حج دینِ اسلام کا پانچواں اور آخری رُکن ہے، جو ہر صاحبِ استطاعت عاقل، بالغ اور ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند مسلمان پر فرض ہے، خواہ وہ مَرد ہو یا عورت ۔ تاہم، جو افراد صاحبِ استطاعت نہیں، انہیں استثنا دیا گیا ہے۔ البتہ جو کسی بھی قسم کی تکلیف یا معذوری سے دو چار ہوں، اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ روانگیٔ حج سے قبل نہ صرف اپنے معالج سے رابطہ کریں،بلکہ اُس کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی کریں، تاکہ دورانِ حج تمام ارکان احسن طریقے سے بہ خُوبی ادا کیے جاسکیں۔ چوں کہ حج ایک مشقّت والی عبادت ہے، لہٰذا ذیابطیس، بُلند فشارِ خون اور قلب کے عوارض میں مبتلا افراد دورانِ حج اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ نیز، احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنےمرض سے متعلق تمام تر ضروری معلومات کسی کارڈ پر تحریر کرکے اپنے ساتھ لازماً رکھ لیں، تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت میں وقت ضایع کیے بغیر فوری ابتدائی طبّی امداد دی جاسکے۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کا شمار اُن ہائی رسک مریضوں میں کیا جاتا ہے، جنھیں دورانِ حج مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً22لاکھ مسلمان ہرسال فریضۂ حج ادا کرتے ہیں اور ان عازمینِ حج میں شامل ذیابطیس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں سالانہ دولاکھ20ہزار کا اضافہ ہورہا ہے۔خیال رہے کہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران جسمانی مشقّت، ضعیف العُمری، بہت زیادہ گرم یا سرد موسم اور دورانِ سفر کھانے پینے کے معاملات کے سبب مشکلات پیش آسکتی ہیں، پھر حج کی ادائیگی میں تقریباً64کلو میٹر سے زائد پیدل چلنا پڑتا ہے، تو ذیابطیس کے مریض ان عوامل کے باعث مختلف قسم کے مسائل کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ روانگی سے قبل اپنے معالج سے ایک تفصیلی نشست ضرور کرلی جائے۔
ذیابطیس کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دورانِ حج اسپتال میں20فی صد ایسے مریض داخل ہوتے ہیں، جو اپنے مرض سے لاعلم ہوتے ہیں،جب کہ74فی صدکو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔77فی صد مریضوں کا اپنے مرض پر کنٹرول خراب ہوتا ہے،جب کہ صرف55فی صد’’حج مخصوص ایجوکیشن برائے ذیابطیس‘‘ حاصل کرتے ہیں۔37فی صد مریض کبھی کبھار ’’سیلف بلڈ گلوکوز مانٹیرنگ‘‘ کررہے ہوتے ہیں، جب کہ22فی صد کو خون میں شکر کی مقدار زیادہ سے زیادہ جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہےکہ اسپتال میں داخل ہونے والے 60فی صد مریض عرفات کے بڑے اجتماع میں دوا کا استعمال بند کردیتے ہیں اور کئی سیلف میڈی کیشن کے ذریعے مرض کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔متعدّد مریض محض اس خیال سے ادویہ استعمال نہیں کرتے کہ وہ ایک مقدّس مقام پر موجود ہیں، لہٰذا انہیں کسی دوا کی ضرورت ہی نہیں۔ تو اس ضمن میں ماہرینِ ذیابطیس نے مریضوں کو ان کی کیفیات کے اعتبار سے چار گروپس میں منقسم کیا ہے۔ پہلے گروپ میں وہ تمام مریض شامل ہیں، جو طرزِزندگی میں تبدیلی کے ساتھ مخصوص ادویہ استعمال کررہے ہوں، جن کاہیمو گلوبن اے وَن سی(HbA1c) 7فی صد کے قریب ہو، یہ تمام مریض آسانی سےمناسکِ حج ادا کرسکتے ہیں۔ یعنی ان میں خطرہ کم سے کم پایا جاتاہے۔دوسرے گروپ میں وہ مریض شامل ہیں،جو طویل اثر(long-acting)یابیزل(Basal) انسولین یا پھرسیکنڈ جنریشن سلفونائیل یوریا (Second generation sulfonylurea)استعمال کر رہے ہوں اورجن کا ہیمو گلوبن اے وَن سی 8.5 فی صد سے کم ہو، انہیں ادائیگیٔ حج میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے گروپ میں ’’زیادہ خطرے‘‘ کے حامل وہ مریض شامل ہیں، جن کی ذیابطیس ٹائپ وَن کنٹرول سے باہر ہو،جو دِن میں چار بار انسولین لگاتے ہوں۔یعنی ہر کھانے سے پہلےصُبح، دوپہر ، شام اور سوتے وقت۔جنہیں حج سے3ماہ قبل شدید ہائپو(خون میں شکر کی مقدار کا کم ہونا) ہوا ہو، ہائی بلڈ پریشر اور دِل کی شریانوں کے ایسے مریض، جن کا مرض پرکنٹرول خراب ہو،جن کی شوگر مسلسل کنٹرول سے باہر ہو، ذیابطیس کے ساتھ حاملہ خواتین یا جو دورانِ حمل جی ڈی ایم (Gestational Diabetes Mellitus) کا شکار ہوئی ہوں، جن میںڈی کے اے(Diabetic Ketoacidosis)یا ایچ ایچ ایس(Hyperosmolar Hyperglycemic State) کی ہسٹری پائی جاتی ہو(واضح رہے کہ ذیابطیس ٹائپ وَن میں ڈی کے اے اور ٹائپ ٹو میں ایچ ایچ ایس کوما ہوتا ہے)،انہیں چاہیے کہ فی الحال حج مؤخر کردیں اور اگلے برس مرض پر کنٹرول بہتر کرکے یہ فریضہ ادا کرلیں۔چوتھے گروپ میں’’بہت ہی زیادہ خطرے‘‘کے حامل افراد شامل ہیں، جنہیں حال ہی میں بار بار ہائپو ہوا ہو، خون میں شکر کی مقدار کم ہونے کا پتا ہی نہ چلتا ہو، ہارٹ اٹیک ہوئے ابھی چھے ماہ کا بھی عرصہ نہ گزرا ہو، ذیابطیس کی پیچیدگیاں بہت ایڈوانس اسٹیج پر ہوں۔ انجائنا کے شکار، وہ ضعیف العُمر جن کی صحت اچھی نہ ہو، چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں، حج کے تمام ارکان ادا نہیں کرسکتے، لہٰذا معالج کی ہدایت پر سختی سے عمل کریں اور جب تک تیسرے یا دوسرے درجے میں شامل نہ ہوں، تب تک حج ادا نہ کریں۔ علاوہ ازیں، ایسے افراد جو جسمانی طور پرمعذور ہوں، جنہیں وہیل چیئر کی ضرورت ہو، ہارٹ فیلئیر کے مریض اور جن کے پیر وںمیں زخم ہوں، عمومی طور پر معالجین ان کی جسمانی صحت اور معذوری کے پیشِ نظر حج تجویز نہیں کرتے۔واضح رہے کہ یہ گروپس ماہرین کی آراء پر تشکیل دئیے گئے ہیں، جن پر مزید تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔اصل میں یہ گروپس مریضوں کی درجہ بندی کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں، تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کا شمار کس درجے میں ہوتا ہے اور ماہرین کی رائے کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی مریض خرابیٔ صحت کے ادائیگیٔ حج پر اصرار کررہا ہو، تو پھر اسے تمام احتیاطی تدابیر بتاکر، تمام تر خطرات سےبھی آگاہ کر دیا جاتا ہے۔
عام طور پر ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو حج کے دوران جو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں،ان میں ہائپو،خون میں شکر کی مقدار بڑھ جانا،جسم میں پانی کی کمی، پیروں میں زخم، انفیکشن، ڈائی بیٹک کوما(Diabetic Coma)، ہیٹ اسٹروک، قے، اسہال، تھکاوٹ، سینے کا انفیکشن اور زیادہ چلنے پھرنے کی وجہ سے دِل کے مسائل وغیرہ شامل ہیں۔ عمومی طور زائرینِ حج پیروں کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں، تو آسانی سےارکانِ حج ادا کرسکتے ہیں۔ مثلاً روانگی سے قبل ڈائی بیٹالوجسٹ سے پیروں کا معائنہ ضرور کروالیا جائے۔دورانِ حج روزانہ ایک آئینے کی مدد سے اپنے پاؤں، خاص طور پر تلوے ضرور چیک کریں۔ موزے نرم اور ایسے ہوں کہ جب جوتا پہنیں، تو چلنے میں آسانی ہو۔ اگر جوتے میں پیڈ رکھ لیں، تو زیادہ بہتر ہے۔ جوتا پہننے سے قبل جھاڑ لیں اور اس کے تلوے بھی لازماً چیک کریں۔ جوتا آرام دہ اور چمڑے کا استعمال کیا جائے، مگر نیا نہ ہو کہ اس سےپاؤں میں زخم ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر نیا جوتا خرید لے لیا ہے، تو اسے جانے سے قبل روزانہ دو گھنٹے ضرور استعمال کرلیں، پھر وقت بڑھا دیں۔ ایڑی والے جوتوں سے احتیاط ضروری ہے۔ دورانِ حج ننگے پائوں ہرگز نہ چلیں، اسی طرح وضو یا تھکاوٹ دُور کرنے لیے پیروں کو براہِ راست گرم پانی میں نہ ڈالا جائے، پہلے اپنی کہنی سے پانی چیک کرلیں۔ جب بھی پائوں دھوئیں، خشک کرکے کوئی اچھا سا لوشن یا کریم لگالیں، مگر انگلیوں کی درمیانی جگہ پر نہ لگائیںاور اگر لگ جائے تو ٹشو سے صاف کرلیں۔پاؤں میں سُوجن یا رنگت سُرخی مائل محسوس ہو، چوٹ لگنے یا زخم کی وجہ سے خون بہے، تو فوری طور پر قریبی ڈسپینسری سے رابطہ کیا جائے۔ سگریٹ نوشی نہ کریں، ویسے بھی دورانِ حج مکّہ میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ پیروں کی حفاظت کے لیے پاکستان میں بھی ذیابطیس کے مریضوں کے لیے مخصوص جوتے دستیاب ہیں، بہتر ہوگا کہ وہی لے کر جائیں۔ علاوہ ازیں، ایئرپورٹ پر جلد بازی کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں کہ اکثر ٹرالی کا اگلا حصّہ آگے والے فرد کے پیر سے ٹکرا کر زخم کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح سعی اور طواف کے دوران وہیل چیئر سے ذرا دُور ہی رہیں، برقی سیڑھیاں چڑھتے وقت پاؤں اطمینان سے سیڑھی کے اسٹیپ پر رکھیں، کنارے پرنہیں۔ بعض مریضوں میں برقی سیڑھی سے بھی پیروں میں زخم ہو جاتے ہیں۔اکثر اوقات خانۂ کعبہ میں نماز کے لیے جگہ نہیں ملتی، لہٰذا جائے نماز اپنے ساتھ رکھیں، تاکہ جس مقام پر ہیں، وہیں نماز ادا کرلی جائے۔ ننگے پاؤںسڑک پر ہرگزنماز نہ پڑھیں۔
اسی طرح دورانِ حج ذیابطیس کی ایک پیچیدگی خون میں شکر کی مقدار بڑھ جانا بھی عام ہے، جس کی بنیادی وجہ انسولین یا ادویہ ترک یا کم مقدار میں استعمال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اگر سینے یا پیر میں انفیکشن وغیرہ ہو، تو بھی خون میں شکر بڑھ جاتی ہے۔ اگر دورانِ حج شکر بڑھ جائے، تو انسولین لگالیں یا دوا استعمال کرلیں۔ نیز، پانی کا استعمال جاری رکھتے ہوئے جلد ہی کسی قریبی طبّی مرکز سے رابطہ کریں۔ ذیابطیس ٹائپ ٹو کے جو مریض صرف ادویہ استعمال کرتے ہیں، ایمرجینسی میں انہیں انسولین کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ یہ کیفیت وقتی ہوتی ہے، اس لیے گھبرانے کی بجائے انسولین لگوالی جائے۔ دورانِ حج ہنگامی صورتِ حال میں اسپتال لائے جانے والےکیسز میں سے تقریباً94فی صد خون میں شکر بڑھ جانے ہی کے ہوتے ہیں۔ہائپو بھی حج میں ہونے والی ممکنہ پیچیدگیوں میں سے ایک ہے۔ اصل میں دورانِ حج چلنے پھرنے کے معمولات عام دِنوں کے نسبت بڑھ جاتے، بعض اوقات انسولین یا ادویہ کی ہائی ڈوز کے سبب بھی ہائپو ہوسکتا ہے۔ دورانِ حج خون میں شکر کی مقدار کم یا زیادہ ہونے سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ’’حج مخصوص ایجوکیشن‘‘ سے ضرور مستفید ہوں، جس میں ہائپو، ہائپر، ڈی ہائیڈریشن، پیروں کی حفاظت، خون میں شکر کی مقدار جانچنے اور ایمرجینسی سے کیسے نمٹا جائے، جیسی باتوں سے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میں بھی ’’ذیابطیس حج اسٹڈی گروپ‘‘ کا قیام عمل میں آچُکا ہے، جو ان امور پر کام کر رہا ہے۔ ماہرینِ ذیابطیس کے مطابق ہائپو اور ہائپر سے بچائو کے لیے جو مریض انسولین یا سلفو نائیل یوریا استعمال کررہے ہوں، وہ دورانِ حج عام روٹین سے ہٹ کر زیادہ مرتبہ خون میں شکر کی جانچ کریں، جب کہ انسولین اور ادویہ کتنی مقدار میں استعمال کی جائے، اس کے لیے معالج سے مشورہ ضروری ہے۔ کھانا ہرگز نہ چھوڑا جائے اور پانی کا استعمال وقفے وقفے سے کریں۔ اگر ہائپو کی علامات ظاہر ہوں، تو انسولین کی ڈوز کم کردیں، جب کہ ہائپر کی علامات میں ڈوز بڑھا دی جائے۔ نیز، اپنے معمولات کے مطابق پانی پئیں۔
ذیابطیس کے مریضوں میں دِل کی شریانوں کی بیماری بھی عام ہے، لہٰذا روانگی سے قبل اپنے دِل کا معائنہ بھی ضرور کروالیں۔ اگر دورانِ حج سینے میں درد محسوس ہو، دِل کی دھڑکن بڑھ جائے یا سانس لینے میں دشواری پیش آئے، تو فوری طور پر قریبی ایمرجینسی سینٹر یا اسپتال چلے جائیں۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد میں دورانِ حج آنکھوں کے مختلف مسائل جیسے دھندلا نظر آنا، انفیکشن، خشکی، آنکھوں سے پانی آنا، جلن، خارش، سُرخی،آنکھیں چپکنا(وہ رطوبت جو آنکھ سے نکل کر گوشۂ چشم اور پلکوں پر جم جائے)ظاہر ہوں، تو کوئی دیسی ٹوٹکاہرگز نہ آزمائیں، بلکہ کسی طبّی سینٹر یا اسپتال سے رابطہ کریں۔ حج پر جانے سے قبل آنکھوں کا بھی معائنہ ضروری ہے۔ اگر کوئی انفیکشن یاRENOPATHY کا عارضہ لاحق ہو، آنکھیں پہلے ہی خشک رہتی ہوں، تو بہتر ہوگا کہ معالج سے دوا تجویز کروالی جائے۔اور پھراُسے اپنے ساتھ رکھیں۔ یاد رہے، آنکھوں، خصوصاً قرنیہ کا انفیکشن بینائی سے محرومی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ذیابطیس کے مریض ڈی ہائیڈریشن کا بھی شکار ہوسکتے ہیں، اس لیے پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ دورانِ حج جسم کو پانی کی کتنی ضرورت ہوتی ہے، یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کو پسینہ کتنا آتا ہے، آپ کتنا پیدل چل رہے ہیں اور کتنی دیر تک موسم گرم رہا اور دھوپ میں معمولات جاری رہے۔ ویسےمعالجین کے مطابق دورانِ حج روزانہ مَردوں کو تقریباً4لیٹر اور خواتین کو3لیٹر پانی پینا چاہیے۔ یعنی0.4سے0.8لیٹر پانی فی گھنٹہ استعمال کیا جائے۔ چائے یا کافی کا استعمال ہرگز نہ کریں اور کہیں بھی جانے سے قبل پانی ضرور پی لیں۔ ہائپو کی صُورت میں گلوکوز پر مشتمل کوئی مشروب بھی پی سکتے ہیں، لیکن صرف ہائپو ہی میں۔ علاوہ ازیں، حج کے دوران ایسے کھانے جو درست طور پر پکا کر اسٹور نہ کیے گئے ہوں، مختلف انفیکشنز کا باعث بن سکتے ہیں۔ پیٹ یا سر درد، مروڑ، دست، بخار اور قے کی تکالیف معدے میں انفیکشن کی علامات ہیں، جنہیں کسی صورت معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں کہ بعض اوقات ان ہی معمولی تکالیف کے باعث جسم میں پانی کی کمی اس قدر ہوجاتی ہے کہ جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں، لہٰذا صاف ستھرے کھانے کھائیں اور پھل ہمیشہ دھو کر استعمال کریں۔ ڈبّوں میں پیک کھانے نظامِ ہاضمہ کے انفیکشنز کا سبب کم بنتے ہیں، تاہم استعمال سے قبل ان پر درج تاریخ ضرور دیکھ لیں۔نیز، کھانا پکانے یا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوئیں، جب کہ کھانے کے بعد بھی ہاتھ اچھی طرح دھولیے جائیں۔ ایک وقت کا کھانا اگلے وقت کے لیے نہ رکھیں اور نہ ہی یہاں سے کھانا بنا کر ساتھ لے جائیں۔حج پر جانے سے قبل ڈائی بیٹالوجسٹ سے ایسی ادویہ تجویز کروالی جائیں، جن کے استعمال کے نتیجے میں ہائپو کا خطرہ کم سے کم ہو، تاکہ عبادت میں خلل نہ پڑسکے۔ یہی معاملہ انسولین استعمال کرنے والوں کے لیے بھی ہے۔ دورانِ حج عام انسولین کی نسبت اینالوگ انسولین(Analog Insulin)زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔ زائرین اسے باقاعدہ طریقے سے اسٹور کرکے سفر کے دوران ہینڈکیری بیگ میں رکھ لیں اورقیام کی جگہ پہنچ کر فریج میں رکھ دیں۔
روانگیٔ حج سے قبل اپنے معالج سےاس کے لیٹر ہیڈ پر ضروری ادویہ لکھوالیں اور اس کی ایک فوٹو کاپی ساتھ جانے والے قریبی فرد کے پاس بھی رکھوادیں، جب کہ ادویہ کا الگ سے بیگ بنا کر لگیج کی بجائے ہینڈکیری میں رکھیں۔ نیز، معالج کے مشورے سے تمام تر متعلقہ ویکسی نیشنز بھی ضرور کروالی جائیں۔ اپنے ساتھ چند ٹافیاں بھی ضرور رکھیں، تاکہ ہائپو کی صُورت میں بروقت استعمال کی جاسکیں۔ دورانِ حج اپنے ساتھ گلوکومیٹر ضرور رکھا جائے۔ علاوہ ازیں، احرام باندھنے سے قبل آلے کے ذریعے خون میں شکر کی مقدار ضرور جانچ لیں۔ اگر مقدار نارمل سے زائد ہو، تو چند یونٹ انسولین لگالیں۔ طواف سے قبل کچھ اضافی نشاستے دار اشیاء مثلاً سلائس وغیرہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ دورانِ طواف آہستہ آہستہ چلیں، تاکہ پائوں زخمی ہونے سے محفوظ رہیں،جب کہ ہاتھوں، پیروں اور جسم کو پانی سے گیلا رکھیں۔دوران ِحج جوس کا استعمال نہ کریں، لیکن ہائپو کی صُورت میں پینے میں کوئی حرج نہیں۔ اپنی ذاتی استعمال کی اشیاء دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کریں،تو بہتر ہے۔
(مضمون نگار، کنسلٹنٹ ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں اور ماڈرن کنسلٹنٹ کلینک، ڈیفینس، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)