پروفیسر ہارون رشید
تعلیم کا مقصد محض ناصرف طلبہ کو علم و شعور عطا کرنا ہے بلکہ ان کے رجحانات، دل چسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق انہیں کسی خاص پیشے میں ماہر بنانا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں و دل چسپیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شعبے میں نام پیدا کرکے بہتر روزگار بھی حاصل کرسکیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ میڑک اور انٹرمیڈئٹ پاس یا پھر او اور اے لیول کرنے والے طلبا/ طالبات کی درست سمت میں رہنمائی بالکل نہیں کرتے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ’’اسٹوڈنٹس کونسلنگ‘‘ کا کوئی شعبہ سرے سے ہے ہی نہیں ، جو طلباء کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کی صحیح رہنمائی کرے۔ کونسلنگ کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ طلبا کے کیریئر کا اپنی طرف سے انتخاب کیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کیریئر کی راہ میں حائل رکاوٹ کے کنفیوژن کو دور کیا جائے. طالب علم کو اس کے چنے ہوئے راستے کا بتایا جائے کہ یہ راستہ کس منزل تک جاتا ہے۔ انہیں ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے مطابق آگاہ کیا جائے اور کم زوریوں سے باخبر رکھا جائے، نیز انہیں آگے پیش آنے والی پیچیدگیوں سے ہوشیار کیا جائے تاکہ طلبا کسی غلط ٹریک پر جانے سے بچ سکیں اور صحیح راستے پر گامزن رہیں لیکن افسوس کہ ہمارے بڑے انہیں فیکلٹی کے انتخاب، مضامین کے چناو میں کوئی مشورہ نہیں دیتے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ مشورہ دینے کے اہل نہیں، بلکہ یہ بات کسی نہ کسی حد تک درست ہے کہ والدین جو اپنے بچوں کو اسکول یا تعلیمی ادارے میں داخل کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کی قابلیت و صلاحیت کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان کی کم زوری و کوتاہیوں سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی اسکول جاکر بچے کے متعلق معلومات لینا گوارا کرتے ہیں اور نہ کبھی ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ تمہاری خواہش کیا ہے، تم کیا بننا چاہتے ہو، بلکہ بچے کو اس کے حال پر چھوڑ کر صرف یہ تنبیہہ کرتے ہیں کہ تمہیں تو ڈاکٹر یا ٹیچر بننا ہے۔ دوسری جانب اساتذہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ طلبا سے خوش گوار تعلقات نہیں بنا پاتے، کہ طلبا اُن سے اپنی دل چسپیوں کا ذکر کریں، انہیں اپنی کوئی خوبی بتائیں یا ان سے کوئی مشورہ لینے کی ہمت کریں بلکہ استاد خود انفرادی طور پر طلبا کی رہنمائی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے افراد وقت نکال کر اپنے فرائض پر توجہ دیتے ہوئے طلبا کی کونسلنگ کرنے کی زحمت کرتے ہیں جو ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کاغذوں کی کشتیاں دے کر اپنے پیاروں کو سمندروں کے سفر پر روانہ کردینا۔ دوسری جانب ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی ڈائرکٹریٹ میں ’’اسٹوڈنٹس کونسلنگ‘‘ کے شعبہ کے قیام یا ضرورت کا تصور تک نہیں ملتا، اس غفلت سے انتہائی بھیانک نتائج نکل رہے ہیں۔
انٹرمیڈئٹ سطح پر لڑکوں میں پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کو نظر انداز کرکے، کمپیوٹر سائنس گروپ اختیار کرنے کا رحجان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، جس میں فزکس اور میتھس کے ساتھ کمپیوٹر کو شامل کرلیا جاتاہے اور اس کے عوض کیمسٹری جیسا اہم مضمون ترک کردیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر ایک ٹیکنالوجی ہے بھرپور مضمون نہیں، جس میں آئے دن جدید اصطلاحات موضوعات اور تبدیلیاں آرہی ہیں کہ انہیں ایک طالب علم فی الفور آپ ڈیٹ نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب لڑکیوں کی بڑی تعداد پری میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے اہم اور محنت طلب شعباجات کا انتخاب کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے یونیورسٹی لیول پر صنفی عدم توازن دکھائی دیتا ہے۔
انٹرمیڈئٹ کی تکمیل کے بعد طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد بی بی اے کا انتخاب کرکے مختلف نجی اداروں کا رخ کر رہے ہیں، چوں کہ سرکاری جامعات میں داخلہ میرٹ پر ہوتا ہے، اس لیے طلباء کی ایک بڑی تعداد انٹری ٹیسٹ میں فیل ہونے کے بعد نجی جامعات میں باآسانی داخلہ لے لیتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے یہاں ہر ڈویژن کو داخلہ مل جاتا ہے، صرف بھاری بھر کم داخلہ فیس جمع کرانا شرط ہے اور یہ ادارے شرطیہ طور کامیاب ہونے کی ضمانت بھی دیتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے، تو ان کے اداروں کا رخ کون کرے گا اور ان کی کروڑوں کی سالانہ آمدنی کیوں کر ہو سکے گی۔ اس صورت حال کے ہولناک نتائج نکل رہے ہیں۔ سائنسی علوم سے بے بہرہ اور بے گانہ نوجوان محض کاغذی ڈگریاں لئے گھوم رہے ہیں۔ مارکیٹ میں ان کی کوئی کھپت نہیں، کمپیوٹر میں مہارت بہم پہنچانے کے لئے شہر میں سینکڑوں انسٹی ٹیوٹ ارزاں نرخوں پر تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک میٹرک فیل جوان ایک گریجویٹ کے مقابلے میں ڈیزائننگ، ڈرافٹنگ کے ذریعے نسبتاً زیادہ کما رہا ہے۔
پرائیویٹ یونیورسٹیز کی بڑی تعداد جینئوئن تعلیم دینے میں بری طرح ناکام ہیں۔ معدو دےچند اچھے ادارے ہیں، جو علم اور ملازمت دونوں کی گارنٹی دیتے ہیں، مگر انہیں انگلیوں پہ گنا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ بے روزگاری کی بڑھتی شرح ہے، جس کی وجہ سے تقریباً ساٹھ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے کہیں نیچے زندگی گزر بسر کر ہی ہے، نتیجتاً، ڈاکے، چوریوں، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائمز کے واقعات دو چند ہوگئے ہیں۔ ہماری قومی سطح پر تنزلی اخلاقی پستی کا بنیادی سبب تعلیم اور معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔ قومی سطح پر ہم نے مرکزی تعلیمی پالیسی کا خاتمہ بالخیر کردیا ہے۔ دستور میں اٹھارویں ترمیم کی دفعہ 25A کے ذریعے تعلیم کی ترویج و اشاعت صوبوں کے حوالے کر کے، ہم نے علم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ کم از کم صوبہ سندھ میں تعلیم لسانیت، اقربہ پروری کرپشن اور دھاندلی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ امتحانات بے وقعت و بے اعتبار ہو گئے ہیں، بورڈز کے چند اعلیٰ عہدیداروں نے ماضی میں اپنی علمی صلاحیت اور قابلیت کی آڑ میں وہ کارنامے انجام دئیے، جن کا کوئ جواب نہیں، رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی کے مصداق ’چہ دلاوراست دزدے کہ چراغ بہ کف می دارد‘ کی مثال بنے شہر میں آزادانہ گھومتے ہیں بہتر ہوگا کہ وفاقی حکومت تعلیم کے معاملے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اٹھارویں ترمیم کی 25A پر صوبوں سے مشاورت کرے اور تعلیم کا قبلہ ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔