• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری باتیں سن کے آنکھوں میں نمی سی دیکھ لے
کافر و دیندار سے سن دہریات و دینیات
مجھے نہیں معلوم کہ فراق گورکھپوری بھی کسی دھرنے میں بیٹھے تھے مگر نہ جانے ان کا مندرجہ بالا شعر مجھے دھرنے سے متعلق لگا اور میں نے قارئین کی نذر کر دیا۔ اسلام آباد کی یخ بستہ فضا میں یکے بعد دیگرے گرما گرم اعلانات اور لمبی لمبی تقاریر نے ایک مرتبہ پھر اس ملک کے معصوم اور سادہ لوح انسانوں کے دل میں یہ امید پیدا کر دی کہ شاید ان کے دن پھرنے والے ہیں اور وہ اسلام آباد سے تبدیلی کے بعد خوشیاں سمیٹ کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں گے اور وہاں پر سی این جی، بجلی، پانی، سوئی گیس اور تمام آسائشیں ان کی منتظر ہوں گی۔ ٹھٹھرتی راتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے والی عورتیں اپنے قائد کے ان اعلانات سے بہت خوش تھیں کہ اب صدر، وزیراعظم اور اسمبلیاں سب کچھ سابق ہوگیا ہے اور خوشحالی کا نیا سورج دھرنے کے اختتام پر طلوع ہوگا جو ان کے تمام دکھوں کا مداوا ہوگا اور انہوں نے اس امید میں یخ بستہ راتیں سڑک پر کھلے آسمان کے نیچے جاگتے ہوئے آنکھوں میں کاٹ دیں۔ ہر تقریر کے بعد خوابوں کی تعبیر کے سہانے راگ الاپے جاتے تھے اور قوت گفتار اور فن تقریر سے عوام پر مقرر کا سحر مسلط کیا جاتا رہا۔
لوگ تھے کہ ان کا جوش و ولولہ تھمنے کو ہی نہیں آ رہا تھا۔ ترانے بجائے جا رہے تھے۔ ٹی وی کے تقریباً تمام بڑے چینل اپنا بیشتر قیمتی وقت قومی مفاد میں اس دھرنے کی نذر کر رہے تھے۔ سیاسی فضا گرم سے گرم ہوتی جا رہی تھی۔ میاں نواز شریف بھی جوش میں آ گئے اور عمرہ جاتی پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس طلب کر لیا۔ حالانکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کی اچانک اور بے وقت وفات کی وجہ سے کافی مغموم اور پریشان بھی تھے۔ فاتحہ کے لئے آنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا مگر انہوں نے ایسے حالات میں بھی وقت نکالا اور اپوزیشن کو متحد کیا۔ عمران خان پر دباؤ پارٹی کے اندر اور میڈیا سے آیا کہ وہ بھی اس لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں لیکن ان کی سیاسی بصیرت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور وہ شرمندگی سے بچ گئے۔
گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران تقریباً تمام اینکر حضرات اور تجزیہ نگاروں نے اس سیاسی صورتحال کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور اس کے اسباب اور محرکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور بہت لوگوں کے تجزیئے کافی حد تک درست بھی ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کا جوش و ولولہ اور قادری صاحب کی سحر انگیز تقاریر لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دینے اور ان کی آس بندھانے میں کافی کارگر ثابت ہوئیں اور بڑے بڑے تجربہ کار تجزیہ نگار بھی دھوکہ کھا گئے اور سمجھ بیٹھے کہ شاید کچھ ہونے والا ہے۔ بقول پروین شاکر
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
ہر تقریر کے بعد آنے والے اچھے دنوں کی نوید سنائی جاتی تھی اور ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کو پھر سے گرما دیا جاتا تھا۔ لوگ ابھی تک ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اس دھرنے اور لانگ مارچ کا مقصد کیا تھا اور اس سے حاصل کیا ہوا؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے اور لانگ مارچ اور دھرنے پر بھی کئی ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اس لئے اس کا جواب بھی دینا آسان کام نہیں۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے میں لکھ دیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اس سے اتفاق نہ کریں کیونکہ مسئلہ اتنا گمبھیر اور مہنگا ہے کہ ہر آدمی کے ذہن میں اس کی سوچ کے مطابق کوئی نہ کوئی جواب ضرور ہے۔ بہرحال میرا جواب پڑھ لیں۔
2014ء میں افغانستان سے نیٹو فوجوں نے واپس جانا ہے۔ امریکہ کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس وقت پاکستان میں ایسی حکومت ہو جو کہ سعودی عرب اور طالبان کی پسندیدہ ہو اور جس کے ذریعے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کرنے میں کوئی مالی یا اخلاقی معاونت مل سکتی ہو۔ اس خوف کے پیش نظر اور ضمنی انتخابات میں میاں نواز شریف کی پارٹی کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ پاکستان کے سیاسی ماحول جو کہ دو پارٹیوں کے گرد گھوم رہا ہے میں ہلچل پیدا کی جائے اور ایک تیسری قوت کو دو ارب روپے کے خرچ سے پاکستان بھیج کر سیاست کا رخ موڑ دیا جائے۔ حملہ انتہائی کامیاب تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور کے کامیاب جلسے اور لانگ مارچ کے اعلان کے بعد سیاسی فضا میں ایک بھونچال آگیا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ طوفان چائے کی پیالی کا طوفان ثابت ہوا۔ اس موقع پر عمران خان کی سیاسی ثابت قدمی اور میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت نے اس تمام منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ دونوں اشخاص اپنی پارٹیوں سمیت اس لانگ مارچ سے محفوظ رہ گئے۔ جو کچھ بھی اسلام آباد میں ہوا وہ اسکرپٹ کے عین مطابق ہوا۔ آدھے گھنٹے میں حکومتی وفد کے دس افراد اسلام آباد میں سردست دستیاب ہوگئے اور 10 آدمیوں نے باقاعدہ ٹائپ شدہ معاہدہ انگریزی زبان میں فوراً دستخط بھی کر دیئے۔ وہ تمام وزراء جو بقول قادری صاحب 4 دن پہلے سابق ہوگئے تھے ان کی اس قدر پذیرائی کی گئی کہ دیکھنے والی آنکھ بھی دنگ رہ گئی۔ نقلیں اتارنے والے وزیر شیر و شکر ہوگئے۔ شادیانے بجنے لگے۔ کامیابی کے نعرے لگنے لگے اور یہ تاثر زائل کر دیا گیا کہ لانگ مارچ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اس کا سارا مقصد عمران خان اور نواز شریف کی سیاست کو نقصان پہنچانا تھا جو کہ نہیں پہنچ سکا اور سارا خرچ کیا ہوا پیسہ ضائع ہوگیا۔ بہرحال قوم کی پکنک ہوگئی۔ مجھے بیمار ہونے والے بچوں کا دکھ ہے جو سردی کی وجہ سے نمونیہ کا شکار ہوئے۔ خدا انہیں جلد صحت یاب کرے اور ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں کو عقل سلیم عطا کرے کہ وہ اس غریب معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو مزید بیوقوف نہ بنائیں
تیری باتیں ہیں کہ نغمے تیرے نغمے ہیں کہ سحر
زیب دیتے ہیں فراق اوروں کو کب یہ کفریات
تازہ ترین