ناولوں اور دوسری کتابوں کی چاٹ لگنے کی وجہ سے ایف ایس سی (میڈیکل) گروپ سے دیس نکالا لینا پڑا لیکن نیوٹن کی طبعیات کے بنیادی قوانین یادداشت کا حصہ رہ گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہر عمل کا مساوی رد عمل ہوتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سائنس کے طلبا و طالبات سماجی معاملات میں سب سے زیادہ قدامت پرست ہوتے ہیں: وہ سماجی عمل کو سائنسی طریق کار سے دیکھنے کے بجائے اردگرد پائے جانے والے اعتقادات اور تعصبات کا شکار رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نام نہاد ’پڑھے لکھے‘ لوگوں کے بارے میں مشکوک ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ معاشرے میں ’نصابی‘ تعلیم کے اضافے سے اجتماعی عقل و شعور بھی آگے بڑھے۔ عملاً ہوا بھی یہی ہے کہ ’نصابی‘ تعلیم کے اضافے کے دور میں ہی مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت اتنی آگے بڑھی ہے۔
خیر بات عمل اور رد عمل کی ہو رہی تھی۔ نیوٹن کے قوانینِ حرکت یاد آنے کی وجہ جناب اینڈریو ینگ بنے جو ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیس صدارتی امیدواروں میں سے ایک ہیں اور تائیوان سے ترک وطن کرنے والے خاندان کی پہلی نسل کے ایشیائی امریکی ہیں۔ ان کے علاوہ باقی سب امیدوار خالص امریکی اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں لیکن پچھلے ہفتے جب ڈیموکریٹک پارٹی نے صدارتی امیدواروں کے لمبے چوڑے ریوڑ کی چھانٹی کرنے کے لئے عوامی تائید کے بنیادی اصول طے کر کے دس کا انتخاب کیا تو جناب اینڈریو ینگ کا نام لسٹ میں شامل تھا۔ یہ امر حیران کُن تھا کیونکہ ان کے مقابلے میں رد کئے جانے والے امیدواروں میں کئی سینیٹر، کانگریس ممبر، گورنر اور نیویارک شہر جیسے بڑے شہر کے مئیر بھی تھے۔ مسٹر اینڈریو ینگ ایک معمولی ایشیائی امریکی شہری ہونے کے باوجود جگادری سیاستدانوں کو پچھاڑنے میں کیوں کامیاب ہوئے؟
مسٹر اینڈریو ینگ کا مختصر صدارتی ایجنڈا یہ ہے کہ امریکی ریاست کو گھر بیٹھے، بلا امتیاز، ہرشہری کو ایک ہزار ڈالر ادا کرنا چاہئے۔ آپ اسے مذاق سمجھ کر مسکرائیں گے اور سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن ان کی بات سنجیدگی سے سننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے (وگرنہ وہ دس کی لسٹ میں شامل نہ ہوتے)۔ ان کی منطق یہ ہے کہ اگلی ایک دو دہائیوں میں سارا کاروبار حیات روبوٹوں کے ذریعے ہوگا اور انسانی محنت لایعنی ہو جائے گی۔ اس صورتحال میں ہر چیز پیدا تو ہو جائے گی لیکن جب لوگوں کے پاس روزگار ہی نہیں ہوگا تو وہ یہ اشیاء کیسے خریدیں گے؟ اور اگر بازار میں خریدار ہی نہیں رہیں گے تو چیزیں پیدا کس کے لئے ہوں گی۔ اس طرح پورا پیداواری نظام ٹھپ ہو جائے گا، اس مسئلے کا حل سوائے اس کے کوئی نہیں کہ ریاست ہر شہری کو ایک معقول رقم فراہم کرے تاکہ پیداواری ڈھانچہ مسمار ہونے سے محفوظ رہے۔ یورپ میں ’یونیورسل انکم‘ (آفاقی آمدنی) کی بحث بہت سالوں سے جاری ہے اور اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ ریاست کو صحت اور تعلیم کی طرح انسان کی دیگر ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی لینا چاہئے۔
ظاہر بات ہے کہ ابھی تک یہ اقلیتی فکر ہے اور یہ حقیقت کا روپ کئی دہائیوں میں لینا شروع کرے گی لیکن یہ تجویز اینڈریو ینگ کے حوالے سے متعارف ہو گئی اور لوگوں کی قابل ذکر تعداد نے اس کی حمایت بھی کی ہے۔ بظاہر اس طرح کا انتہا پسندانہ فلاحی پروگرام دنیا میں رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے دور سے شروع ہونے والی امیر نواز اور غریب کش پالیسیوں کے رد عمل میں سامنے آیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیت کے بعد ناتواں طبقوں اور اقلیتوں کے خلاف انتہائی اقدامات اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے ردعمل میں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بڑے امیدوار (برنی سینڈر) سوشلزم کے بینر تلے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام صدارتی امیدوار ترقی پسند ایجنڈا اپنانے (مفت صحت اور تعلیم فراہم کرنا) پر مجبور ہیں۔ نام نہاد معتدل سیاستدانوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ رجحان امریکہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے یورپ میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی اور نسل پرستانہ قوم پرستی کے خلاف طوفانی ابھار کھڑے ہوں گے۔
جس طرح اینڈریو ینگ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے عمل کو ریگن سے شروع ہونے والی رجعت پرستی (جو خود 1960sکی فلاحی پالیسیوں کے خلاف رد عمل تھا) کے خلاف رد عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح پاکستان کے بھی بہت سے سماجی اور مذہبی مظاہر کو صنعت کار معاشرے کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے رد کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی سب سے آسان مثال خواتین کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ خواتین ان حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں یا عملاً کر رہی ہیں جو انہیں قدیم زرعی معاشرے میں میسر نہیں تھے۔ یہی کچھ بہت سی اقلیتوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے جو ماضی کے بر خلاف اب مساوی حقوق کی طالب ہیں۔ بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے کے رد عمل میں ایک طرف مذہبی قدامت پرستی بڑھی ہے تو دوسری جانب شراب نوشی اور دوسری منشیات کے استعمال کی صورت میں روایتی اخلاقی قدریں چیلنج ہوئی ہیں۔ گویا کہ پاکستان میں پائے جانے والے متضاد رجحانات کو اسی سیاق و سباق میں سمجھا جا سکتا ہے۔
ناگوار تفصیلات میں جائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک عزیز میں بہت سے رجحانات انتہائی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ رجحانات معاشی سکڑاؤ (shrinking economy)، مہنگائی، لا قانونیت، فکری بانجھ پن اور سیاسی جمود میں اپنا اظہار پا رہے ہیں۔ معاشی سکڑاؤ اور مہنگائی کی تو اعداد و شمار بھی گواہی دے رہے ہیں اور باقیماندہ تنزلی آنکھیں کھلی رکھنے والے ہر شخص کو نظر آسکتی ہے۔