• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسلام 

ماضی قریب کی بات ہے جب بک لوورز بہت ہوتے تھے، اب بک تو غائب ہوتی جا رہی ہے البتہ صرف لوورز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ پہلے ہر تعلیم یافتہ شخص کے سرہانے کتاب ضرور ہوتی تھی۔ بوڑھا ہو تو کتاب کے ساتھ تسبیح اور عالم شباب میں ہو تو کتاب کے ساتھ گلاب، موتیا، چنبیلی کے پھول بھی ہوتے تھے۔ کتابوں اور پھولوں کا بڑا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ پھول برسوں کتابوں میں محفوظ رہتے تھے۔ کتابوں میں سوکھے ہوئے پھولوں کا ملنا بہت سی یادوں کو تازہ کر دیتا تھا۔ ہماری اس بات کی تصدیق احمد فراز نے بھی کی ہے؎

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

اگر آپ کالجوں یا جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری میں کتب سے استفادہ کرتے رہے ہیں تو یقیناً آپ کے علم میں ہوگا کہ طلباء و طالبات ان کتابوں کو پیغام رسانی کا ذریعہ باآسانی بنا لیتے تھے۔ پیغام کیا ہوتا تھا، غالباً مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بعض طالب علم پیغام تسلی بخش انداز میں پہنچ جانے کے بعد، کتاب کا صفحہ پھاڑ دیتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم وہ ایسا کیا لکھتے تھے۔ اگر آپ کو معلوم و تو مجھے ضرور بتایئے گا۔

چوں کہ اس دور میں لوگ مطالعے کے شوقین تھے، اس لئے اچھی کتب جلد مقبول ہو جاتی تھیں۔ آپ اسے کسی سے چھپا کر رکھنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ہوتا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں، عشق، مشک اور اچھی کتاب، چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ جہاں نظر بچی، کوئی نہ کوئی اٹھا کر لے گیا۔ غالباً بندے اور کتاب اٹھانا معاشرتی روایت بنی ہوئی تھی۔

جب کتاب کا پرائم ٹائم تھا، اس وقت کسی کو کتاب دینا آسان کام نہیں تھا۔ اسی طرح جو صاحب کتاب لیتے تھے، ان کا اسے واپس کرنا بھی محال ہوتا ہے، جس پر کسی سیانے نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا مہا بے وقوف ہوتا ہے۔ لیکن صاحب، اب یہ دور آگیا ہے کہ کتاب لینے والا کوئی نہیں، البتہ زکوٰۃ لینے والے اب بھی بہت ہیں۔ اس دور میں لوگ شاید اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ عبادت اور کتب بینی جوانی میں کی جائے تو زیادہ قابل تحسین ہے۔ اگرچہ آج بڑے بڑے کتب میلے لگ رہے ہیں مگر اب نوجوان اس جانب زیادہ راغب نہیں ہو رہے۔ لیکن ہم کتاب کی داستان سناتے رہیں گے۔راجیش کمار اوج نے کہا ہے؎

بھلاتا ہوں تجھ کو مگر یہ فضا

سناتی ہے اکثر تری داستان

ماضی میں ایسی کتابیں بھی ہوتی تھیں، جنہیں بڑوں سے چھپا کر رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ شکایت عام ہے کہ کتب بینی کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھئے کتابیں نہ پڑھنے کی متعدد وجوہ ہیں لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ آج کا نوجوان کتابیں کم اور کتابی چہرہ زیادہ پڑھ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کتاب کلچر کو فروغ حاصل ہوتا لیکن وطن عزیز میں ایگری کلچر کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اب اگر معاشرے پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ کتاب اور حساب کتاب دونوں سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے، جساب کتاب تو ہر ایک کا ہونا ہی ہے، اس سے فرار ممکن نہیں۔

فی زمانہ کتاب کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں جو مذہبی جماعتیں کتاب کے نشان پر بار بار الیکشن میں حصہ لیتی ہیں اور ناکام رہتی ہیں غالباً ان کی ناکامی کی وجہ کتاب ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اب لوگ کتاب پر ٹھپے نہیں لگتے بلکہ ان فائلوں پر ٹھپے لگاتے ہیں جن میں پیسے ہوتے ہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کو اپنا انتخابی نشان کتاب کی بجائے کچھ اور رکھنا چاہئے۔ ممکن ہے اس طرح ان کی کامیابی کی راہ ہموار ہو جائے۔

کتب فروشی کا عالم یہ ہے کہ اگر مصنف پانچ سو کتابیں شائع کراتا ہے تو وہ اس کے گلے پڑ جاتی ہیں، مصنف کو ٹھینگا بھی نہیں ملتا اور دوسری جانب دوست، احباب، پڑوسی، رشتہ دار حتیٰ کہ شناسا دکاندار بھی مصنف سے کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض ان پڑھ بھی مسرت بھرے لہجے میں کتاب کی اشاعت پر مصنف کو مبارک باد دیتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ ’’بھئی آپ نے ہمیں کتاب نہیں دی‘‘۔ میرا خیال ہے کتاب خریدنے اور کتاب مانگنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مصنف کبھی کسی کو بری نظر سے نہیں دیکھتا، سوائے اس شخص کے، جو کتاب مفت طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ مفت خوروں کو ایسی بری نظر سے محفوظ رکھے۔ کتاب سے کسی کا تعلق رہے یا نہیں رہے لیکن کتاب اور ردی والے کا تعلق اٹوٹ ہے جو کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ دراصل ردی کی دکان ہی اب کتابوں کا قبرستان بن گئی ہے۔

کتاب پر اتنا کچھ لکھنے کے بعد مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں کتابی باتیں کر رہا ہوں۔ بلاشبہ کتابیں اب بھی چھپ رہی ہیں اور پڑھنے والے نہیں پڑھ بھی رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتب بینی کا رجحان کم ہوگیا ہے۔ دیکھئے عصر حاضر کی سب سے مقبول بک ایک ہی ہے اور وہ ہے، فیس بک۔ جی ہاں فیس بک کے آگے کسی بک کی نہیں چلتی۔ کتاب محض ایک دوست ہے مگر فیس بک دوستوں کا جمعہ بازار لگا دیتی ہے۔ لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ اسمارٹ فون کے ہوتے ہوئے کتاب کا کیا کام؟ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس پر وہ کیا کر رہے ہیں؟ یہی نا کہ ’’کیا کر رہی ہو، کیا پکایا ہے، ہیلو، ہائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ غالب، میر، منٹو، ساحر، فیض اور اقبال جیسی شخصیات کی کتب بھی انہیں نیٹ پر مل جاتی ہیں، لیکن یہ بتایئے آپ نے انیہں لوڈ کردیا ہے؟ مگر کیا واٹس اپ، فیس بک اور مسنجر سے مستقبل میں کوئی غالب، میر اور منٹو وغیرہ پیدا ہوسکتا ہے؟

دیکھئے، کتاب، کتاب ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کتابیں بولتی ہیں، چیختی ہیں، ہنساتی ہیں، رلاتی ہیں، نیند لاتی ہیں اورنیند اڑا بھی دیتی ہیں۔ یاد رہے جہاں سے انٹرنیٹ آیا ہے، وہاں آج بھی کتاب کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ اب آخری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے سنا ہوگا کہ محبت مر نہیں سکتی۔ یقین کیجئے، جس طرح محبت نہیں مرسکتی، اسی طرح کتاب بھی نہیں مرسکتی۔

تازہ ترین