• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے کو بول چال میں دقت، خیالات پیش کرنے میں دشواری، اپنی ہی دنیا میں مگن رہنا، نظریں چرانا، ایک ہی حرکت بار بار کرنا یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرپانا، یہ تمام چیزیں ذہنی خرابی ’’آٹزم ‘‘کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ عام طور پر زیادہ تر والدین اسے بچے کی شرارت، خاموش یا تنہائی پسند طبیعت سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا یہ عمل مستقبل میںبیش بہا مشکلات کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آٹزم کی تشخیص مناسب وقت پر ہوجائے تو مخصوص تربیت کے ذریعے آٹزم کے شکار بچے بھی عام بچوں کی طرح زندگی گزارسکتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب کو آٹزم کے بارے میں آگہی ہو۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپریل کا مہینہ’’آٹزم کی آگاہی،، کے لیے مخصوص ہے جبکہ رواں ماہ کی 2تاریخ کو آٹزم کا عالمی دن منایا جاتاہے۔2007ء میں اقوام متحدہ کی جانب سےآٹزم کے شکار افراد سے برتی جانے والی نفرت اور تفریق کے خاتمے کے لیےماہ اپریل میں ’’آٹزم کی آگاہی‘‘ کے لیے یہ دن مقرر کیا تھا۔ آٹزم کے متعلق آگاہی دینےکا مقصددنیا بھر کے لوگوں میں اس دماغی خرابی کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے، جس کے لیے بیشتر ممالک میں و اک، سیمینارز، کانفرنسز اور دیگر خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ماہرینِ نفسیات اس بیماری سےمتعلق لیکچرز دیتے ہیں۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کی زندگی میں والدین ،اساتذہ اور دیگر رشتے داروں کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ ایک مخصوص طریقے سے تربیت اور مخصوص توجہ ان بچوں کو سماجی زندگی میں بہترکردار ادا کرنے کی جانب مائل کرسکتی ہے۔

آٹزم کیا ہے ؟

آٹزم کومرض کے بجائے ذہنی یا نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آٹزم کے لفظی معنی خود تسکینی، خوش خیالی اورخود محوری کے ہیں۔ خرابیوں کا یہ مجموعہ بچے کی دماغی نشوونما میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ آٹزم کے اثرات بچے کے ابلاغ، سماجی تعلقات، ذہانت اور اپنی مدد آپ جیسے عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایسےبچےاپنے آپ میں گم اور مگن نظر آتے ہیں۔ بچے کی توجہ اور حرکات وسکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی ایسے بچوں میں حواس خمسہ کی صلاحیت یا تو بہت حساس ہوتی ہے یا پھر نہ ہونے کے برابر۔ہم میں سے اکثر افراد آٹزم کے شکار بچوں کی تربیت کو اس خرابی کی وجہ قرار دیتے ہیں جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا، ان کی حرکات وسکنات پر ان بچوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔

وجوہات

دنیا بھر کے سائنسدان اب تک آٹزم کی یقینی طور پر کوئی ایک وجہ تلاش نہیں کرپائے ہیں۔ اس حوالے سےتحقیقات اور مطالعوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فی الحال سائنسدان آٹزم کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، جن میں دماغی ساخت یا دماغی افعال میں بے قاعدگی، حمل یا زچگی کے دوران کسی وائرس انفیکشن یا موذی کیمیکل کی موجودگی وغیرہ۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق بچے کی ولادت کے ایک سال کے اندر دوسری بار حاملہ ہونے والی ماؤں کےبچوں میں آٹزم کی تشخیص کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسدان اس حوالے سے اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ آٹزم ایک موروثی خطرہ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔

تشخیص

دماغی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے مرض آٹزم سے نمٹنے کے لیے اس کی بروقت تشخیص ضروری ہے۔یہ ایک ایسی کیفیت جو 18ماہ سے 3سال کے دوران بچے میں ظاہر ہوتی ہے جبکہ ایک جریدے کے تحقیقی ماہرین اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس کیفیت میں مبتلا بچوں کی عمر 16 سال سے کم ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 3لاکھ سے زائد جبکہ برطانیہ میں7 لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں اور اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہےلیکن اس کاعلاج تاحال دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس حوالے سے آٹزم کی بروقت تشخیص بچے کے لیے فائدہ مند تصور کی جاتی ہے۔ نیویارک پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی جانب سے ایک بلڈ ٹیسٹ وضع کیا گیا ہے، جو خون میں بعض حیاتیاتی مارکر کو نوٹ کرتے ہوئے آٹزم کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ چونکہ اس مرض کی تشخیص بچے کے رویے کا مشاہداتی تجزیہ ہے لیکن یہ تجزیہ دوسرے کئی امراض کی علامات سے خاصا قریب تر ہے، لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ طبی ٹیسٹ کرواکے پہلے دیگر امراض کی موجودگی کے امکان کو مسترد کیا جائے۔

دیکھ بھال و تربیت

آٹزم میں مبتلا بچے مخصوص تربیت اور توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں، اس حوالے سے والدین، اساتذہ اور رشتہ داروں کا کردار بے حد اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر آپ ان بچوں کو ذہنی بیمار یا بدتمیز سمجھ کر نظر انداز یا ان سے نفرت کررہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں کیونکہ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں مشہور سائنسدان نیوٹن، آئن اسٹائن اور موسیقار موزرٹ بھی آٹزم کا شکار رہ چکے ہیں لیکن ان کے عزیزوں نے اس بیماری سے نمٹنے میں ایک خاص کردار ادا کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی ذہانت اور کارکردگی کو دنیا آج بھی سراہتی ہے۔ آپ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار لازمی ادا کریں ۔ملک بھر میں معذور بچوں کے لیے سینکڑوں اسکول موجود ہیں، جہاں ان کی معذوری کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف سرگرمیوں کی مدد سے انھیں تعلیم دی جاتی ہے۔ آٹزم کے شکار بچوں کی اسکولنگ پر بھی عام اور صحت مند بچوں کی طرح توجہ دیں۔

٭آٹزم کے بچوں کو لاعلاج سمجھ کر مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ یہ مرض فی الحال لاعلاج ضرور ہے لیکن اس کے اثرات واضح طور پر کم کیے جاسکتے ہیں ۔

٭ایسے بچوں کے لیے استاد کا بندوبست کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی ہو، تاکہ بچے کی سائیکی کو سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم وتربیت کرے۔

٭آپ بطور والدین، استاد یا رشتہ دار آٹزم کے شکار بچوں کی ذہنی کیفیت کو سمجھ کر ان کے ساتھ رویہ اپنائیں اور ان پر مکمل توجہ دیتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون برتیں۔

٭ماہرین نفسیات اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مناسب دیکھ بھال، اے بی اے طریقہ (Applied Behavioral Analysis)، محبت اور اسپیچ تھراپی کے ذریعے آٹزم کے اثرات کم کیے جاسکتے ہیں۔

تازہ ترین