• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاہر القادری تو ایک علامت ہے...ملاقات…غضنفر ہاشمی

اس یخ بستہ اور دھند میں لپٹے موسم میں اگر فرض کر بھی لیں کہ علامہ طاہر القادری کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، یہ بھی مان لیں کہ وہ ملکی اور عالمی مقتدرہ کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ وہ جمہوری نظام کی بساط کو الٹنے کے درپے ہیں یا کسی اور قوت کو اقتدار کے فیوض و برکات سمیٹنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس میں بھی حیرت کا عنصر ہے کہ انہیں اچانک پاکستان کی یاد کیسے آگئی اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کیسے آگئے۔ یہ بات ماننے میں بھی حرج نہیں ہے کہ ان کے پاس یا ان کی تنظیم کے پاس اتنا بڑا سرمایہ اچانک کیسے آگیا کہ وہ لاکھوں کا ایک جلسہ منعقد کریں یا لاکھوں نفوس کو لے کر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کردیں۔ تھوڑی دیر کیلئے یہ بھی مان لیں کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس قوم کے امراض کیلئے کوئی مسیحائی نہیں، کوئی پروگرام نہیں، چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ وہ نگران حکومت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں یا نگران حکومت کے دورانیے کو طول دینا چاہتے ہیں، یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے کہ وہ خود بھی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اورنہ خود اس اہلیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں جو وہ دوسرے امیدواروں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے الزامات اور اعتراضات اپنی جگہ، ممکن ہے یہ سب کچھ درست ہو اور ہوسکتا ہے یہ بھی درست ہو کہ لانگ مارچ کرنے سے نظام کو خطرہ درپیش ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل سکتا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ بات طے ہے کہ علامہ طاہر القادری نے ٹھہرے ہوئے، جامد اور کائی زدہ پانی میں ایسا پتھر پھینکا ہے جس کے چھینٹے دور دور تک جاچکے ہیں اور یبوست زدہ، مفاد اور اقتدار کے مارے ہوئے سیاستدانوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں۔ سب کو اپنی اپنی پڑگئی ہے۔ اقتدار کی سیاست نے سب کو اکٹھا کر دیا ہے۔ کبھی ایک طاہر القادری کے در پر حاضری دے رہا ہے تو کبھی دوسرا باری کے انتظار میں ہے۔ طاہر القادری کے ساتھ ملاقاتیں کرنے والے اس لئے ان سے نہیں مل رہے کہ انہیں علامہ کے ایجنڈے سے اتفاق ہے بلکہ صرف اس لئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کچھ ایسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے جن کے بغیر ملکی نظام کا پتّا تک نہیں ہلتا۔ ایک مرتبہ پھر یہ سیاستدان ہمارے سامنے بالکل ننگے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر نظام کو بچانے کے نام پر یا اگلی باری کو یقینی بنانے کے لئے نواز شریف اور زرداری اکٹھے ہوگئے ہیں تو چوہدری برادران اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے طاہر القادری کے سامنے سربسجود ہوچکے ہیں۔ اگر ایم کیوایم اپنی اگلی باری کے لئے نئے پتے کھیل رہی ہے تو اے این پی اور فضل الرحمن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے لیکن جس دو ٹانگوں والی مخلوق کے لئے یہ ملک، یہ نظام، آئین اور سب کچھ وجود میں آیا ہے اور جس کے ووٹ سے یہ نمائندے ، یہ اسمبلیاں، یہ سینیٹ، یہ کمیٹیاں، یہ وزیراعظم ، یہ صدر ، یہ وزیر، مشیر بنتے ہیں، ملک کو لوٹتے ہیں، اپنی اور آنے والی نسلوں کے لئے پیسہ کماتے ہیں، اس کا کوئی نام نہیں لے رہا، یہ مخلوق روز جیتی اور روز مرتی ہے، روز اس کا کوئی نہ کوئی عضو قتل کردیا جاتا ہے، کبھی گھر میں اور سڑک پر ، کبھی کسی بم دھماکے اور حادثے میں، کبھی اسپتالوں اور کبھی تھانوں میں ایڑیاں رگڑتی ، فریاد کرتی اور بین کرتی نظر آتی ہے۔ یہ مخلوق اور اس کے مسائل کسی کے ایجنڈے پر نہیں، غیروں کی جنگ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے پرخچے اڑتے دیکھتی، سی این جی کے لئے لمبی قطاروں میں لگی، روٹی روزی کے لئے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی اور مختلف قوتوں کے ہاتھوں روزانہ استحصال کا شکار ہوتی یہ کیڑے مکوڑوں جیسی مخلوق اب کچھ اور دیکھ رہی ہے، اسے اب اپنے روایتی قاتلوں سے دلچسپی نہیں رہی۔ اسے تو جب بھی اور جس میں بھی اپنے مسیحا کی شکل دکھائی دے گی یہ اس کے پیچھے چل پڑے گی۔ وہ طاہر القادری ہو یا عمران ، وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے بس اس کی زبان پر تبدیلی اور عام آدمی کا نام ہونا چاہئے اس کی آنکھوں میں آنسو اور خواب ہونے چاہئیں۔ یہ مخلوق اس کے اشارہٴ ابرو پر دمادم مست قلندر کرتی کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجائے گی۔
اگر میرے ملک کے سیاستدانوں نے اس ملک کے لئے کچھ کیا ہوتا، ان کی کارکردگی بہتر ہوتی، ڈیلور کیا ہوتا، ملکی معیشت، گورننس اور خارجہ پالیسی بہتر ہوجاتی ، کرپشن کم ہوجاتی ، اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی، میرٹ اور اہلیت کا کلچر فروغ پاسکتا ، اداروں کے سربراہ میرٹ پر منتخب کئے جاتے۔ یہ سب اور ان کے خاندان کے افراد لوٹ مار میں شریک نہ ہوتے، ان کے کاروبار ، پیسے اور جائیدادیں ملک سے باہر نہ ہوتیں۔ ان کی اولادیں صرف حکمران بننے کے لئے ملک واپس نہ آتیں، ملک کی خودمختاری اور دہشت گردی کے خلاف کوئی متفقہ حکمت عملی بنا کر اس پر عملدرآمد کرتے، عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے اقدامات کرتے، ملک میں روزگار کے ذرائع پیدا کرتے، بجلی اور گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لئے مختلف منصوبے شروع کرتے، مہنگائی کی روک تھام کرتے، صرف اقتدار اور صرف اقتدار ان کا مطمح نظر نہ ہوتا تو انہیں کبھی علامہ طاہر القادری کے آنے، جلسہ کرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے خوف نہ آتا اور وہ ڈر کے مارے ایک دوسرے کی کچھاروں اور مچانوں میں پناہ نہ لیتے، وہ کبھی ڈاکٹر طاہر القادری کو سنجیدگی سے نہ لیتے، ان کے در پر حاضریاں نہ لگواتے، انہیں اپنا امام نہ مانتے، ان کے ہاتھوں میں ہاتھ نہ ڈالتے، ان کے لانگ مارچ میں حصہ لینے کا اعلان نہ کرتے۔
صورتحال کیسی بھی ہو۔ اب بات پاکستانی سیاستدانوں اور مقتدرہ کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ علامہ طاہر القادری تو محض ایک علامت ہے، اس کا جلسہ اور لانگ مارچ تو محض ایک ریہرسل ہے، ایک بڑے طوفانی لانگ مارچ کی۔ اس ملک میں وہ دن دور نہیں جب ایک بڑا تحریر اسکوائر بنے گا جس میں لاکھوں لوگ اس ملک کو لوٹنے والی اشرافیہ اور استحصالی طبقوں کو مارنے کے لئے جمع ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ پھر ہر سڑک ، میدان ، گلی اور شہر تحریر اسکوائر بنے گا۔ یہ دو ٹانگوں والی انسان نما مخلوق بڑے بڑے محلات اور کروڑوں کی گاڑیوں کو تباہ کردے گی اور ان میں سے جو بھی نظر آیا اس کو نہیں چھوڑے گی۔ وہ دن ضرور آئے گا اور میری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوگا۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
تازہ ترین