یہ دو مختلف لفظ ہیں اور دونوں کے معنی بھی مختلف ہیں۔آذر (یعنی ذال سے)کے معنی ہیں آگ۔اسی لیے آگ کی پوجا کرنے والے کو آذر پرست کہتے ہیں۔ آگ کی عبادت کرنے والے کو عرفِ عام میں پارسی یا زرتشتی بھی کہا جاتاہے۔ آتش پرست بھی اسی کو کہتے ہیں۔ پارسیوں کے لیے لفظ مجوسی (واو معروف ) بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس عبادت خانے میں آگ کی پوجا کی جاتی ہے اس کا نام آذر کدہ ہے۔’’بانگ ِ درا‘‘ میں شامل نظم سوامی رام تیرتھ میں اقبال کہتے ہیں :
مٹ کے غوغا زندگی کا شورشِ محشر بنا
یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آذر بنا
آذر ایرانی تقویم کے ایک مہینے کا بھی نام ہے۔اس میں بھی ذال ہے۔آذر نواں مہینا ہے اور خزاں کا مہینا ہے ۔اس کی مطابقت نومبر اور دسمبر سے ہوتی ہے(اگرچہ اردو لغت بورڈنے اپنی لغت میں غلط طور پر اسے جنوری کے مطابق بتایا ہے) ۔ اسی آذرسے لفظ بنا ہے آذری، جس کے معنی ہیں آذر کے مہینے سے نسبت رکھنے والا۔ لیکن آذر ی کے ایک اورمعنی بھی ہیں۔ آذر یعنی آگ کے لحاظ سے آذری کے معنی ہیں آگ سے نسبت رکھنے والا یا والی ، آذر (یعنی آگ) سے متعلق ، آگ کا ۔ اسی لیے شاعری میں بتانِ ا ٓذری کی ترکیب بھی آتی ہے یعنی آگ کی پوجا کرنے والے حسین لوگ ، محبوبانِ آتش پرست ، وہ حسین لوگ جو پارسی یا آتش پرست ہوں ۔یہ سب ذال سے لکھے جائیں گے ۔آذر بایجان( جسے اسٹین گاس نے آذر بادگان بھی لکھا ہے )کا یہ نام اسی لیے پڑا کہ وہاں ایک بڑا آتش کدہ تھا۔ آذر بایجان سے تعلق رکھنے والے کو بھی آذری کہتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ آذر (ذال کے ساتھ) اور آزر (زے کے ساتھ) دو مختلف لفظ ہیں اور دونوں کے مفہوم میں فرق ہے لیکن کبھی کبھی کتابت کی غلطی سے ایک کی جگہ دوسرا لکھ دیا جاتا ہے۔ رشید حسن خاں بھی اپنی کتاب ’’اردو املا ‘‘ میں اس امر کی نشان دہی کرچکے ہیں کہ اردو کے بعض دواوین میں (غالباً کاتبوں کی مہربانی کے سبب) ان دونوں الفاظ کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ افسوس کہ اردو لغت بورڈ کی بائیس جِلدی لغت میں آذر (آگ) درج توہے لیکن آزر (بت تراش)میں زے کی بجاے ذال لکھی گئی ہے اور آزر (زے) سے لکھ کر اسے آذر (ذال سے ) سے رجوع کرادیا گیا ہے۔ گویا بورڈ کے خیال میں آزر(بت تراش ) کا املا ذال سے قابلِ ترجیح ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دوسری قباحت بورڈ کی لغت میں یہ ہے کہ لفظ آزر(یعنی بت تراش ،جس کو بورڈ ذال سے درست سمجھتا ہے ) کے اشتقاق یا ماخذ زبان کی نشان دہی نہیں کی گئی۔ آذر (ذال سے یعنی آگ ) فارسی کا لفظ ہے اور آزر (زے سے یعنی بت تراش ) عربی کا لفظ ہے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کردیا جائے کہ بورڈ نے آذر (ذال سے) کی آخری سند ۱۸۴۵ء سے دی ہے جبکہ اس کے بعد بھی رائج رہا ہے جیسا کہ اقبال کی منقولہ بالا سند سے ظاہر ہے۔ اسی طرح بورڈ نے لفظ آزری (زے سے ) کو صرف صفت کے معنی میں درج کیا ہے جبکہ یہ اسم بھی ہے( یعنی ’’بت بنانے کا عمل یا بت تراشی‘‘ کے معنی میں ) اور یہ معنی مذکورہ بالا شعر سے بھی ظاہر ہیں ۔ بورڈ نے آزری کی سند بھی صرف ایک دی ہے ۔ اقبال کا منقولہ بالادوسرا شعر آزری (بت سازی یا بت تراشی)کی سند میں آسکتاہے۔رشید حسن خاں صاحب نے بھی آذر ؍آذری اور آزر ؍آزری کی بحث میں استاد شعرا کے متعدد اشعار بطور اسناد پیش کیے ہیں ۔ بورڈ کو چاہیے کہ اگلے ایڈیشن میں انھیں بھی شامل کرلے۔
نسیم امروہوی نے ’’فرہنگ ِ اقبال ‘‘میں وضاحت کی ہے کہ آذر؍آذری اور آزر؍ آزری کے املا میں کلیات ِ اقبال کے بعض نسخوں میں بھی سہوِ کاتب کی وجہ سے غلط لفظ لکھا گیا ہے۔ان کی بات کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ اقبال اکیڈمی (لاہور) کی شائع کردہ کلیات ِ اقبال (طبع ہشتم، ۲۰۰۷ء) میں بھی آتش خانۂ آذر (ذال سے )کو آتش خانہ ٔ آزر (زے سے ) لکھا گیا ہے جو بے تکی بات ہے ۔آذر کا آتش کدہ تھا نا کہ بت کدہ۔ کیایہ امید کی جاسکتی ہے کہ اردو لغت بورڈ اپنی بائیس جلدوں پر مبنی لغت کے نظر ِ ثانی شدہ و اضافہ شدہ ایڈیشن میں ان خامیوں کو درست کرلے گااور اسناد کا اضافہ کرے گا ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ اقبال اکیڈمی نے۲۰۱۸ء میں کلیات ِ اقبال کا جو نیا ایڈیشن شائع کیا ہے ، اس میں بھی آتش خانہ ٔ آذر(ذال سے ) کو آزر (یعنی زے سے ) لکھا گیاہے۔ کیا کوئی امید اقبال اکیڈمی سے بھی کی جائے گی کہ کلیات ِ اقبال کا کوئی نیا مستند ا ایڈیشن شائع کیا جائے گاجس کی قیمت عام قاری کی رسائی میں بھی ہوگی اور جو ایسی املائی اغلاط سے بھی پاک ہو گا ؟