جھڈو میں ٹریفک پولیس کے حکام کی عدم توجہی اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے سڑکوں پر انسانی جانوں کا زیاں روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ صرف چند ماہ کے مختصر عرصے کے اندر ٹریفک حادثات نے درجنوں گھروں کے چراغ گل کردیئے ہیں۔گاڑیوں کے حادثات میں اضافہ نئی شاہ راہ کی تعمیر کے بعد ہواجب کہ جھڈو شہر میں ٹریفک پولیس اہل کاروں کی تعیناتی، ہنوز تعطل کا شکار ہے۔ تفصیلات کے مطابق،جھڈو نوکوٹ، میرپورخاص ہائی وے پچھلے بیس سال سے بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور کئی جگہ شاہ راہ میں گڑھے پڑے ہوئے تھے، جن پر سفر کرتے ہوئے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آخر کارحکومت کی کوششوں اور ایشین ترقیاتی بینک سے فنڈز ملنے کے بعداس سڑک کی تعمیر شروع ہوئی اور چند ماہ تک مسلسل کام ہونے کے بعدمذکورہ شاہ راہ پایہ تکمیل کو پہنچی۔ لیکن اس روڈکی تعمیر سے جہاں سفرمیں آسانیاں ہوئیں اور دوران سفر حائل ہونے والی دشواریوںکا خاتمہ ہوا وہیں نوعمر موٹرسائیکلسٹوں اور منچلےقسم کے ڈرائیوروں کو اس شفاف اور مسطح سڑک کی صورت میں اپنے کرتب دکھانے کے لیے ایک ’’کھلااسٹیج‘‘ میسر آگیا، جہاں وہ اس طرح سے ڈرائیونگ کرتے ہیں جیسے کہ موت کے کنوئیں میں گاڑیاں چلا رہے ہوں۔ایک طرف نوجوان اور لاابالی لڑکوں پر فرشتہ اجل منڈلانے لگا تو دوسری طرف اس سڑک پر رکشا چلانے والے کم عمر اور اناڑی ڈرائیوروں نے ہر چلتی گاڑی کے ساتھ ٹکرا جانا معمول بنا لیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف پانچ ماہ کے عرصہ میںرونما ہونے والے حادثات میں 15 نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 4 سو سے بھی تجاوز کرچکی ہے، جن میں سے چند ایسے بھی ہیں جو زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں ۔ان حادثات میں میں شکار ہونے والے 23 سالہ نوجوان دانش قائم خانی، 19 سالہ سہراب سیال، 24 سالہ وقار چانڈیو، لیاقت راجپوت، 18 سالہ اسامہ قائم خانی، 19 سالہ نرسنگ بھیل، 20 سالہ احمد، 13 سالہ ذیشان اور دیگر افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
جھڈو میرپورخاص، جھڈو کنری، جھڈو سامارو، جھڈو پنگریو ، جھڈو مٹھی اور جھڈو ٹنڈوباگو روڈ پر پبلک ٹرانسپورٹ کی کمیابی اورعدم دستیابی کے باعث اس ہائی وے پرچھوٹے فاصلوں کا سفر طے کرنے کے لئے موٹر سائیکل اور رکشہ کے سفر کو ترجیح دی جاتی ہے ۔لیکن ماضی کی ٹوٹی ہوئی اورجگہ جگہ گہرے گڑھوں والی سڑکوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے سفر کرنے کے عادی اور اناڑی رکشہ ڈرائیوروں کو نوتعمیر شدہ سیاہ سلفیٹ کی شفاف سڑک نعمت غیر مترقبہ لگی ہے اور وہ اس پر تیزرفتاری اور وحشیانہ انداز میں ڈرائیونگ کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیںنو عمر موٹرسائیکلسٹوں نے اس شاہ راہ پر ون ویلنگ کے مظاہرے کرتے ہوئے رفتار کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے جب کہ رکشہ ڈرائیوروں نے رکشے طوفانی رفتار سے بھگانے شروع کرنےکے علاوہ رکشے میں سفر کرنے والی سواریوں کی زندگیاں دائو پر لگاتے ہوئے وحشیانہ انداز میں خطرناک طریقے سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے سائیڈ بازی اور اوورٹیکنگ شروع کی جس سے حادثات کا رونما ہونا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ حادثات کے بعد صورت حال کی سنگینی اس وقت زیادہ شدت اختیار کرلیتی ہے جب مقامی سرکاری اسپتال میں زخمیوں کے علاج اور ابتدائی طبی امداد دینے کے لئے نہ ڈاکٹرز اور عملہ دستیاب ہوتا ہے اور نہ ہی ادویات، جب کہ دوسرے شہروں میں منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس کی سہولت موجود نہیں ڈہے اور جو ایمبولینس کے نام پر گاڑیاں اسپتال میں کھڑی ہیں، وہ اکثر خراب ملتی ہیں یا دھکا اسٹارٹ ہوتی ہیں۔
اس شاہ راہ پر بڑھتے ہوئے حادثات اور کثیر انسانی جانوں کے زیاں پر حکام کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ۔ جھڈو پولیس نے بھی محض نمائشی اقدامات پر اکتفا کیا اور افسران کے فوٹو سیشن کے لیے دو مرتبہ تاریب منعقد کی گئیں۔کچھ عرصے قبل جھڈو پولیس کے سابق ڈی ایس پی سید مجاہد علی شاہ نےاعلان کیا تھا کہ جھڈو میں کم عمر اور اناڑی رکشہ ڈرائیوروں، اور موٹر سائیکل چلانے والے کم عمر بچوں کو گرفتار کرنے، ہیلمٹ کا استعمال یقینی بنانے اورلائسنس و کاغذات چیک کرنے کے لئے مختلف مقامات پر ٹریفک پولیس اہل کارتعینات کئے جائیں گے جنہیں ٹریفک کی لاقانونیت پر قابو پانے کے لیے مکمل اختیارات دیئے گئے ہیںلیکن ان کے تبادلے کے بعد یہ دعویٰ بھی پورا نہ ہوسکا۔ ۔مجاہد علی شاہ کی رخصتی کے بعدموجودہ ڈی ایس پی انور لاکھو نے چارج سنبھالا اور ون فائیو پر پکٹ قائم کر کے موٹر سائیکل اور رکشہ چلانے والے متعدد کم عمر اور اناڑی ڈرائیوروں کی پکڑ دھکڑ کی اور بچوں کے والدین سے حلف نامے بھی لکھوائے گئے لیکن اسی شام سے کم عمر بچے عین پولیس اسٹیشن کے سامنے موٹر سائیکل دوڑانے لگے اور پولیس نے اپنے روایتی انداز میں آنکھیں بند کرلیں۔
جھڈو میں آئے روز کسی معصوم بچے کی خاک و خون میں لپٹی لاش بے حس معاشرے اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی کے منہ پرطمانچہ ہے۔ ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کی روک تھام کے لئے این جی اوز نےبھی چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ خود والدین اپنے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے انہیں سرزنش کرنے پر آمادہ ہیں۔ شہریوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ "چند منٹ کی جلدی" کے سامنے انسانی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگراس صورت حال کا احساس ہے تو صرف ان گھرانوں کو ے جنہوں نے پچھلے چند ماہ میں اپنے پیاروں کی میت کو کاندھا دیا ہے اور ان گھروں میں مائیں آج بھی بیٹے کے خون آلود کپڑے آغوش میں سمیٹے اشک بار آنکھوں سے ہر کسی کو دیکھتی رہتی ہیں۔