• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عابدہ فرحین

جب تک ہم ایک ذمہ دار قوم کی مانند کسی دبائو کے بغیر اپنی ضروریات و ترجیحات کے عین مطابق فیصلے اور طرزعمل اختیار نہیں کریں گے، اس وقت تک ملک و قوم ترقی کے زینے نہیں چڑھ سکتی۔ اگرچہ دیہی علاقوں میں صورت حال آج بھی تشویش ناک ہے۔ لیکن بلاشبہ شہری علاقہ جات میں تعلیم و شعور کے باعث ماضی کے مقابلے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران حقوق نسواں کی فراہمی اور مسائل کے حل میں تیزی آئی ہے۔ اب تعلیم اور روزگار کے مواقعے یکساں میئسر ہیں، بلکہ کچھ زیادہ میئسر ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کا جائزہ لینا چاہیے کہ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے کسی اقدام سے معاشرہ ایک صنف کے استحصال سے نکال کر دوسرے صنف کے استحصال کی طرف دھکیل دیا جائے، ہمیں مستقبل کے حوالے سے ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے کہ نسل نو عدم توازن کا شکار ہوئے بغیر ترقی کا سفر باآسانی جاری و ساری رکھ سکے اور بحیثیت ذمہ دار شہری کے فعال کردار ادا کریں۔ آئیے چند حقائق پہ نظر ڈالتے ہیں جن سے ہمیں آنے والے کل کے امکانات کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔

٭… اعلی تعلیم کی اہمیت اور صورتحال

اعلیٰ تعلیم کی اہمیت سے ہر ایک واقف ہے۔ جہاں تعلیم معاشرے میں شعور بیدار کرتی ہے، وہیں اعلیٰ تعلیم ترقی کے در کھول کر معاشرے کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے کے مختلف طبقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جب کہ ریاستی سطح کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ طلبہ و طالبات کو یکسا ں موا قع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں بشمول کشمیر اور گلگت اعلیٰ تعلیم کے لئے 187 جامعات فعال ہیں، بلکہ خواتین کی 10 علیحدہ یونیورسٹیاں ہونے کے باعث طالبات کو زیادہ موا قع حا صل ہیں۔ یہ نظریہ اب کسی حد تک پرانا ہو چکا ہے کہ، ’’لڑکیو ں کو پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے‘‘۔ معاشرے کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ نوجوان لڑکیوں کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں کی۔ اعلیٰ تعلیم فرد کے علم و ہنر، وسیع النظری اور کام کرنے کی استعداد میں اضافہ کرتی ہے۔ طالبات پڑھ لکھ کر خواہ ماں باپ کا سہارا بنیں یا گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں ہر میدان میں تعلیم ان کی صفات اور صلاحیتوں میں چا ر چاند لگا دیتی ہے۔ موجودہ دور میں صرف گھر، تعلیم یا طب کے میدانوں میں ہی نہیں بلکہ مختلف شعبہ جات زندگی، مثلاً صحافت، قانون دان، ماہر نفسیات، حتی کہ فورسس، سکیورٹی، ریسرچ، سائنس، سوشل سائنس سمیت دیگر کئی شعبو میں نوجوان لڑکیوں کی ضرورت اتنی ہی شدد سے محسوس کی جاتی ہے جتنی لڑکوں کی۔ آج تقریباً ہر میدان میں جس طرح نوجوان لڑکیوں کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے، اس سے امید کی جا تی ہے کہ صنف نازک جلد نہ صرف اپنے مسائل پرقابو پالیں گی بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کریں گی۔

یہ تصویر کا حوصلہ افزاء پہلو ہے، اب اس کے دوسرے پہلو پر بھی روشنی ڈالی جائے، جو مستقبل کا خوفناک منظر ہیش کرتا ہے۔ موجودہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کا تناسب عدم توازن کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں میں محنت، احسا س ذمہ داری اور آگے بڑ ھنے کا جذبہ نسبتاً زیا دہ پایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب افسوس نا ک صورتحال یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں کا اعلیٰ تعلیم کے میدان میں گراف تیزی سے نیچے گر رہا ہے۔ جس کا بخوبی اندازہ امتحانی نتائج اور اعلی تعلیمی اداروں کی داخلہ فہرستوں سے لگایا جاسکتا ہے۔

٭… لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب

بیشتر جامعات میں لڑکیوں کی تعداد 70 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے، جب کہ جامعات برائے خواتین میں پڑھنے والی طالبا ت کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اعلی تعلیم میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے تناسب کا اندازہ درج ذیل شواہد سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

2013 اور2014 کے دوران جامعہ کراچی میں لڑکیوں کی تعداد 73 فیصد اور اس کے مقابلے میں لڑکوں کا تناسب 27 فیصد تھا، اسی طرح این ای دی یونیورسٹی میں 50,50 فیصد کا تناسب تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں زیادہ تر شعبوں میں نمایاں طور پر طالبات کی برتری دو تہائی سے زیادہ رہی، اسی طرح آغا خان میڈیکل کالج میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب 50,50 فیصد رہا، جب کہ سندھ میڈیکل یونیورسٹی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی میں طالبات کا تناسب 70 اور71 فیصد رہا۔

2017 کے اعداد و شمار کے مطابق، قاعداعظم یونیورسٹی میں، ایم ایس سی میں طالبات کی تعداد 1735 جب کہ طلبہ 1474 رہے ایم فل میں بھی طالبات کی تعداد زیادہ رہی۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق، لڑکیوں کا تناسب 80 فیصد جبکہ لڑکوں کا 20 فیصد ہے، جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق، میڈیکل کی تعلیم میں طالبات کا تناسب 70 فیصد ہے۔ جب کہ ہر سال طالبات کے تناسب میں اضافہ ہی ہورہاہے۔

٭… مستقبل کے امکانات

اگر نوجوان لڑکوں کا تعلیمی میدان میں یہ ہی تناسب رہا تو گویا مستقبل کا نقشہ کچھ یوں ہوگا کہ اچھے اور ذمہ دارانہ عہدوں پہ لڑکیاں فائز ہوں گی۔ مختلف شعبہ جات میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب عدم توازن کا شکار ہوجائے گا۔ کیوں کہ مردوں کے مقابلے میں قابل خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہوگی، حتی کہ مردوں کے علاج کے لئے بھی عمومی طور پہ زیادہ تر خواتین ڈاکٹرز ہی مئیسر ہوں گی۔ نیز گھریلو نظام چلانے کے لئے بھی زیادہ تر گھرانوں میں عورت کی معاشی استعداد مرد سے زیادہ ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مندرجہ بالا صورتحال کے سبب مستقبل میں معا شرے کا نقشہ الٹ پلٹ ہوتا نظر آتا ہے۔ واضح رہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ، لڑکیوں کو پڑھایا لکھایا نہ جائے، یا انہیں آگے بڑھنے سے روکا جائے، ان کی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیا جائے، ہرگز نہیں۔ بلکہ ہر قدم پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پیشہ ورانہ تربیت کے موا قعوں میں اضا فہ کیا جائے۔ بصورت دیگر تمام ملازمتوں بالخصوص اعلیٰ عہدوں پر ملازمت کے معیار کو ذیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہی پورا کریں گی، جس سے معا شی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد کے کاندھوں سے کم ہوتا ہوا عورتوں کے کاندھوں پر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔

بالعموم مشاہدے میں آیا ہے کہ، ہما رے معاشرے میں لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے گھر جانا ہے، نئے رشتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دینے کی استعداد پیدا کرنی چاہئے، جب کہ لڑکوں کی تربیت عملی زندگی بالخصوص عائلی زندگی کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ مردوں کی بیرون خانہ مصروفیات کے باعث معاشرتی ذمہ داریاں عموما عورت ہی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔نیز مستقبل میں صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ لڑکے تعلیم اور ہنر کے میدان میں پیچھے ہونے کے باعث معاشی میدان میں بھی پیچھے رہ جائیں اور لڑکیوں کے کاندھوں پر بچوں کی پروریش و تربیت کرنے، خاندان کے نظام کو چلانے، شوہر اور سسرال والوں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی پڑنا شروع ہوجائے گا۔ صنف نازک بظاہر ترقی کرتی نظر آرہی ہے دراصل وہ چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہی ہوگی، اس طرح وہ ایک اور استحصال کا شکار ہوجائے گی۔ باوجود اس کے کہ نوجوان لڑکیاں بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ قدرت کی بتائی گئی حدود میں رہتے ہوئے بہ شمول معاشی میدان کے کسی بھی میدان میں کام کرسکتی ہیں اور باوجود اس کے کہ عورت کتنا بھی کماکر لارہی ہو تب بھی مرد اپنی اس معاشی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔

ہما را دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم تک بھی کسی کیرئیر گائیڈنس اور کیرئیر کونسلنگ کا انتظام نہیں ہے جس کے باعث بلاتخصیض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے دائرئہ کار کو مدّنظر رکھے بغیر تقر یباً ہر ایک اندھا دھند صرف بھیڑ چال کا شکار ہیں، شعبے کے انتخاب کے وقت دور اندیشی سے نہ خود سوچتے ہیں اور نہ انہیں سجھایا جاتا ہے کہ کون سے شعبے کا انتخا ب ان کی فطری ذمہ داریو ں (mandatory role) سے میل کھا تا ہے اور کو ن سا نہیں۔ اکثر لڑکیاں ان مضامین کا انتخا ب کرلیتی ہیں، جن کے اوقا ت ایسے ہوتے ہیں، جو ان کی فطری اور لازمی ذمہ داری (mandatory role) سے مطابقت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً وہ اپنی تعلیم کا استعمال نہیں کر پاتیں اور اس پر صرف کیا جانے والا وقت اور سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے یا پھر دوہری محنت کے باوجود بھی دونوں جانب حق ادا نہیں کر پاتیں، نیز اس دوہرے بوجھ سے نہ صرف طبعی اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہوتی ہیں بلکہ ان کے بچے بھی مطلوبہ نگہداشت سے محروم رہتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں خواندگی کا تناسب آج بھی بہت کم ہے۔ واضح رہے کہ وہ خواندگی جس میں صرف دستخط کرنے والے بھی شامل ہیں، 58 فیصد ہے۔ جب کہ اس میں سے بھی خواتین کا تناسب صرف 40 فیصد ہے۔ اسی طرح پرائمری تعلیم میں انرولمنٹ 23 فیصد ہے، جس میں لڑکیوں کا تناسب لڑکوں سے کم ہے۔ اگر گائوں دیہاتوں کو علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو صورتحال مذید ناگفتہ بہ ہے بلکہ جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور بلوچستان میں تعلیم اور سماجی شعور کے نہ ہونے کے ساتھ معاشی پسماندگی بھی بہت زیادہ ہے۔

٭… عملی اقدامات، جن کی اشد ضرورت ہے

متذکرہ بالا صورتحال میں سرکاری اور نجی شعبوں میں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ فوری اور ہنگامی بنیاد پراور کچھ دور رس نتائج کے حامل اقدامات اٹھا نے کی ضروت ہے۔

۱۔ اگرچہ یہ خوش آئند امر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ویمن ڈیولپمنٹ کا شعور پچھلی دو دہائیوں میں بہت اچھی طرح اجاگر ہوا ہے حتی کہ ملک کی بڑی جامعات میں ویمن ڈویلپمنٹ کے باقائدہ شعبے بھی کھلے ہیں، مگرسا تھ میں مین ڈیو یلپمنٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اعلی تعلیمی اداروں میں مزید اضافہ بھی ضروری ہے تاکہ تمام اہل طلباء و طلبات کے لئے داخلوں کا حصول ممکن ہوسکے۔ اگرچہ خواتین جامعات میں بھی اضافے کی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ تناسب کے باوجود بھی اعلیٰ تعلیم کی خواہش مند بیشتر طالبات داخلے حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن خواتین جامعات کے متوازی طلبہ کے لئے بھی جامعات کی ضرورت ہیں تا کہ مقابلتا پیچھے رہ جانے کے باعث کوئی بھی طالب علم اعلی تعلیم سے محرو م نہ رہے اور ہراہل طالب علم کے لئے اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہوسکے۔ معا شرے کی گاڑی کسی عدم توازن کا شکا ر ہوئے بغیر آگے بڑ ھتی رہے۔ حکومت اور نجی سیکٹرمیں جو گروہ اس میدان میں کام کررہے ہیں ان کو ضرور اس طرف توجہ دینی چاہئے۔

۲-ہمارے ہاںتسلسل سے یہ شکائت کی جارہی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے تعلیم اور لکھنے پڑھنے میں بہت کم دل چسپی لیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ نتائج میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیںلہذا اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہمارے شعبہء تعلیم کے ذمہ داروں کو بھی اور تعلیم سے متعلق تحقیقی اداروں کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماراتعلیمی نظام لڑکوں کی توجہ مطلوبہ درجے میں اپنی جانب مبذول نہیں کرا پاتااوران کی بہت بڑی تعداد اس سے بیزار نظر آتی ہے۔

۳۔ اسکو لو ں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروںکی سطح تک مردوں اور عو رتو ں کے دا ئرئہ کا ر ، کا م کا بو جھ اٹھا نے کی فطری استعداد اور فطری صلاحیت و رجحا ن اور بحیثیت مرد یا عورت اپنے فطری کردار ( mendatory role)کے ادراک کے حوا لے سے کیر ئیر گا ئیڈنس کا انتظام ہونا لا زمی ہے تا کہ بجا ئے بھیڑ چال اور اندھی تقلید کے ہر فرد اپنے لئے سو چ سمجھ کر اپنے عملی میدان کا انتخاب اورمستقبل کی منصو بہ بندی کرسکے اصولاتواس کیر ئیر گا ئیڈنس کو ہمارے نظام تعلیم میں ہی شامل ہونا چاہئیے مگر جب تک ایسا نہیں ہے تب تک تعلیمی ،تربیتی اور تحقیقی کام کرنے والے افراد اور اداروں کو رضاکارانہ طور پر مختصر دورانئے کے نصاب یا ریفریشر کورسز تیار کرنے چاہئیںجس کے ذریعے طالب علموں کو نہ صرف ان کیے رجحان اوراستعداد کے مطابق بلکہ انکی سما جی ذمہ داریو ں کے متعلق بھی آگا ہی دی جا ئے ان کو اپنے فرا ئض اور دوسروںکے حقوق بتائے جا ئیں تا کہ خاندان اور معاشرے میں اپنے کر دار کا فھم ان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے وقت اپنے مضامین کے انتخاب میں مددد ے سکے اس لئے کہ معاشی استحکام ،اخلاقی اقدارا ور حقوق وفرائض کی ادائیگی سے ہی صحت مند گھرانے وجود میں آتے ہیں جومعاشرے کی صحت مندی کی بنیاد ہوتے ہیں۔

۴- تعلیم کے تھنک ٹینک کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بلعموم اعلی تعلیم کے تمام شعبوںمیں اوربالخصوص پیشہ ورانہ تعلیم میں اپنی قومی ترجیحات کا جائزہ لیے اورقومی ضرورت کے مطابق نشستوںکا تعین کرے نہ کہ جبری طور پہ کوٹہ سسٹم رائج کرکے کسی ایک طبقے میں احساس محرومی اور ردعمل پیداہو۔

۳۔ملا زمت پیشہ خوا تین کی سہو لت اور تحفظ کے حوا لے سے جو قوا نین مو جو د ہیںان پر عمل درآمد کو یقینی بنا یا جا ئے۔حکومتی اور نجی اداروں کی سطح پہ خوا تین کے لئے لچک دار اوقات کا ر کو ممکن بنا یا جا ئے تاکہ جو تعلیم یا فتہ خوا تین معا شی عمل میں اپنا حصہ ڈالنا چا ہتی ہیں وہ اپنے گھر بالخصو ص بچو ں کی نگہدا شت کے سا تھ اپنے کا م انجام دے سکیں۔

۴۔گھرسے کام (Work from home) کا تصور خصو صاََ خوا تین کے لئے بہت پر کشش ہے اور بہت سے تر قی یا فتہ ملکو ں میں یہ را ئج بھی ہے ہما رے ہاں معدودے چند ہی اداروںنے اس کو اپنایاہے لیکن اگر دیگر ادارے بھی اس کو ممکن بنا ئیں توخا ندا ن اور گھرا نے ٹوٹ پھو ٹ کا شکا ر ہو نے سے بچ سکیںگے۔

۵۔جو اعلی تعلیم یافتہ خواتین چھوٹے بچوں کی پرورش اور نگہداشت اور گھریلوذمہ داریوںکی ادائیگی میںمصروف ہیںان کے کام کو بھی ہمارے معاشرے میں ایک لائق تحسین کام کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے اور ان کو یہ اعتماد دینا چاہئے کہ نئی نسل کی آبیاری کا جو کام وہ کررہی ہیں وہ دنیا کے ہر کام سے بڑاکام ہے۔

۶۔اس تصور کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ اعلی تعلیمی ڈگری کا استعمال صرف کوئی اچھی ملازمت ،اعلی عہدہ یاکوئی بھرپور بزنس ہی ہو سکتا ہے۔اگر اعلی تعلیم یافتہ خاتون کی معاشی ضروریات بغیر ملازمت کئے پوری ہورہی ہیں توان کو اپنا وقت تعلیم اور صلاحیت معاشرے کی تعمیر و ترقی اور بھلائی کے کاموں میں راضاکارانہ صرف کرنا چاہئے education for money کے تصور سے بالا ہوکرکسی سوشل نیٹ ورک اور کسی تھنک ٹینک کا حصہ بننا چاہئے اس حوالے سے ہمارا معاشرہ بہت پیاسا ہے یہاں ایسے افراد کی بہت ضرورت ہے جو کسی بھی ذاتی مفاداور معاشی فائدے سے بالاترہوکر اس قوم کی بھلائی اور بہتری کے لئے کا م کریں۔

۷۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اہلیت اور ضرورت کی بنیادپہ وظا ئف میںاضافہ کیا جا ئے تاکہ جو افراداپنی معا شی ذمہ دا ری یامعاشی کمزو ری کے با عث میرٹ پہ ہوتے ہوئے ا علیٰ تعلیم نہ حا صل کر سکتے ہو ں ان کو بھی یہ موا قع مئیسر آسکیں۔

۸۔گائوں دیہات میںجہالت اور پسماندگی دورکرنے کے لئے فی الفور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم نے آج اپنے معاشرے کی اس بدلتی ڈگر اوراس عدم تناسب کے نتیجے میں پیداہونے والے عدم توازن کا ادرا ک نہ کیا اور اس کے سد باب کی کوشش نہ کی تونہ صرف مرد نقصان میں رہیں گے بلکہ سب سے زیادہ عورت استحصال کا شکارہوجائے گی ایسی صورت حال میںنہ صحت مند معاشرہ پیدا ہوسکتا ہے نہ کوئی قوم ترقی کے منازل طے کرسکتی ہے

اس ملک کا اور اس کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا ہم پربھی قرض ہے کہ ہم اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اگر ہم کسی ادارے یا کسی گروہ کے ذمہ دار ہیں تو اس حیثیت میں بھی مستقبل میں درپیش چیلنجز کا آج ہی ادراک کریں۔معاشرے کی ترجیحات اور اقدارکو الٹ پلٹ ہونے سے بچانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔                            

تازہ ترین