• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب میں واقع تیل کی اہم تنصیبات پر رواں ہفتے پراسرار ڈرون حملوں کے نتیجے میں پہلے سے عدم استحکام کا شکار مشرق وسطیٰ مزید کشیدگی کا شکارہو گیا ہے، حالیہ تنائو نے جہاں ایک طرف پوری دنیا میں تیل کی سپلائی کو متاثر کیا ہے وہیںعالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یمن میں سرگرم حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے،تاہم ڈرون حملے کے فوراََ بعدامریکہ نے ایران کو ملوث قرار دیاجبکہ سعودی عرب نے الزام تراشی سے گریز کیا لیکن پھر بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں ایران کوشریک جرم کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار ایرانی ساختہ ہیں، کچھ ماہ قبل متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پر بھی سعودی عرب، یواے ای اور ناروے کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ خطے میں سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی عرصہ دراز سے جاری ہے ،اس ساری صورتحال میں سپر طاقتوںکا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ کی جانب سے ایران کو بار بار دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ روس مسلسل ایران کی حمایت کا اعادہ کررہا ہے ۔چین ،برطانیہ ، جرمنی اور دیگر ممالک اس کشیدہ صورتحال کا پر امن حل چاہتے ہیں،ایران کی جانب سے تردید کر دی گئی ہے کہ وہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں ملوث نہیں ہے لیکن وہ حوثی باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے بعد مڈل ایسٹ کے حالیہ تناؤ نے پاکستان کو ایک نازک صورتحال سے دوچار کردیا ہے ، کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر مسلمان ممالک کی خاموشی اور اب ایران سعودی چپقلش سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم سمجھی جانے والی او آئی سی اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے، ماضی میں بھی اسی تنظیم کی موجودگی میںامریکہ نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی تھی۔ پاکستان علاقائی و نظریاتی سطح پر ایک نمایاں پوزیشن کا حامل ہے اور سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات رکھتا ہے جس کی وجہ سے پر بلاشبہ دونوں متحارب ممالک کی کوشش ہوسکتی ہے کہ پاکستان کو اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی پاکستان سے یمن کے معاملے پر عسکری تعاون مانگ چکا ہے، تاہم موجودہ حالات میں پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر کوئی سفارتی قدم اٹھانا چاہئے۔تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ ماضی میں ہر سپرپاور نے اپنے مفادات کی خاطر علاقائی کشیدگی کو بڑھاوا دیا اور بدلے میں نہ صرف ہتھیارسازی کی صنعت کو فروغ دیا بلکہ اپنے آپ کو نجات دہندہ کے روپ میں بھی پیش کیا،مڈل ایسٹ میں جب بھی جنگ ہوئی وہ تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کےلئے ہوئی ،شاہ ایران کے دور میں ایران کا کردار علاقے میں امریکی تھانے دار کا تھا، انقلاب ایران کے بعد عراق کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تو عراقی صدر صدام حسین امریکہ کا پسندیدہ حکمران بن گیا، بعد ازاں اس کو کویت میں واقع تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے پر اکسایا گیا ، کویت پر چڑھائی کے بعداس کو امریکہ کا بدترین دشمن بناکرپیش کیا گیااورپھر عراق پر امریکی قبضے کے بعداس کی حکومت کا آخرکار خاتمہ کردیا گیا۔ یہ وہ تلخ تاریخی حقائق ہے جن کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر کل کو خدانخواستہ ایران کے مفاد پر ضرب لگتی ہے تو مشرق وسطیٰ تیسری جنگ عظیم کا شکار ہوسکتا ہے۔ سفارتی محاذ پر دیکھا جائے تو ایران نے پاکستان کے حوالے سے نرم رویہ اپناتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کے حق میں قرارداد منظور کرکے قابلِ تعریف قدم اٹھایا ہے، دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازناپاکستانیوں کیلئے ناراضگی کا باعث بنا ہے۔ایسے حالات میں ہمیں امریکہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی باتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘کی بنیاد پر سودے بازی کا قائل ہے، امکان ہے کہ امریکہ ہم سےکسی کے خلاف جارحیت کیلئے مددمانگے او ر بدلے میں ثالث کا کردار ادا کردے یعنی کشمیریوں کو حق خودارادیت دیئے بغیر مشرف فارمولہ کے مطابق لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد مان لیا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ جنگ چاہے جس علاقے میں ہو، اپنے ساتھ سنگین بحران اور عدم استحکام لاتی ہے ، دنیا کا ہر مسئلہ دوطرفہ مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے اور شدت پسندی سے فقط نفرتیں اور ظلم بڑھتا ہے۔میرا بھارت،پاکستان، سعودی عرب اور ایران کی اعلیٰ قیادت کو یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ کسی تیسرے فریق کی بجائے دوطرفہ طور پر اپنے دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوششیں کریں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس آئندہ ہفتہ شروع ہونے والا ہے ، اس اہم موقع پر دنیا کے تمام متحارب حکمرانوں کو ون ٹوون ملاقاتیں کرکے عالمی امن کو یقینی بناناچاہئے، اندیشہ ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ گئی تویہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، اسلئے انسانیت کا درد رکھنے والے ہر سمجھدار شخص کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔بطور پاکستانی، فی الحال ہماری توجہ کا محور مقبوضہ کشمیر اور پاک افغان سرحد سے دہشت گردی کے حملوں کا توڑ ہونا چاہئے۔ مڈل ایسٹ کشیدگی میں پاکستان کو ہر قیمت پر اپنا کردار مثبت اورمتوازن رکھنا اور کسی بھی پرائی جنگ میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین