آج کل خبروں میں متواتر آرہا ہے کہ ہندوستان کشمیری مسلمانوں کی نسل کُشی(کاف پر پیش) کررہا ہے لیکن ٹی وی پر خبریں پڑھنے والے بعض’’ علامہ ‘‘اس کا تلفظ نسل ’’کَشی ‘‘ (کاف پر زبر)کررہے ہیں جو نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ کشمیری مسلمانوں کی توہین اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔کاش ہمارے ٹی وی والے زبان کی اہمیت کو سمجھیں۔
کُشی ( کاف پر پیش ) فارسی کے مصدر کُشتن (کاف پر پیش ) سے ہے اور اس کا مطلب ہے قتل کرنا، مار ڈالنا ۔ گویا نسل کُشی (کاف پر پیش) کا مطلب ہوا نسل کو قتل کرنے کا عمل ۔ نسل کُشی دراصل انگریزی اصطلاح genocide کا اردو مترادف ہے اور اس کے معنی ہیں کسی نسلی گروہ کا دانستہ قتل ِعام۔بعض مرکبات جیسے خودکُشی، محسن کُشی، دُخترکُشی(بیٹیوں کو قتل کرنے کی قبیح رسم)، گاو کُشی (گاے کاٹنے کا عمل )اور نفس کُشی (اپنے نفس کو مارنا) میں یہی کُشی (کاف پر پیش)ہے جو کُشتن (مارنا ڈالنا یا قتل کرنا ) سے ہے ۔
جبکہ کَشی (کاف پر زبر )فارسی کے مصدر کشیدن سے ہے اور کشیدن کے معنی کھینچنا بھی ہیں اوربڑھانابھی۔
’’ نسل کَشی‘‘ میں یہی کَشی (کاف پر زبر) ہے ۔اسی لیے نسل کَشی کے معنی ہیں نسل بڑھا نے کا عمل ، افزائش ِ نسل۔ یہی کشی دیگر تراکیب میں بھی آتا ہے، مثلاًدل کَشی (یعنی دل کو کھینچنے کا عمل، مراد ہے خوب صورتی) ، محنت کشی،فاقہ کشی(فاقہ کرنا) ،سر کشی اورتصویر کشی (تصویر کھینچنا) میں بھی یہی کشی(کاف پر زبر ) ہے ۔ اندازہ کیجیے کہ زبر اور پیش کے فرق سے مفہوم کتنا بدل جاتا ہے۔
اعتذار:گزشتہ کالم میںآذر(ذال سے) اور آزر (زے سے)کی بحث میں آزری (زے سے ، بمعنی بت تراشی، بت سازی ) کی سند کے طور پر اقبال کا ایک اور شعر بوجوہ چھپنے سے رہ گیا تھا۔ شعر یہ ہے:
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کررہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار ِ راہ ِ حجاز ہو جا
ازراہِ کرم تصحیح فرمالیجیے۔