وہ قومیں اپنے خوابوں کے تعاقب میں آگے بڑھتی ہیں اور اُس وقت تک ان کا سفر جاری رہتا ہے، جب تک ان کی آنکھوں میں خواب زندہ رہتے ہیں۔ میں نے بھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے ہیں۔ جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ پورا کرنا چاہوں گی۔ ایک خواب میں نے اسکول کی زندگی میں دیکھا تھا کہ، ایک ایسی کتاب لکھوں جو میری زندگی کے تجربات پر مبنی ہوں، اگرچہ خواب پورا ہوگیا لیکن ابھی کہانی ادھوری ہے۔
دراصل میں آٹھویں کلاس میں تھی جب زندگی کی ڈائری کا پہلا ورق لکھا، اسے جب امی نے پڑھا تو اُنہیں نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ انہوں نے میری اتنی حوصلہ افزائی کی کہ آج جب میری کتاب منظر عام پر آئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کتاب زندگی کے ہر ورق پر میری ماں کی تصویر ہے۔‘‘
یہ خیالات ہیں، 19 سالہ سیدہ سوہا عرفان کے، جن کی کتاب ’’دی مائنڈ لیس جینیس‘‘ کی حال ہی میں تقریب رونمائی ہوئی۔ دوران تقریب وہ انتہائی پُر اعتماد نظر آئیں۔ اپنے خطاب میں سوہا نے کہا کہ، زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے، کل کیا ہوگا، کسی کو نہیں پتا، اس لیے نوجوان اپنے آج کو ضائع نہ کریں بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ ’’آج‘‘ میں جینا سیکھیں۔
اسی کو بہتر سے بہترین بنائیں۔ میری ماں پانچ برس تک کینسر سے لڑنے کے بعد گزشتہ سال 19 دسمبر کو اس دنیا سے چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ دیکھا، ساتھ مشکلات کو جھیلنا سیکھا، کسی لمحے ہار نہیں مانی۔ آج جب میری کتاب میرے ہاتھوں سے دوسروں کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے تو مجھے میں مزید حوصلہ پیدا ہو گیا ہے۔ حوصلے بلند ہوں تو انسان کیا کچھ نہیں کرسکتا‘‘۔
زندگی کی مشکلات کو جھیلتی، لڑتی، ہر آزمائش میں ثابت قدمی سے آگے بڑھنے والی سیدہ سوہا عرفان نے، ہر مشکل کو صرف امتحان سمجھا اور ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ صرف پندرہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب ’’دی مائنڈ لیس جینیس‘‘ لکھنے کا آغاز کیا، اور 19 برس کی عمر میں شائع کروایا۔
میں سمجھتی ہوں، یہ کتاب اُن نوجوانوں کے لیے بہترین مثال ہے۔ جو مایوسی کا شکار ہو کر ناامیدی کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں، گھر یلو مشکلات کے سبب تعلیم سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سوہا عرفان نے زندگی کی 19ویں سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ کم عمری میں اپنی والدہ کو کینسر سے لڑتے اور پھر زندگی کی بازی ہارتے دیکھا، ماں کے آخری وقتوں میں ان کی ہمت بنی رہیں، لیکن اپنی ہمت کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا۔ مشکل حالات میں اپنے گھر والوں کے لیے ڈھال بن کے کھڑی ہوئیں، چھوٹی بہن کو ماں بن کر سنبھالا۔
اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ میں ڈھالا، مثبت اور تخلیقی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ سوہا کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی ادب میں زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہماری ان سے ملاقات ہوئی، اس دوران انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے بارے میں جو کچھ بتایا، وہ نذر قارئین ہے۔
س) سب سے پہلے ہمیں آپ اپنے خاندان اور تعلیم کے بارے میں بتائیں؟
ج) مجھ سے چھوٹی ایک بہن ہے، جو اسکول میں پڑھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی میری والدہ کا انتقال ہوا ہے۔ اب گھر میں ہم تین افراد ہیں یعنی ابو اور ہم دو بہنیں، دونوں زیر تعلیم ہیں۔
میں نے ہیپی پیلیس گرامر اسکول سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور چوتھی جماعت تک اس اسکول میں پڑھا، اس کے بعد ابو نے میرا داخلہ سینٹ پیٹرکس گرلز ہائی اسکول میں کرا دیا، میٹرک اسی اسکول سے کیا۔ انٹر سینٹ جوزف کالج سے کرکے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا، جہاں سے انگلش لیٹریچر میں آنرز کر رہی ہوں۔
س) حال ہی میں آپ کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی ہے، کیا یہ آپ کی پہلی کتاب ہے؟
ج) جی، یہ میری پہلی کتاب ہے۔ دراصل مجھے اسکول کے زمانے سے لکھنے کا شوق ہے، آٹھویں کلاس میں تھی، جب پہلا مضمون لکھا، پھر لکھتی رہی اور اُنہیں فائل میں محفوظ کرتی رہیں۔ اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی اپنی تحریروں کو کتابی شکل دوں گی۔
لیکن جب بھی کسی کو اپنے مضامین پڑھاتی تو کہتے کہ انہیں کتابی شکل میں لأؤ۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد سوچا، اب مجھے اپنے مضامین کو یک جاکر دینا چاہیے، سو ایسا ہی کیا۔
س) دوران تعلیم آپ نے کتاب قلم بند کی، کیسے وقت نکالا، اسے کتنے عرصے میں مکمل کی؟
ج) یہ کتاب میں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے قلم بند نہیں کی، بس جو محسوس کرتی وہ لکھ لیا کرتی تھی، جب میں آٹھویں کلاس میں تھی، تب انگریزی میں ایک نظم لکھی، اس کے چند اشعار آپ کو بھی سنا دیتی ہوں
we are weird but not insane
we struggle through pain but, also attain the desirable gain
our life might be messed up but not yet slain
and when we shine that's to our hearts, that every soul hails
اس وقت امی کو یہ نظم پڑھوائی تو وہ حیران رہ گئیں، خوش ہوکر کہا، میری بیٹی بھی لکھ سکتی ہے، کیوں کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ اُس وقت نظم کو خود میں نے کئی بار پڑھا، آج بھی یہ نظم میرے دل کے بہت قریب ہے، کیوں کہ یہ میرے جذبات کی مکمل ترجمان ہے۔
اسے پڑھ کر ہی مجھے احساس ہوا کہ میں بھی لکھ سکتی ہوں، بس پھر میں نے اپنی سوچ کو لفظوں میں ڈھالا۔ اسکول سے کالج تک کی تحریروں کو جمع کیا، جو آج کتابی صورت میں میرے ہاتھ میں ہیں۔ تقریبا! اس کتاب کو مکمل کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔
س) لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہوتا ہے، پڑھنے کا شوق ہے، کن رائٹرز کو شوق سے پڑھتی ہیں؟ پسندیدہ رائٹرز کون اور کیوں ہے؟
ج) جی بالکل، پڑھے بغیر قلم نہیں چل سکتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، جب میں پانچویں کلاس میں تھی تب پہلی بار آر۔ ایل۔ اسٹین کا ناول ’’اسنو مین‘‘ پڑھا۔ مجھے ان کے ناول بہت پسند ہیں۔ لیکن شاعری سے اس وقت لگاو ہوا جب میں نے ویلیم ورڈز ورتھ کو پڑھا، ان کی شاعری کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ان کے علاوہ، رِک رورڈان، کا اندازِ بیان سے بھی مجھے بہت متاثر ہوں، وہ یونانی روایتی قصے اور دیو مالائی کہانیاں بہت خوبصورتی سے قلم بند کرتے، جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ، آپ ایک الگ ہی دنیا کی سیر کر رہے ہیں۔ ان کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے آپ کبھی بور نہیں ہوسکتے۔ وہ ہر پلاٹ کو تفصیل سے بیان اور ہر کردار سے انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ تینوں میرے پسندیدہ رائٹرز ہیں۔
س) آپ کی کتاب کا تھیم کیا ہے اور کس بات نے آپ کو کتاب لکھنے پر اُکسایا؟
ج) کتاب میں، ایک موضوع نہیں ہے۔ بلکہ اُن مختلف موضوعات پر لکھا ہے، جو مجھ پر اثر انداز ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ، اس میں میرا کھتارس ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک سبق بھی ہے کہ زندگی میں کبھی ہار نہیں مانو، کل کیا ہوگا کسی کو نہیں پتہ، آج جو ہے بس یہ ہی سب کچھ ہے، اسی کو بہتر بنانا ہے۔
یہ کتاب میری زندگی کی عکاسی کرتی ہے، مختلف کہانیوں کے ذریعے میں نے وہ سب کچھ بیان کیا ہے جس سب سے میں اب تک گزری ہوں، پھر چاہیے وہ میری امی کی بیماری ہو، اُن کی کینسر سے لڑتی جنگ ہو یا امی کا ہمیں چھوڑ کر چلے جانا۔
جو کچھ میری نظروں کے سامنے ہوتا رہا، جسے میں محسوس کرتی رہی، وہی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں دس مختلف موضوعات ہیں، جو نہ صرف میری زندگی سے بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر فرد سے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صوت جُڑے ہوئے ہیں۔
میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں رہ رہے ہیں، یا آپ کے حالات کیسے ہیں۔ زندگی کتنی تلخ ہے، اگر آپ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں تو آپ وہاں پہنچ جائیں گے جہاں آپ کو پہنچنا ہوگا۔ قسمت کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔ ہر فرد کی شخصیت، قابلیت اور زندگی کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں کیسے استعمال کرتے ہیں، یہ آپ کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ آپ کی ترجیح پہلے نمبر پر آپ کے گھر والے ہونے چاہیں۔
آپ جو محسوس کررہے ہیں، بنا گھبرائے اس کا اظہار کردیں۔ یہ بھی سوچیں کہ دوسرے آپ کی تب تک عزت نہیں کریں گے جب تک آپ خود اپنی عزت نہیں کراتے۔ اگر آپ اپنی زندگی سے مطمئن یا خوش نہیں ہیں تو سمجھ لیں کہ کہانی ابھی باقی ہے، جب آپ کو آپ کے حصے کی خوشیاں جب مل جائیں گی، تب کہانی ختم ہو جائے گی۔ اپنے پیاروں کی قدر کریں۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھیں تو انہیں پورا کرنے کی سعی بھی کریں۔ لیکن آگے نکلنے کی دوڑ میں نہ پڑیں۔
س) کتاب لکھنے میں کس نے رہنمائی کی؟
ج) کسی نے نہیں کی، میں نے خود اپنے بَل پر قلم بند کی ہے۔ ظاہر ہے اپنے احساسات کو خود ہی سمجھوں گی، لکھوں گی، دوسروں کو کیا پتا کہ، میرے دل میں کیا ہے، البتہ میری امی اس وقت میرے ساتھ تھیں، انہوں نے مجھے خوب سراہا، ہمت بڑھائی۔
جب تک وہ حیات تھیں تب تک کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا کہ وہ میری حوصلہ افزائی نہ کرتی ہوں، اسی لیے جب بھی کچھ لکھتی تو انہیں سب سے پہلے پڑھاتی تھی۔ یہ بھی بتا دوں کہ میں نے دوسری کتاب لکھنی شروع کر دی ہے۔ اس میں کیا ہے، یہ وقت آنے پر پتا چل جائے گا لیکن اب شاید میرا قلم نہ رُک سکے، البتہ تعلیم کو پہلے ترجیح دوں گی۔
س) آپ کے مزید شوق کیا ہیں؟
ج) ایک لکھاری کے کیا شوق ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ مجھ سے زیادہ آپ کو ہوگا۔ مجھے لکھنے کے ساتھ ساتھ ناول اور شاعری پڑھنا بھی پسند ہے، گوکہ کہ میں انگریزی میں لکھنے پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں لیکن اردو شاعری پڑھ کر مزا آتا ہے۔
اس کے علاوہ مجھے پینٹنگ کا بہت شوق ہے، پانچویں کلاس تک میری خواہیش تھی کہ بڑے ہو کر مصورہ بنوں، لیکن جب آٹھویں کلاس میں قدم رکھا تو میرے اندر چھپا لکھاری بیدار ہوگیا اور پھر یہ ہی میرا خواب بن گیا، جو کتاب کی شکل میں پورا ہوا۔
اس کے علاوہ مجھے آرٹ اور متحرک تصاویر جمع کرنے کا اور فوٹوگرافی کا بھی شوق ہے میں پولورائڈ تصویریں کھیچتی اور انہیں ڈائری کی صورت میں جمع کرتی ہوں۔ اگر کبھی موڈ ہوا تو اسکیچنگ بھی کرتی ہوں۔
س) مستقبل میں کیا بننا چاہتی ہیں؟
ج) پروفیسر بننے کی خواہش ہے، ساتھ لکھنے کا شوق بھی جاری رکھنا چاہتی ہوں۔
س) آپ کے خیال میں نوجوانوں کو کتاب پڑھنے اور لکھنے کی جانب کس طرح راغب کیا جاسکتا ہے؟
ج) ہم کسی کو لکھنے پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے یہ نہیں کہہ سکتے کہ، ’’کتابیں پڑھو، کتابیں پڑھنے سے ہی آگے بڑھو گے‘‘ ہر ایک کا مزاج، پسند، نا پسند سب کچھ مختلف ہوتا ہے۔ کتابیں پڑھنا یا لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ہر ایک کی دلچسپی ہوتی ہے۔
یہ بالکل عام بات ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ایک اچھا استاد کسی بھی طالب علم میں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا رجحان اُجاگر کرسکتا ہے۔ جہاں تک بات نوجوانوں کی ہے تو ہمیں انہیں ایسا ماحول مہیا کرنا ہوگا، انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ کتابیں پڑھنا اور لکھنا کتنا ضروری ہے، رائٹرز کی کتنی اہمیت ہے معاشرے میں ان کا کتنا اعلیٰ مقام ہے۔ اور یہ سب ایک اچھے استاد سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔
س) کیا آپ کے خاندان میں کسی اور کو بھی لکھنے لکھانے کا شوق ہے؟
ج) میرے نانا جان، محمد نقی اردو کے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ میری چھوٹی دادی نے بھی اردو کے چند ناول لکھے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہ شوق ورثے میں ملا ہے۔ اب میں اپنے آپ کو لکھنے سے روک ہی نہیں سکتی، میرے ساتھ اور میرے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے، میں جن حالات سے گزر رہی ہوں، اُنہیں لکھ کر ہی دل کا بوجھ کم کروں گی۔
ہر واقعہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی سبق لیے ہوتا ہے، جو مجھے لکھنے پر اُکساتا ہے۔ میں چاہتی ہوں ہر چیز کا مثبت پہلو سامنے رکھوں سب کو موٹیویٹ کروں کہ آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔