اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ ہمارا معاشرہ نوجوانوں کو جو ملک کی آبادی کا غالب حصہ ہیں، متحرک، کارآمد اور سرگرم طبقے کے طور پر کھپانے اور سمونے میں ناکام ہوچکا ہے، اس کی وجوہ مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ بے مقصد ، نظام تعلیم ہے جو ’’ڈگری‘‘ کے نام پر کاغذ کا ایک ٹکڑا فراہم تو کرتا ہے لیکن معاشرے کا کارآمد فرد بنانے میں کوئی مدد نہیں دیتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر دور کے حکمرانوں نے خواہ وہ جمہوریت کے نام لیوا ہوں یا آمریت کی پیداوار ہوں، اسلام پسند ہوں یا سوشلزم کے پرچارک، قدامت پرست ہوں یا پالتو کتے کو گود میں لے کر تصاویر کھنچوا کر دنیا کو اپنی روشن خیالی کا پیغام دینے والے، سب ہی نے نوجوانوں بالخصوص طلباء کی قوت سے خائف ہوکر اسے دبانے اور کچلنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے قیام کو ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک یہاں ایسی کوئی حکومت برسر اقتدار نہیں آئی جس نے طلباء کی قوت کو اپنی طاقت سمجھ کر ملک و قوم کی ترقی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہو، حالاں کہ پاکستان کے ابتدائی پانچ برسوں کے دوران، طلباء ہی وہ واحد طبقہ تھا جو سیاسی منظرنامے پر سب سے پہلے اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوا۔
اس کی ابتدا مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں قومی زبان کے مسئلے سے ہوئی جب ڈھاکا یونی ورسٹی کے طلباء نے کھل کر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا اور بنگالی کو قومی زبان قرار دینے کی مہم چلائی۔ حکومت نے اس جدوجہد کو کچلنا چاہا جس کا نتیجہ کشت و خون کی صورت ظاہر ہوا، اس جدوجہد کے حوالے سے دنیا میں 21؍فروری مادری زبان کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
موجودہ پاکستان میں طلباء جدوجہد کی ابتدا کراچی میں ڈائو میڈیکل کالج کے قریب واقع ہوٹل میں ہونے والے ایک اجلاس سے ہوئی جس میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی، اس اجلاس کے شرکاء میں ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر رحمٰن ہاشمی، ڈاکٹر ہارون احمد، مرزا محمد کاظم، سلیم عاصمی، زین لودھی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے آگے چل کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی شکل اختیار کرلی۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی نے جمعیت اسلامی طلباء کے نام سے طلباء تنظیم بنائی جو جماعت اسلامی کی سرپرستی میں کام کرتی رہی لیکن بائیں بازو یعنی ترقی پسند رجحانات رکھنے والی طلباء تنظیموں کو کسی خاص سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل نہیں تھی بلکہ وہ مزدوروں، کسانوں، ادیبوں اور صحافیوں کے حلقوں میں سرگرم تھیں۔ اس تمہید کا مقصد طلباء تنظیموں کی جدوجہد کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ معاشرے کے سرگرم طبقے کی حیثیت سے طلباء نے قیام پاکستان کے فوری بعد ایک اہم مقام حاصل کرلیا تھا، پاکستان کے سیاسی منظر نامہ ان کے بغیر مکمل نہیں تھا خصوصاً ایوب خاں کے دو رمیں طلباء کی طاقت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حکومت اُن کے آگے گھٹنے ٹیکنےپر مجبور ہوجایا کرتی تھی۔ مثلاً ایوب خاں کے دور میں جب یونی ورسٹی آرڈیننس کا اجرا ہوا جس کے تحت سرکاری جامعات (نجی جامعات کا تو وجود ہی نہ تھا) کے لئے کچھ ضابطے متعارف کرائے گئے جن کا مقصد طلباء سرگرمیوں کو محدود اور پابند کرنا تھا، اس کی اہم شق یہ تھی کہ حکومت کسی طالب علم کو جاری کردہ ڈگری واپس لے سکتی تھی یا منسوخ کرسکتی تھی۔ اس آرڈ یننس کے تحت ڈگری کورس کی میعاد دو سال سے بڑھا کر تین سال کردی گئی اس آرڈی ننس کے خلاف مغربی اور مشرقی پاکستان کے طلباء سڑکوں پر نکل آئے۔ شدید احتجاج کے بعد حکومت نے یہ متنازع شقیں منسوخ کردیں۔ اس طرح جب این ایس ایف نے بھارت میں جبل پور کے فسادات اور کانگو کے رہنما بیٹرس لو ممبا کے قتل کے خلاف جلسے اور جلوس منعقد کئے تو اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ مارشل لا کا دور تھا، این ایس ایف کے دس رہنماؤں ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور آٹھ رہنمائوں کو قید کی سزائیں سنا کر ملتان اور بہاول پور کی جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان رہنمائوں کی گرفتاریوں کے وقت ہی سے عوام میں شدید اشتعال پھیلا ہوا تھا جو سزا ملنے کے بعد عروج پر پہنچ گیا، جس کے پیش نظر حکومت نے چھ ماہ بعد سزائیں واپس لے کر رہنمائوں کو رہا تو کردیا لیکن ساتھ ہی ان کو کراچی بدر کرنے کے احکامات بھی جاری کردئیے۔ اس واقعے پر عوامی شاعر حبیب جالب کا یہ قطعہ بڑا مشہور ہوا۔ ؎
فضا میں جس نے بھی اپنا لہو اچھال دیا
ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا
یہی تو ہم سے رفیقان شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا
طلباء کی طاقت کو منتشر اور کم زور کرنے کی ساری ذمے داری معاشرے سے کہیں زیادہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے طلباء میں پھوٹ ڈالی، انہیں لسانی اور علاقائی درجوں میں تقسیم کیا۔ کہیں یہ تقسیم نظریات کی بنیاد پر عمل میں آئی تو کہیں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ لیکن طلباء کی ذہنی اور تخلیقی جڑوں کو کاٹنے کا سب سے بڑا اور گہر وار طلباء یونینز پر پابندی عائد کرکے کیا گیا۔ 1984ء میں مارشل ضابطوں کے تحت تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز پر پابندی لگی تو طلباء پر ذہن سازی، کردار سازی، اخلاقی تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے دوازے بند ہوگئے اور نوجوانوں میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کی کونپلیں پھوٹنے لگیں، آج یہی پودے تناآور درختوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ پابندی سے قبل ہر کالج اور یونی ورسٹی میں طلباء یونین کے انتخابات ہوتے تھے اور ایک طلباء کائونسل وجود میں آتی تھی۔ طلباء اپنے نمائندوں صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، فنانس سیکرٹری اور مجلس عاملہ کے اراکین کو منتخب کرتے تھے۔ انجمن اتحاد طلباء یا اسٹوڈنٹس یونین کا نام دیا جاتا تھا۔ یہ یونین اپنے تعلیمی ادارے میں ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ دینے کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتی تھی۔ ممتاز شخصیات کو ان پروگراموں میں مدعو کرکے ان کے خیالات اور تجربات سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
حسن قرات، نعت خوانی، معلومات عامہ، بیت بازی، مشاعرے اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ یہ صحت مندانہ اور مثبت سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتی تھیں اور ان ہی سرگرمیوں کے نتیجے میں ملک و قوم کو آئندہ کی قیادت بھی میسر آتی تھی۔ بات صرف سیاسی قیادت کی نہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں ہم آج جن شخصیات کو دیکھتے ہیں، سنتے اور پڑھتے ہیں، یہ وہی شخصیات ہیں جو اپنے دور طالب علمی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی آج ملک کا ایک ایسا بڑا نام ہے جس پر بجاطور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ طلباء یونینز صرف ہم نصابی سرگرمیوں ہی کو فروغ نہیں دیتی تھیں بلکہ ان کے ذریعے طلباء انتظام کاری بھی سیکھتے تھے، ایک دوسرے نظریات سے اثر لیتے تھے، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا قرینہ آتا تھا۔
گزشتہ پینتیس سال کے دوران انتہا پسندی اور لڑائی جھگڑوں نے جس طرح ہمارے معاشرے میں جگہ بنائی ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں بالخصوص طلباء پر صلاحیتوں کے اظہار اور دروازے بند کرکے انہیں بند گلی میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ آج کا نوجوان پرعزم ہے، پرجوش ہے، صلاحیتوں سے مالا مال ہے، لیکن اسے ابھرنے اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔ تعلیمی اداروں میں اگر اسٹوڈنٹس یونینز قائم ہوجائیں تو ان کی ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو اظہار کی ایک راہ میسر آجائے گی۔