محمد اسلم
میگا سٹی کراچی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ چھوٹے بڑے بازار ہیں، جن میں زندگی کی ضرورتوں سے متعلق تمام اشیاء باآسانی دستیاب ہیں، ان کے علاوہ شہر کے صاحب ثروت علاقوں میں کئی ایکڑ پر پھیلے ڈپارٹمنٹل اسٹورز، ہر سڑک، گلی، فٹ پاتھ اور سڑک کے اطراف آئی لینڈ پر موجود، پتھاروں اور ٹھیلوں پرزندگی کی ضرورت کی ہر شے دستیاب ہوتی ہے لیکن ایک بازار ایسا بھی ہے، جہاں استعمال شدہ پرانی اور نادر اشیا ءانتہائی سستے نرخوں پر ملتی ہیں ، وہ ہے یوپی سوسائٹی کا کباڑ بازار۔
نارتھ کراچی کے علاقے یوپی موڑ کے نزدیک ایک وسیع و عریض میدان میں ایسا ہی ایک بازار ہر اتوار کو لگتاہے، جہاں گھریلوں استعمال کی اشیاء سے لے کر بڑی بڑی مشینوں کے پرزے وغیرہ بھی باآسانی مل جاتے ہیں۔ اتوار کو چھٹی والے دن شہریوں کی بڑی تعداد اپنی مطلوبہ اشیا ءخریدنے اس بازار کا رخ کرتی ہے۔ یوپی موڑ کے قریب اس کباڑی بازار میں استعمال شدہ فرنیچر، کراکری، کھلونے، گاڑیوں کے پارٹس، الیکٹرانک اشیاء، مشینری، لوہے کا سامان، سینیٹری، سائیکلیں، قالین سمیت ہر طرح کی استعمال شدہ چیزیں مل جاتی ہیں۔
اس بازار کو کراچی کے سب سے بڑے کباڑ بازار کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے یہ اعزاز شیرشاہ کی کباڑی مارکیٹ کے پاس تھا، جس میں موٹر سائیکل، اسکوٹرکے پرزوں اور انجن سے لے کر ٹریکٹر اور ٹرالر کے انجن ، باڈی اور پرزے تک دستیاب ہوتے ہیں اور یہ زیادہ تر سامان چوری شدہ گاڑیوں کو کھول کر نکالا جاتا ہے ،جن کے چیسز، انجن، باڈی، ٹائر، ٹیوب اور پرزے الگ کرکے یہاں فروخت ہوتے ہیں، لیکن یہاں فائرنگ کے واقعات میں کئی ہلاکتوں کے بعد لوگوں کا اس بازار میں آنا کم ہوگیا ہے۔ رنچھوڑ لائن کی کباڑ مارکیٹ بھی اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی کباڑ بازار کراچی کے متعدد علاقوں میں موجود ہیں، لیکن نارتھ کراچی کی یوپی سوسائٹی کے ایک بڑے میدان اور یوپی کے پارک کے سامنے پتھاروں پر اسٹالوں کی صورت میں ہر اتوار کویہ بازار لگتا ہے جہاں ہفتہ وار تعطیل کا فائدہ اٹھا کر شہر بھر سے لوگ یہاں اپنی پسندیدہ اشیا ، پرزوں اور آلات کی تلاش میں آتے ہیں ۔ ہفتے کے چار دن اس میدان میں مختلف ہفتہ وار بازار بھی لگتے ہیں، جن میں ، بدھ بازار، کافی مشہور ہے۔ پرانے سامان کا مذکورہ بازار تقریباً 25سال سے اس علاقے میں لگ رہاہے ۔ اس سے پہلے یہ یوپی سوسائٹی سے نیو کراچی ، بسم اللہ موڑ کی جانب جانے والی سڑک پر لگا کر کرتا تھا اور سڑک کے دونوں ٹریک ،ٹھیلوں اورپتھاروں اور کباڑ کے سازو سامان کی وجہ سے ٹریفک کے لیے ناقابل گزر ہوگئے تھے جس کی وجہ سے مسافروں کو ذہنی اذیت کا سامانا کرنا پڑتا تھا۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے اسے یوپی پارک کے سامنے وسیع و عریض میدان میں منتقل کردیا۔
یہ بازار تقریباً ڈیڑھ مربع کلومیٹررقبے پر محیط ہے اور اس کا ایک سرا یوپی سوسائٹی کے اسٹاپ سے شروع ہوتا ہے اور ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن کے چوراہے تک جاتا ہے جب کہ دوسرا سرا سندھ گورنمنٹ اسپتال کی دیوار سے شروع ہوکر، پوسٹ آفس ، سرد خانےاور ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کی عمارت کے ساتھ ساتھ نارتھ کراچی کی مرکزی شاہراہ کے سروس روڈتک پھیلا ہوا ہے۔ صبح گیارہ بجے سے سوزوکی اور مختلف گاڑیوں میں کباڑ کا سامان آنا شرو ع ہوتا ہے اوراس کے مالکان ’’الاٹ شدہ‘‘ جگہوں پر اپنے اسٹال لگانا شروع کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سامان گھروں کا کاٹھ کباڑ ہوتا ہے جب کہ کچھ چیزیں مختلف، کمپنیوں اور فیکٹریوں کی مسترد کردہ ہوتی ہیں۔پرانا سامان خریدنے والے ٹھیلوں پر ، گلیوں گلیوں گھوم، پھر کر لوہے کے نرخوں پر یہ سامان خریدتے ہیں جب کہ پرانا فرنیچر خریدنے والے بھی گلیوں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہ سارا سامان اکٹھا کرکے کباڑیوں کی بڑی دکانوں پر فروخت کردیتے ہیں جوہر شے کو الگ الگ کرکے اور ان کی مرمت اور رنگ روغن کرا کے،اس بازار میں فروخت کے لیے لاتے ہیں۔ اس بازار میں تقریباً دو ہزار اسٹال لگتے ہیں جب کہ، ان کے ساتھ کھانے پینے کےٹھیلے، خوانچہ فروش، اور چھابڑی والے بھی اپنے پتھارے لگا لیتے ہیں۔ اس بازار میں دوپہر بارہ بجے سے لوگ آنا شروع ہوتے ہیں اور شام تک یہ صورت حال رہتی ہے ۔ رش اتنا ہوتا ہے کہ با مشکل چلنے جگہ ملتی ہے۔ تمام اسٹالوں پر مرد، خواتین، بچوں اور بوڑھوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اپنی مطلوبہ چیزوں کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور زیادہ تر کامیاب ہوکرجاتے ہیں۔ اگرچہ ٹی وی چینلز کیبل نیٹ ورک پر منتقل ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود بازار کے شروع میں سڑک کے ساتھ ٹھیلے پر موجود چار اسٹالوں پر جہازی سائز کے پرانے ڈش انٹینا فروخت ہوتے ہیں لیکن یہ ڈی کوڈر کے بغیر ہوتے ، اس کے ساتھ پرانے ٹی وی سیٹس کی دکانیں ہیں، جن پربارہ سو سے دو ہزار میں ٹیلی ویژن سیٹ مل جاتے ہیں۔ ان کے بالمقابل ماضی کی کئی مشہور کمپنیوں کی برانڈڈ استعمال شدہ سلائی مشینیں دستیاب ہیں، جو اسٹال کا مالک ڈھائی ہزار سے ساڑھے تین ہزار روپےتک میں فروخت کرتا ہے ، اسی کے ساتھ زمین پر چادر بچھائے ایک شخص پرانی کیسٹس فروخت کرتا ہے۔ کیسٹ ریکارڈر رکھنے والے زمین پر بیٹھ کر اپنی مطلوبہ کیسٹیں تلاش کرتے ہیں۔ اس سے متصل دو اسٹالوں پر پرانے ریموٹ، موبائل فونز، استری، لوگوں کے مسترد کردہ چارجر، ہینڈ فری، اسپیکرز بکھرے ہوئے ہیں۔
انجن والی چھوٹی موٹر سائیکلیں، بیٹری سےچلنے والی کھلونا کاریں اور معذور افراد کے استعمال کے لیے پٹرول سے چلنےوالی گاڑیاں بھی ایک’’عارضی شو روم ‘‘ پر زمین پر رکھی ملیں گی، جن کی قیمت سات ہزار سے دس ہزار تک ہیں، جب کہ یہی گاڑیاں بندرروڈ اور لائٹ ہاؤس پر دس سے پندرہ ہزار میں نسبتاً بہتر حالت میں مل جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ کی دکان پر انجینئرنگ اور مرمت کے کاموں میں استعمال ہونے والے مختلف النوع کے اوزار، جن میں پانے، رنچ پانا، اسکرو پانے، پیچ کش، چھوٹے بڑے اسکرو ڈرائیور، چھینی، ہتھوڑے، بسولے، پلاس، گرپ پلائیر، لوہا اور لکڑی کاٹنے والی آریاں،لوہے کا ریگ مال سمیت دیگر آلات پچاس روپے سے تین سو روپے تک میں دستیاب ہیں ۔ گیس کے چھوٹے سیلنڈر بھی یہاں ملتے ہیں ،جن کی الگ الگ قیمتیں ہیں۔ ان کے ساتھ پرانے ٹائرز اور رم کی دکانیں ہیں جب کہ بعض دکانوں پرموٹر سائیکل کے رم، ڈرم، تیلیاں،بریک شو لگے ہوئےپرانے ٹائر بھی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں۔ پرانی کتابوں کا بھی ایک ٹھیلاہے، جہاں کتابوں کے رسیا اپنے پسندیدہ موضوعات کی کتابیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ٹھیلے پر پرانے پنکھے، کمپیوٹر کےپرنٹر، کار کی بیٹری ،فروخت ہورہی تھی، زمین پر بنے ایک اسٹال پرپرانے کھلونے، پنکھے کا جال، لوہے کے پائپ، بجلی کی استری، چھوٹا لیپ ٹاپ، چھوٹا فریج، ویکیوم کلینر، جوسر مشین کا نچلاحصہ رکھے ایک شخص بیٹھا تھا۔ اس کے نزدیک میوزیکل کی بورڈ، دیوار گیر گھڑیاں، لوہے کی جالیاں، بجلی کی استری لیے ہوئے ایک دکاندار اپنے گاہکوں کا منتظر تھا۔ یہاں پر پرانے لیکن اچھی حالت میں گدے روئی اورپولیسٹر کی رضائیاں بھی ملتی ہیں جو نئی رضائیاں اور قالین خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے غریب لوگ اپنے اہل خانہ کو سردی کی شدت سے محوظ کرنے کے لیے خریدکر لے جاتے ہیں۔ ایک دکان پر پرانے قالین، بیڈ شیٹس بک رہے تھے۔ اسپتال کی دیوار کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کے ساتھ لوہے کے دروازے، گیٹ اور جالیاں فروخت ہورہی تھیں۔ اس کےبرابر میں اسپورٹس، اولمپک، گئیروالی اور سادہ سائیکلیں فروخت ہورہی تھیں، جن کی دکانوں پر بچے اور بڑوں کا خاصا رش تھا۔ یہ سائیکلیں یہاں دوسے آٹھ ہزار تک میں دستیاب ہیں جو نئی سے آدھی قیمت ہے لیکن یہ کافی اچھی حالت میں تھیں جب کہ ان کے ایک اسٹال کے ساتھ سائیکلوں کا مکینک ان کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام بھی کررہا تھا۔ یہاں چمڑے کےسفری سوٹ کیس بھی دستیاب ہیں۔
اس بازار میں ضرورت مند لوگوں کے علاوہ کاروباری ذہن رکھنے والے افراد بھی خریداری کرتے ہیں جو سستے داموں چیزیں خرید کر سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں مہنگے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ پرانے فرنیچر کی مذکورہ مارکیٹ یوپی اسپتال کے ساتھ یوپی موڑ کے روڈ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ پر زمین پر قائم اسٹالوں پر قالین صاف کرنے والے ویکیوم کلینر، واشنگ مشینیں، روم کولر، پرانے موبائل فون، مینوئل اور ڈیجیٹل کیمرے فروخت ہورہے تھے جو انتہائی کم قیمت تھے۔ ایک دکان پر گاڑیوں اور جنریٹر کے سائلنسر، ویڈیو کیمرہ، ویڈیو ریکارڈر، گیس کے چولہے، بڑے اور چھوٹے اوون، برائے فروخت تھے ۔یہاں کئی دکانیں پرانے ملبوسات اور جوتوں کی ہیں۔ ان کے ساتھ وسیع و عریض میدان شروع ہوتا ہے جس کا رقبہ یوپی موڑ سے 4-Kچورنگی کی جانب جانے والی شاہراہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میدان میں پرانے اوزاروں، وہیل چیئرز، دستے اور بغیر دستے کی کرسیاں، ایزی چیئرز، ٹوسٹر، گیس کے چھوٹے بڑے چولہے، واٹر کولر، روم کولر ، واٹر کولر کے پارٹس، ٹونٹیاں، جوسر، بلینڈر، گرینڈر، مصالحہ پیسنے کی مشین، قیمہ پیستے کی مشین، چاقو، چھریاں، دستیاب ہیں۔
ایک اسٹال پر لائن سے پانی کھینچنے اور چھت کی ٹنکی پر پانی چڑھانے والی موٹریں جنہیں سکشن اور پاور پمپ بھی کہا جاتا ہے، توے، کڑھائی، جنریٹر کا فیول ٹینک،بغیر پروں کے برقی پنکھے ، اور لوہے کے دیگرپرزے رکھے تھے۔ یوپی ایس، اس کی بیٹریاں، لوہے کے پلنگ، لوہے کے گیٹ، گیس کے بڑے چولہے، اوون، لوہے کے فریم، کمپیوٹر کا انتہائی قدیم مانیٹر، کسی چیز کا لوہ ےکا فریم ، جوسر بلینڈربھی فروخت کے لیے موجود تھا۔ ایک اور دکان پر مائکروویو اوون، بچوں کی چاند گاڑی، ویکیوم کلینرز، دیوار پر لگانے والے پنکھے موجود تھے۔ کانچ اور تام چینی کے برتوں کی بھی ایک دکان تھی ،جہاں موجود استعمال شدہ برتن اچھی حالت میں تھے۔ یہاں خوتین خریدار کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ قریب ہی دکان پردیوار میں سوراخ کرنے والی ڈرل مشین، انرجی سیور کا ہولڈر، اسپیکر، بجلی کا سرکٹ بورڈ، پانی کی موٹریں، ڈنکی پمپ، چارج ایبل پنکھے، الیکٹرک ہولڈر، برقی ہیٹر، اسٹیل کٹر، اینگل، سائیکل کی قینچی اور لوہے کا دوسرا سامان رکھا تھا۔ بجلی کے ایڈاپٹر، شیرخوار بچوں کو گھمانے والی گاڑیاں، کچن کے سنک اور دیگر سامان فرخت کے لیے ایک اور دکان پر بک رہا تھا۔ چند دکانوں پر کچن میں استعمال ہونے والی اشیاء، واش بیسن، سلور کےاور اسٹیل کے برتن، جن میں بڑے بڑے تسلے، ٹرے، پرات، سالن کی ڈشیں، لوٹے، جگ، گلاس، ہاتھ دھونے کی سلفچی،لوہے کی بڑی کڑاہیاں، چولہے، گراموفون، لوہے کے پرزے فروخت کے لیے موجود تھے۔ یہاں کئی اسٹال پر چھوٹے بڑے ریفریجریٹر فروخت کے لیے رکھے تھے جن کی قیمت مختلف سائزوں کے لحاظ سے لیکن بازار سے نصف سے بھی کم ریٹ پر تھیں۔ اس بازار میں مختلف کمپنیوں کی مسترد شدہ کاسمیٹکس کی اشیا ءبھی فروخت ہوتی ہیں۔ اس کباڑ بازار میں ہر وہ چیز مل سکتی ہے ،جس کی ضرورت آپ کو ہو، وہ بھی بہت سستے داموں پر، بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔