میں مختلف اخباروں میں پچیس تیس سال تک ہفتہ وار انگریزی کالم لکھتا رہا ہوں۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے جنگ کے لئے ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں۔ میرے پنجابی زبان کے ساتھ تعلق سے بھی آپ آگاہ ہی ہوں گے۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ عرض کرنا تھا کہ میں کسی زبان کے ساتھ عناد نہیں رکھتا ہوں اور اپنی بات کہنے کے لئے جو زبان بھی مناسب ہو استعمال کر لیتا ہوں۔ لیکن سماجی سطح پر تاریخ، سائنس اور بالخصوص نفسیاتی تحقیقات کو معروضی سطح پر دیکھتے ہوئے اس بات کا قائل ہوں کہ بچے کی بہترین تربیت اس کی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ دنیا میں ایسی تحقیقات کی بھرمار ہے جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں ہی نئے تصورات کا ادراک کر پاتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ جو بچہ اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کر لیتا ہے اس کے لئے دوسری زبانوں کی جانکاری بھی آسان تر ہو جاتی ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بچے کی ابتدائی تربیت کا بنیادی مقصد نئے تصورات سے آگاہی ہے۔ اس کا ننھا ذہن اپنی مادری زبان میں نئے تصورات کا تو احاطہ کر سکتا ہے لیکن جب اسے نو عمری میں ہی کسی دوسری زبان میں پڑھایا جاتا ہے تو اسے پہلے ترجمہ کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، دوسری زبان کے الفاظ کا سیکھنا غالب آجاتا ہے اور سیکھے جانے والا مواد ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ ہم بچوں کو غیر زبان کے ذریعے تعلیم دینے میں ان کا زندگی کے حقائق سے رابطہ منقطع کر دیتے ہیں۔ عام طور پر اس سارے عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ہی انہیں غیر زبان پر عبور حاصل ہو پاتا ہے اور نہ ہی وہ علمی تصورات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں: اس طرح سے ہم ٹائی اور کوٹ میں ملبوس ان پڑھ لوگوں کی نسلیں تیار کر رہے ہیں۔
تاریخی طور پر اس دعویٰ میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کہ جدید دور کا مقابلہ کرنے کے لئے غیر زبانوں بالخصوص انگریزی کا علم ضروری ہے۔ اس منطق کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہمیں انگریزی سے مکمل نابلد چین اور جاپان سے بہت آگے ہونا چاہئے تھا لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ دراصل اس سارے نظریے کے بنیادی مفروضے ہی مطلقاً غلط ہیں۔ یہ سارا نظریہ اس تاثر پر قائم کیا گیا تھا کہ بالائی طبقے اسلئے بالائی یا آگے ہیں کہ وہ انگریزی دانی میں بہت بہتر ہیں۔ اسلئے اگر عام بچہ بھی انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا لے تو وہ بالائی طبقوں میں شامل ہو جائے گا یا ان کے قریب پہنچ جائیگا۔ حقیقت یہ ہے کہ بالائی طبقہ بالکل دوسری وجوہات کی بنا پر اعلیٰ معاشی حیثیت کا حامل ہے۔ البتہ یہ تاثر کسی حد تک درست ہو سکتا ہے کہ چونکہ بالائی طبقات کی اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم تک رسائی زیادہ ہے اس لئے ان کی غیر زبانوں کی جانکاری کی سطح بہتر ہے لیکن اگر ایک جاگیردار یا سرمایہ دار کا بیٹا/بیٹی مطلق طور پر ان پڑھ بھی رہیں تو وہ تب بھی بالائی طبقے میں ہی رہیں گے۔ زبان دانی صرف بیماری کی علامت کی طرح ہے، خود بیماری کی وجہ نہیں ہے۔ پاکستان میں صدیوں تک غالب رہنے والے جاگیرداروں کے آبائو اجداد انگریز کے زمانے تک ان پڑھ ہوا کرتے تھے اور ان کی جاگیریں حاصل کرنے میں زبان دانی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
اگر گئے گزرے وقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف پچھلے چالیس سالوں کے اعداد و شمار ہی دیکھے جائیں تو عیاں ہو جائیگا کہ اس دور میں جو لاکھوں لوگ امیر یا خوشحال ہوئے ان کے ابھار میں بھی زبان دانی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ بہت ہی تھوڑے شعبوں کو چھوڑ کر باقی نو دولتیوں نے انگریزی (حتیٰ کہ اردو) سے پیدل ہونے کے باوجود اپنی موجودہ حیثیت حاصل کی ہے۔ نئے امیر ہونے والوں میں تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا کاروباری طبقہ ہے اور ان میں سے 90فیصد کے دھندے میں زبان کوئی اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ اس کے علاوہ آپ رئیل اسٹیٹ، موسیقی، کرکٹ، حتی کہ آپ بھاری معاوضہ پانے والے اینکرز تک کو دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی زبان دانی کا کوئی عنصر نظر نہیں آئے گا بلکہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی میڈیم کا نو دولتیا یا نئے خوشحال طبقے سے تقریباً ناجائز تعلق قائم ہوا ہے۔ نئی خوشحالی کے بعد جستجو یہ تھی کہ کس طریقے سے مہذب طبقوں کا حصہ بنا جائے۔ یہ اسٹیٹس پہلے اردو لکھ اور بول کر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن گلوبلائزیشن کے بعد وہ بھی ناکافی ہو گیا اور انگریزی میڈیم تہذیب کو سیڑھی کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اردو کے ذریعے مہذب ہونے کا تصور بھی خوش فہمی ہی تھا کیونکہ جن ذرائع سے یہ زبان عوام تک پہنچتی تھی ان میں اردو کے بالائی طبقات اور دانشوروں کا ہی کلچر پیش کیا جاتا تھا۔ حکمران طبقوں کے کلچر کو آئیڈیل بنانے یا اس کی نقل کی خواہش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ غیر زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کا علم کی ترسیل سے کوئی تعلق نہیں ہے:یہ صرف طبقاتی سیڑھیاں چڑھنے کا بھونڈا، ضرر رساں اور خوش فہمی پر مبنی عمل ہے۔ جب دنیا بھر کی تحقیق چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ علم حاصل کرنے کی ابتدا مادری زبانوں سے ہی ہونا چاہئے تو اسکی نفی کرنا خود کشی اور اگلی نسلوں کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ میں آجکل کی جانیوالی بات پر حیران نہیں ہوں کہ پاکستان میں نئی نسل کسی بھی زبان میں ڈھنگ سے لکھنے کے قابل نہیں ہے۔ طبقات کی پیچ در پیچ سیڑھیوں کی بھول بھلیوں میں زبان کو علم حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے سے ہی مکمل انکار کیا جا رہا ہے۔ یہ لسانی انارکی کی بد ترین مثال ہے اور اگر اسی راستے پر چلا گیا تو اسکا انجام یہ ہوگا کہ ہم ڈگری یافتہ ان پڑھوں کی نسلیں پیدا کرتے چلے جائینگے: دنیا آگے نکل جائیگی اور ہماری نئی نسلیں ٹائی، کوٹ اور پتلون پہننے کے ڈرامے میں صرف ہو جائیں گی۔