے۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے کچھ بھی بدلا جا سکتا ہے۔ یہ زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک آلۂ کار ہے۔ مقاصد کا تعین ہی منزل کی نشاندہی کرتا ہے، اور منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ درست راستے کا انتخاب کیا جائے بصورت دیگر بھٹکنے کا امکان ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ہمارے نوجوانوں کا بھی ہے۔ تعلیم کے حصول میں درست سمت کا تعین نہ کرنا تشویش کا باعث ہے۔ یہ امر باعثِ فکر ہے کہ طلباء کی اکثریت پڑھ کچھ رہے ہیں،بن کچھ رہے ہیں جب کہ بننا کچھ اور چاہتے تھے۔ نوجوانوں کا یہ عمل معاشرے کی ترقی کے لئے بھی نقصان دہ ہے، کیوں کہ جب یہ طلبا اپنی پسند اور دلچسپی کے مطابق مضامین نہیں پڑھیں گے، تو عدم دلچسپی کے باعث اپنی مکمل صلاحیتوں کو بروع کار نہیں لاسکیں گے۔ جب وطن عزیز قابل نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو جائے گا تو کس طرح ترقی کی منازل طے کرے گا۔ بلاشبہ ہمارے نوجوان خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن بدقسمتی سے درست سمت کا تعین نہ کرنے کی وجہ سے راہ بھٹک جاتے ہیں۔اس عمل میں نوجوانوں کے ساتھ والدین و اساتذہ بھی برابر قصوروار ہیں۔ دوران تعلیم خاص طور پر اسکول کے دوران اساتذہ اپنے شاگردوں کے حوالے سے باخبر ہوتے ہیں، اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ وقتاً فو وقتاً ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ ساتھ ہی والدین کو بھی بچوں کے سلسلے میں باخبر رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ گھر کا ماحول اس طرح فراہم کریں کہ بچہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مزید نکھار سکے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم میں فرق ہے۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی صحیح معنوں میں زندگی اور تعلیمی دور کی شروعات ہوتی ہے۔ یہ ہی وقت ہوتا ہے جب سوچ سمجھ کر عملی زندگی میں قدم رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب نوجوانوں کو درست سمت کے انتخاب میں والدیں و اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کی عدم توجّہ کے باعث نوجوان نسل غلط قدم اٹھا رہی ہے۔اسکول کے دوران بچّوں کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی دلچسپی کن مضامین کو پڑھنے میں ہے۔بعض بچّے سائنس کے مضامین میں ہوشیار ہوتے ہیں اور کچھ بچّوں کا رجحان ٹیکنیکل اور آرٹس مضامین کی طرف ہوتا ہے۔جب کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ، بعض والدین بچّوں پر اپنی مرضی مسلّط کرتے ہیں کہ، ہم اپنے بچّہ کو ڈاکٹر،انجینئر،پائلٹ بنائیں گے۔ وہ بچّوں کی زندگی کے فیصلے خود ہی کرنے لگتے ہیں۔ان کا یہ اقدام نوجوان کو اپنی سمت سے ہٹا دیتا ہے اور مرضی کے خلاف پڑھنے کی وجہ سے نوجوان اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی مرضی مسلت کرنے کی بجائے بچّوں کو ان کی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کرنے دیں۔ تاکہ وہ اپنی تمام تر دلچسپیوں کے ساتھ اپنی تعلیم میں مشغول رہے۔ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی بچّوں کی رائے جاننا بے حد ضروری ہے۔ان سے معلوم کریں آپ کس طرح کی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں؟کیا آپ کو ایسے کام پسند ہیں جن میں سفر کرنا ہو،اور اکثر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ضرورت ہو یا آپ کس طرح کا کام پسند کرتے ہیں؟
موجودہ دور انٹرنیٹ کا ہے۔ جس نے نوجوانوں کو بہت زیادہ ہوشیار اور باشعور بنادیا ہے۔آج کل اسکول کے طلباء اپنے فیصلے کرنے کی ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں۔اسکول اساتذہ بھی بچوں کی سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے رہنمائی کر سکتے ہیں۔اساتذہ اور والدین کی غفلت کی وجہ سے ہر سال بے شمار طلباء اور طالبات تعلیم کے حصول میں اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔ ایسے میں چند ہی نوجوانوں ہیں جو کہ صحیح وقت پر اپنی دلچسپی کے مطابق تعلیم میں مشغول نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ طلباء کی بڑی تعداد اپنی مرضی کے مضامین کا انتخاب کرنے کے باوجود امتحانات میں نمایا کارکردگی نہیں پیش کر پاتے اور نتیجتاً اسے جاری نہیں رکھتے۔ انٹر میں یا پھر جامعہ میں داخلے کے وقت مضامین تبدیل کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ پری انجینئرنگ یا پری میڈیکل کے طلباء کم نمبر کے باعث بی کام میں داخلہ لیتے ہیں۔ جہاں سے ان کی مشکلات کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ انٹر میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان کس طرح کامرس کی بنیادوں کو سمجھے گا اور اس میں دلچسپی لے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی کثیر تعداد بی کام پاس کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ تو دوسری جانب نوجوانوں کا ایک غلط فیصلہ ان کو نقل کے رجحان کی طرف راغب کرتا ہے۔ کیونکہ یہ کامرس کی ابتدائی اور بنیادی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دلچسپی تعلیم میں ختم ہو جاتی ہے۔ اگر یہ ہی نوجوان انٹر سائنس کے بعد بھی سائنس کی مختلف شعبوں میں تعلیم جاری رکھیں تو ممکنہ طور پر مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
بعض طلباء آرٹس پڑھتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہی ان کو کامرس کی تعلیم اچھی لگنے لگتی ہے۔ یا پھر بی کام یا بی ایس سی کرنے کے بعد آرٹس کی تعلیم میں آ جاتے ہیں اور ماسٹر آرٹس کے مضمون میں کرتے ہیں۔ یہ عمل ان کی منصوبہ بندی کے فقدان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اکثر نوجوان یہ کہتے ہیں کہ، ہم نے اپنے دوستوں کی وجہ سے سائنس سے کامرس میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔دوستوں کے مشوروں پر فیصلہ کرنا اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ انہیں اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرنا چاہیئے۔
’’آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟‘‘، یا ’’تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقاصد ہیں؟‘‘ بظاہر نہایت معمولی سوال معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا جواب کسی طلباء کے ذہنی صلاحیتوں اور ان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ لہٰذا تمام طالب علموں کو چاہیئے کہ وہ وقتاًفوقتاً ان سوالات کا جواب خود سے لیتے رہیں تاکہ انہیں اپنی دلچسپی اور منزل کا صحیح اندازہ ہوسکے اور پھر اسی کے مطابق کسی راہ کا انتخاب کریں۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بھی ہے کہ، بعض طالب علم کا تعلق امیر اور باشعور طبقے سے ہے جو باآسانی اپنی مرضی کے مطابق مضامین کا نہ صرف انتخاب کرسکتے ہیں بلکہ بہتر سے بہتر ملکی و غیر ملکی یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے سکتے ہیں۔ اگر تعلیمی سفر کے دوران کبھی کسی غلط مضامین کا انتخاب ہو بھی جائے تو یہ اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ واپس پیچھے موڑکر صحیح مضامین کا انتخاب کرلیں۔ اگر چہ اس سے سال ضائع ہوگا، لیکن یہ زندگی بھر پچتانے سے بہتر ہے۔ دوسری جانب بیشتر طلباء متوسط یا غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں ایسے طلبا بھی شامل ہیں، جن کے والدین کم پڑھے لکھے اور غیرشعور ہیں، ان کے پاس رہنمائی کرنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ بعض ایسے نوجوان بھی ہیں جن کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے جو اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ اس لئے نہیں دیتے کہ ان کو معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے، ایسے نوجوان کچھ وقت کالج میں گزارتے ہیں اور پھر زیادہ وقت اپنے دوسرے کاموں مثلاً سیل مین،درزی کا کام، موٹر سائیکل کی مرمت کا کام یا دوسری چھوٹی موٹی ملازمتوں پر صرف کرتے ہیں۔ جہاں یہ ملازمتیں انہیں مختلف تجربات سے آشنا کرتی ہیں وہیں ان کے لیے تعلیم محض کاغذی ڈگری کا حصول ہوتی ہے۔
بعض نوجوان دوستوں یا ویل سیٹلیڈ عزیز و اقارب کی دیکھا دیکھی کسی ایسے مضمون کا انتخاب کرلیتے ہیں، جسے بعدازاں جاری رکھنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال، چارٹرڈ اکائونٹینسی (سی اے) اور اے سی سی اے کے کورسز کی ہے۔ جس میں ہر سال ہزاروں طلبہ و طالبات، سی اے پاس لوگوں کی پرکشش تنخواہیں دیکھ کر داخلہ تو لے لیتے ہیں مگر مسلسل ناکامی کے سبب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر طالبعلم کو اپنی شخصیت، صلاحیت، خواہش، ذہنی استعداد، مالی وسائل اور اپنی عملی ضروریات کو دیکھ کر اپنے لئے بہترین شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ چونکہ معاشرے کے ہر فرد کی ضروریات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، چنانچہ ممکن ہے کہ ایک شعبہ ایک طالب علم کے لئے بہترین ہو مگر وہی شعبہ کسی دوسرے طالب علم کے لئے درست نہ ہو۔ اس لیے شعبے کا انتخاب کرتے وقت تمام پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے۔ اکثر اوقات غلط شعبہ کا انتخاب کرنے والے طالب علم ذہنی پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں،جس کی وجہ سے مایوسی،ڈپریشن،نیند کی کمی جیسی بیماریاں بڑھ رہی ہیں،جبکہ بعض اوقات مایوسی اور ڈپریشن کی وجہ سے نوجوان خودکشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو مایوس ہوکر خودکشی کرنے یا احساس کمتری کی زندگی بسر کرنے کی بجائے، وقت رہتے درست فیصلہ اور باشعور افراد سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔ اگر انہیں ملک و قوم کا نام روشن اور اپنی زندگی خوشگوار بنانی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ تعلیم پر بھرپور توجہ دیں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر من پسند شعبے میں ملکی اور غیر ملکی اسکالرز شپ حاصل کریں۔ دوسری جانب مخیر حضرات،این جی اوز اور اساتذہ ایسے نوجوانوں کی بھرپور مدد کریں، جو بہت ذہین اور قابل ہیں مگر معاشی تنگی کی وجہ سے من پسند شعبے کا انتخاب نہیں کرپاتے، جو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔کسی بھی نوجوان کو تعلیم دلانا نیکی اور صدقہ جاریہ ہے، لیکن اگر کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا تو کم سے کم اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں نسل نو کی درست سمت میں رہنمائی تو کر ہی سکتا ہے۔
اسکول انتظامیہ پر کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طالب علم کی تعلیمی قابلیت اور ذہنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں، والدین اور طالب علم کی بھرپور رہنمائی کریں تاکہ کالج کی تعلیم کیلئے صحیح سمت کا تعین ہو۔ کیوں کہ تعلیمی اداروں کیریئر کونسلنگ کا کوئی انتظام موجود نہیں، جس کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد ڈگریاں لیے ملازمت کی تلاش میں در بدر بھٹکتی رہتی ہے۔ دوسری جانب ہم اپنے نوجوانوں کی تعلیمی،عملی،فکری و نظریاتی تربیت کئے بغیر دنیا میں ملک کا روشن چہرہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ صحیح وقت پر صحیح کیریئر پلاننگ اور کیریئر کونسلنگ نہ ہونے کے باعث کیفیت یہ ہے کہ جس شعبے میں پہلے ہی بیروزگار ہیں اسی شعبے میں مزید نوجوان ڈگریاں لے کر آ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ حکومتی سطح پر اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر باقاعدہ کیریئر کونسلر تعینات کئے جائیں،جو بچوں کے ذہنی رجحان،صلاحیتوں اور دلچسپیوں کا مشاہدہ و تجزیہ کرنے کے بعد انہیں موزوں پیشے اختیار کرنے کیلئے مناسب مشورے دے سکیں۔