عالمی سفارتی قوانین میں دسترس رکھنے والے احمد امجد علی قونصلیٹ آف پاکستان دبئی میں قونصل جنرل کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل جب انہوں نے چارج سنبھالا تو میںنے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو انہوں نے کہا میں نے ابھی چارج لیا ہے، ابھی انٹرویو نہیں دے سکتا، جب کوئی کارکردگی اورخدشات نظر آئیں گے تو پھر بات ہو گی۔ اب پانچ ماہ بعد میں ایک تقریب کے سلسلے میں قونصلیٹ گیاتووہاں مہمانوںکے لئے بہترین سہولتیں دیکھیں۔قونصل جنرل ایک بیورو کریٹ سے ہٹ کر عوامی نمائندے کے روپ میں سامنے آئے۔ اب میں نے احمد امجد علی سے وقت مانگا تو انہوں نے کہا کسی وقت بھی دفتر آ جائو۔ اب بات کرنے کے لیے میرے پاس بہت کچھ ہے۔ جب انٹرویو کا آغاز کیا تو انہوں نے بتایا میں نے1996میں فارن سروس جوائن کی۔فارن آفس میں پروٹوکول ، یورپ اور مڈل ایسٹ ڈیسک پر کام کیا۔ پہلی پوسٹنگ کویت میں ہوئی پھر سارک اورمڈل ایسٹ ڈیسک سے جرمنی،تھائی لینڈ اور بریڈ فورڈ میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ دوران سروس مختلف کورسز بھی کئے۔ عالمی قوانین میں ماسٹرز بھی کیا۔ میرا زیادہ قونصلیٹ سروس کا تجربہ ہے۔ پاکستانیوں کے مسائل حل کرنا ،انہیں سہولتیں مہیا کرنا، میری پہلی ترجیح ہے۔دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی وجہ سے وطن عزیز کو زرمبادلہ جا رہا ہے۔ اگر ہم ان لوگوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر ہمارا یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں لیبر کیمپوں میں خود گیا۔محنت کشوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھایا ۔ محنت کش بھی انسان ہیں اور جذبات رکھتے ہیں۔ دراصل یہ ہمارے ہیروز ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے ہم پاکستان میں سکون سے رہتے ہیں ،ہمیں ان کی قدر کرنا چاہئے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ قونصلیٹ میں تبدیلی اور سہولتوں کا مہیا کرنایہ فوراً کیسے ہو گیا۔ احمد امجد علی نے بتایا، جب میں نے چارج سنبھالا۔ چھٹی کا دن تھا ۔قونصلیٹ میں باہر کرسیاں دیکھیں ،پوچھا، یہ کس لئے باہر پڑی ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ قونصلیٹ میں کاموں کیلئے آنے والے گرمی ہو یا سردی ان کرسیوں پر بیٹھ کر گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ جہاں سائلین بیٹھیں، میں نے پہلے دن ہی تہیہ کر لیا کہ قونصلیٹ میں آنے والوںکے لیے اچھی اورآرام دہ جگہ کا بندوبست کرنا ہےاور موسم گرما سے پہلے کرنا ہے۔
پاکستانی سفارت خانہ ہو یا قونصلیٹ ہم وطن مان لے کر آتے ہیں کہ یہ ان کا اپنا گھر ہے۔ یہاں آئیں تو انہیں گھر جیسا آرام ملنا چاہئے۔ دبئی قونصلیٹ اور اس کے ملحقہ ریاستوں میں12لاکھ پاکستانیوں کی موجودگی اور ان کے مسائل کو حل کرنا یقیناً ایک مشکل ٹاسک ہے،لیکن میں نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔ میری ترجیحات میں ایجنٹ مافیاکا خاتمہ بھی شامل ہے جو سادہ لوح پاکستانیوں کو لوٹ رہے ہیں۔معمولی کاموں کے لیےبڑی رقم بٹورتے ہیں، مجھے ایجنٹوں کے خاتمہ میں مزاحمت کا سامنا ہے اور سفارش بھی آ رہی ہیں، میں ان سب کی پرواہ کئے بغیر ان کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہوں۔مزدوروں کی جمعہ کی چھٹی ہوتی ہے۔ یو اے ای کے مختلف شہروں میں چھٹی کے دن موبائل قونصلر سروس کر دی ہے۔ لوگوں کو اب اپنے کاموں کیلئے دبئی قونصلیٹ نہیں آنا پڑتا۔ ان کے شہر اور ریاست میں ہی کام ہو رہاہے۔ لوگ خوش ہیں کہ ہمارا بڑا مسئلہ حل کر دیاہے۔ میری بھی پاکستانیوں سے درخواست ہے۔ کہ ان ایجنٹوں سے کام نہ کروائیں ،خود آئیں۔ قونصلیٹ کو گھر سمجھیں، ایجنٹوں سے کام کروانے میں ایک تو زیادہ پیسے وصول کئے جاتے ہیں دوسرا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک بھی ہوتے ہیں۔ ڈیٹا بھی محفوظ نہیں ہے۔
قونصل جنرل نے مزید بتایا کہ دبئی راس الخیمہ ،فجیرہ کے اسکول مقامی قوانین پر پوری طرح عمل نہ کرنے کی وجہ سے بند ہوتے جا رہے تھے۔میں نے محکمہ تعلیم سے بات کی ، دوا سکولوں کے پرنسپل تبدیل کئے، اب ہم ان اسکولوں کو اس سطح پر لے آئے ہیں کہ بہتری آئی ہے۔ہمیں ٹیچرز کی ویلفیئر کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ6سالوں سے اساتذہ کی تنخواہ نہیں بڑھیں۔ ان کی رہائش کی حالت بھی خراب ہے۔مجھے کمیونٹی کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم نے فجیرہ اور راس الخیمہ میں میرٹ پر بھرتی کی۔ آڈٹ اور خامیوں کو بہتر بنایا۔ اسکول مالی طور پرکمزور ہیں۔ والدین کی کمیٹی بنا دی گئی ہے کہ اچھی تعلیم کیلئے مناسب فیس بھی دیں۔ اچھے ٹیچرز لیں، انہیں بہتر تنخواہ دیں۔ تو معیار بہت اچھا ہو گا۔ ہر دفعہ لوگوں سے عطیات مانگنا مناسب نہیں ہے اگر اچھی تعلیم دلوانا ہے تو فیس کو بڑھانا ہو گا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں زیادہ مسائل یہ ہیں کہ محنت کشوں کو ان کےا سپانسروقت پر تنخواہ اور میڈیکل انشورنس نہیں دیتے۔ رہائش گاہوں کاحال بھی برا ہے ۔مقررہ وقت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ اب لیبر کیمپوں میں جا کر ان کے مسائل سن رہا ہوں اور حل کرنے کی پوری کوشش ہو رہی ہے۔
رمضان المبارک سے لے کر اب تک پچھلے دو ماہ میں250کو فری ٹکٹ ،8سے10میتوں کو پاکستان ترسیل، 12مریضوں کا علاج قونصلیٹ نے ویلفیئر فنڈ سے کروایا ہے۔ ایک مریض پر اوسطاً 2ہزار درہم خرچ آیا ہے۔ لوگ یہاں آ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مقامی جرمانے کو بھی ویلفیئر فنڈ سے ادا کیا جائے جو ممکن نہیں ہے بلکہ کچھ تو ماہانہ وظیفہ اور بجلی کے بل ادا کرنے کا بھی کہتے ہیں،جس کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ ہم نے دبئی اور ابوظہبی میں امسال 550قیدیوں کو معافی دلوا کر پاکستان بھیجا ہے۔کمیونٹی کا بھی تعاون رہا کہ انہوں نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ فراہم کئے جتنی مدد ہم نے پچھلے پانچ ماہ میں کی کسی بھی قونصلیٹ یا ایمبیسی نے نہیں کی ہے۔
قیدیوں کے تبادلہ کے بارے میں قونصل جنرل نے بتایا کہ اگر قیدی سنگین جرم میں ملوث نہ ہو تو 50فیصد سزا یہاں اور باقی سزا پاکستان جا کر پورا کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مقامی حکام سے ملتے رہتے ہیں۔ ہمارے پی آر او جیلوں کا دورہ کرتے ہیں۔
عربی ترجمان کی سہولت بھی دی ہوئی ہے۔ آج کل پبلک ڈپلومیسی کا دور ہے۔ہمارا فوکس مقامی اور سفارت کار ہیں کہ پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کریں ،ٹورازم بھی ہمارا فوکس ہے، سیاحت کے حوالے سے کانفرنس اور سمینار کر رہے ہیں، پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے۔ سوئزر لینڈ یورپ سے کم نہیں ہے۔ ہم نے برآمدات بڑھانے کیلئے مختلف نمائشوں میں پاکستان کی نمائندگی کو بہتر اور زیادہ کیا ہے۔ آم فیسٹول کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ،فوڈ گلف نمائش میں زیادہ پاکستانی کمپنیوں نے شرکت کی اور بڑے بڑے آرڈر ملے۔ ہماری تجارت بھی پچھلے سالوں سے بڑھی ہے ۔ہماری کوشش ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ ساتھ ملایا جائے، آٹو موبائیل میں بھی ہمیں کامیابی ملی ہے۔ یو اے ای میں رہنے والے پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ ہم سب یہاں رہ کر پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مل جل کر کام کریں اختلافات کم کریں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کریں۔