کراچی میں امن و امان کی فضا ایک مرتبہ پھر مکدر ہورہی ہے۔شہر قائد میں ایک ہی ہفتے میں دو ڈاکٹر سمیت تین افراد موت کی نیند سلا دیئے گئے۔پہلا واقعہ گلستان جوہر بلاک 13 میں دارالصحت اسپتال کے عقب میں واقع بنگلے میں پیش آیا، جس میں کینیڈا سے شادی کی تقریب میں شرکت کی غرض سے آنے والی کینیڈین نژاد پاکستانی ڈاکٹرعائشہ ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔
پیر 26اگست کو صبح 8 بجے پینٹ ، شرٹ اور ٹائی پہنے ہوئے چار مسلح افراد جوگرے رنگ کی کار میں آئے تھے، مذکورہ گھر میں داخل ہوئے اور اہل خانہ کو یرغمال بنا کر لوٹ مار کی کوشش کی ۔گھر والوں کی جانب سے مزاحمت پر انہوں نے فائرنگ کردی۔ گولیاں لگنے سے ڈاکٹر عائشہ شدید زخمی ہوگئیں جنہیں اسٹیڈیم روڈ پر واقع ایک نجی اسپتال لے جایا گیا ،جہاں وہ دوران علاج جاں بحق ہوگئیں۔ ملزمان کار چھوڑ کر فرار ہوگئے جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔ کار کی تلاشی کے دوران ایک ایس ایم جی رائفل اور تیس بور کا پستول برآمد ہوا ۔ ڈاکٹر عائشہ کے بارے معلوم ہوا ہے کہ وہ ڈاکٹر شہزاد رحمان کی اہلیہ اور ایس ایچ او شارع فیصل ، سرور کمانڈو کی سالی تھیں اور وہ کراچی آمد کے بعداپنے دیور کے بنگلے میں مقیم تھیں جہاں یہ المناک واقعہ رونما ہوا۔
تین دن میں دو ڈاکٹر سمیت تین افراد موت کی نیند سلادیئے گئے
پولیس کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملنے کے بعد 2اگست کوڈاکٹر عائشہ کے قتل کے مرکزی ملزم فیصل کو ایک اسپتال سے گرفتار کرلیاگیا۔ پولیس کے مطابق ملزم فیصل 150 سے زائد وارداتوں میں مطلوب تھا۔ملزم کے مفرور ساتھیوں کی شناخت عظمت، انور اور رحمت کے نام سے ہوئی ، تینوں مفرور ملزمان سگے بھائی ہیں ۔ملزم فیصل نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ 'میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صبح گلستان جوہر میں مذکورہ بنگلے پر پہنچا، گھر کے گراؤنڈ فلور پر اسلحے کے زور پر وہاں موجود افراد کو یرغمال بنانے کے بعدان میں سے 'ایک شخص کو گن پوائنٹ پر لے کر اوپر کی منزل پر گئے اور گیٹ کھلوانے کی کوشش کی تو وہاں موجود افراد نے فائرنگ کردی جس کے جواب میں ہم بھی فائرنگ کرتے ہوئے گیٹ کی جانب بھاگے۔ اوپر ی نزل سے فائرنگ کی وجہ سے گھبراہٹ کے عالم میں ہم اپنی گاڑی گھر کے سامنے چھوڑ کر رکشے میں فرار ہوئے۔ اسلحہ اورنگی ٹاؤن میں ساتھیوں کے پاس چھپادیا۔واردات کے بعد سے وہ ایک گھر میں روپوش تھا کہ گیس لیکج ہونے کےباعث آگ لگ گئی جس سے وہ جل گیا، علاج کے لیے اسپتال گیا جہاں میری گرفتاری عمل میں آئی۔ پولیس کے مطابق واردات میں ملوث دیگر تین مفرور ملزمان کی تلاش جاری ہے، وہ بھی جلد ہی قانون گرفت میں آجائیں گے۔
ڈاکٹر عائشہ کے قتل کے 19گھنٹے بعد اسی روز رات کو ساڑھےتین بجے شادمان ٹاؤن بفرزون میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ پولیس کے مطابق رات ساڑھے 3 بجے کے قریب تقریباً نصف درجن ، مسلح افراد سفید کرولا کار میںڈ ی ایس پی ، طارق ملک کے بنگلے پر پہنچے۔ ان میں سے ایک ڈاکو دیوار پھلانگ کر بنگلے میں داخل ہوا اورمرکزی گیٹ کھول دیا جس کے بعد دیگر ڈاکو بھی اندر داخل ہوگئے۔ بنگلے میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے ڈی ایس پی طارق ملک اور دیگر اہل خانہ جو سورہے تھے، انہیں جگایا اور یرغمال بنانے کے بعد رسیوں سے باندھ کر موبائل فون، نقدی، طلائی زیورات اور غیرملکی کرنسی جمع کرنا شروع کردی۔ اس دوران طارق ملک کا بھانجا، ریاض ملک جو اوپری منزل پر سورہا تھا، شور و غل کی آوازیں سن کر نیچے آیا اور اس نے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کی، جس پرانہوں نے اس پر فائرنگ کردی۔ریاض کے جسم میں 3 گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ ڈی ایس پی طارق ملک کے مطابق، ڈاکو اایک گھنٹے تک گھر میں موجود رہے، ریاض کوگولیاں مارنے کے بعد وہ نقد رقم،طلائی زیورات، دو پستول ، ایک رائفل لے کر اپنی کار میں نہایت اطمینان سے فرار ہوگئے۔
تیسرے واقعے میں ہارٹ سرجن ، ڈاکٹر حیدر عسکری زیدی نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بنے ۔ڈاکٹر حیدر عسکری کے قتل کا واقعہ ان کی رہائش گاہ کے قریب گلشن اقبال بلاک 3میں پیش آیا۔جمعہ 30اگست کو وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے ۔ گلشن اقبال بلاک3،کے ڈی اے مارکیٹ، دیوا اکیڈمی کےقریب سےوہ اپنی کار میں جا رہے تھے کہ وہاں موجود نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن انہوں نے کار کی رفتار بڑھادی، جس پرمسلح ملزمان نے پستو ل سے فائر کیا، جس کی گولی ان کے پشت پر لگی۔ گولی چلانے کے بعد ملزمان وہاں سے فرار ہوگئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو ادارے کا عملہ جائے وقوعہ پر پہنچا اور ڈاکٹر عسکری کو زخمی حالت میں مقامی اسپتال پہنچایا، لیکن خون زیادہ بہنے کی وجہ سے وہ جان بر نہ ہوسکے اور اسپتال میں دوران علاج جاں بحق ہوگئے۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر حیدر عسکری پر 30 بور کے پستو ل سے گولی چلائی گئی تھی اور مذکورہ بور کا ہتھیار ماضی میں کسی اور واردات میں استعمال نہیں ہوا تھا۔