یوں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جیلیں قائم ہیں،جہاں پر معمولی جرائم سمیت، سزائے موت اور عمر قید پانے والے قیدیوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث قید یوں کورکھا جاتاہے اورانہیں سزامکمل کرکےبری ہونے یا ضمانت پر رہا ہونے کے عدالتی فیصلہ تک سینٹرل جیل میں رہنا پڑتا ہے ۔ تمام جیلوں کے اندر سخت حفاظتی انتظامات یا بہ الفاظ یگر فول پروف سکیورٹی ہوتی ہے۔ سکیورٹی اہل کار 24گھنٹے جیل کے احاطے میں بیرکس کے اطراف گشت کرکے قیدیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
جیل کے اطراف میں موبائل جیمرزاور سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے جیل میں امن و امان کی صورت حال کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور سیکورٹی کے معاملے میں کسی بھی قسم کے سقم کاتدارک کیا جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی جیلوں کے اندر مختلف واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن سے وقتی طور پر امن و امان کی فضا مکدر ہوئی لیکن جلد ہی ان پر قابو پالیا گیا ۔ آج بھی کبھی کبھار اس نوع کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن سکیورٹی اہل کار فوری طور سے کارروائی کرکے حالات پر قابو پالیتے ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی اورصنعتی ضلع لسبیلہ میں کراچی سے 45کلومیٹر دور 2002 ء میں سینٹرل جیل گڈانی کا قیام عمل میں لایا گیاتھا ،جہاں پر ہزاروں قیدی سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کی بنا پر پابند سلاسل ہیں، جن میں سے کچھ پر اب تک جرم ثابت نہیں ہوسکا اور وہ ملزم کی حیثیت سے اپنی قسمت کا عدالتی فیصلہ ہونے کے منتظر ہیں جب کہ ان میں سے بیشتر جرم ثابت ہونے کے بعد عدالتی حکم پر سزائے قید کاٹ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے، پیر اور منگل کی درمیانی شب کو سینٹرل جیل گڈانی میںخاتون وارڈن کی ہلاکت کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا جس نے اس جیل کی سکیورٹی کے حولے سے شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں۔جیل میں خواتین قیدیوں کی بیرک میں تعینات خاتون قیدی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا اور جیل حکام کو اس واردات کےرونما ہونے کے کئی گھنٹے بعد علم ہوسکا۔
جیل سپرنٹنڈنٹ شکیل بلوچ نے بتایا کہ جیل کی خاتون وارڈن زویا بنت یحییٰ جیل میں خواتین کے لیے قائم علیحدہ بیرک میں ڈیوٹی پر تعینات تھیں،جب یہ واقعہ پیش آیا۔ جیل عملے کو واقعہ کا علم صبح ہوا جس کے بعد پولیس کو مطلع کیا گیا، جس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھا کیے اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔بعدازاں مقتولہ کی لاش رورل ہیلتھ سینٹر گڈانی منتقل کی گئی جہاں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ،ڈاکٹر اقبال ساجدی نے بتایا کہ مقتولہ کے گلے اور جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات ہیں ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ذاکربلوچ نے بتایا کہ وقوعہ کی شب بیرک کے اندر کل 11 خواتین قیدی موجود تھیں جن میں سے پانچ کا تعلق روس کی مسلمان ریاستوں داغستان اور چیچنیا سے ہے۔
مذکورہ خواتین کوگزشتہ برس اکتوبر میں 15سالہ بچے کے ہمراہ کوئٹہ سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔مذکورہ خواتین کو مبینہ طور پر کوئٹہ کے علاقے ایئر پورٹ روڈ پرقندھار ناکے کے قریب بجلی روڈ پولیس تھانے کے اہلکاروں نے دوران گشت مشکوک جان کر روکا۔ سفری اور قانونی دستاویزات نہ ہونے کی بنا پر پولیس نے انہیں تحویل میں لے لیا اور ان کے خلاف فارن ایکٹ کی دفعہ 3/14 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
مذکورہ خواتین کوجوڈیشل مجسٹریٹ ون کوئٹہ کی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں29 اکتوبر 2018ء کو جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ بھیجا۔ یہ خواتین کئی ماہ تک کوئٹہ جیل میں قید رہیں۔گڈانی تھانہ کے ایس ایچ او رحمت اللہ چٹھہ نے بتایاروسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی ان 11 خواتین اور بچوں کو 26 اکتوبر 2018ء کو کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان خواتین کے ساتھ پکڑے گئے 14 سال سے کم عمر کے چھ بچوں کو جیل کے بچہ وارڈ منتقل کیا گیا جبکہ خواتین قیدیوں کو لیڈیز وارڈ میں رکھا گیا جہاں ان کے ساتھ کچھ پاکستانی خواتین بھی قید تھیں ۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں مذکورہ خواتین نے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں پناہ حاصل کرنے آئی ہیں۔ 15جون 2019ء میں کراچی میں روسی قونصل خانے کے حکام کی رسائی آسان بنانے کے لیے انہیں سینٹرل جیل گڈانی منتقل کیا گیا ۔ذاکر بلوچ نے مزید بتایا کہ ان غیر ملکی خواتین قیدیوں کو سزا مکمل ہونے کے بعد ملک بدر کرنے کے لیے روسی حکام کے حوالے کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں۔
گڈانی جیل کے سپرنٹنڈنٹ شکیل احمد بلوچ کے مطابق روسی قیدیوں کو15 جون 2019ء میں کوئٹہ سے گڈانی جیل منتقل کیا گیا تاکہ انہیں اپنے ملک ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔شکیل بلوچ کے مطابق وہ ان خواتین کو ملک بدر کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے، اس سلسلے میں روسی قونصل خانے کے عملے نے جیل کا دورہ بھی کیاتھا لیکن ڈی پورٹ ہونے سے کچھ دن قبل ہی جیل کی وارڈن زویا بنت یحییٰ کو قتل کر دیاگیا، جس میں مذکورہ قیدیوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔
بیرک میں موجوددیگر خواتین قیدیوں نے چشم دید گواہ کے طور پر بتایا کہ 8اکتوبر 2019کو رات گئے روس کی ریاست داغستان سے تعلق رکھنے والی تین خاتون قیدیوں،زینب،عائشہ اور خدیجہ نے چارپائی پر سوئی ہوئی وارڈن زویایحییٰ کو مبینہ طور پرپہلے رسی سے باندھا، اس کے بعد اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا تاکہ وہ چیخ نہ سکے،پھر انہوں نے ازار بندکا پھندا بنا کر وارڈن کے گلے میں ڈال کر اس کا گلا گھوٹنا۔
انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ گلا دبانے کے بعد مقتولہ کے سر پر واش روم میں موجود سیمنٹ کے بلاک کی ضربات لگائیں، جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔ وارڈن کو قتل کرنے کے بعد مبینہ قاتلوں نے واقعے کی عینی شاہدین کو دھمکیاں دیتے ہوئے خاموشی اختیار کرنےکی تلقین کی۔
اے ایس پی حب، نوید عالم نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ24 سالہ زویا بنت یحییٰ عمرانی کا تعلق گڈانی سے تھا اوردو سال قبل 2017 میں سینٹرل جیل گڈانی میں بطور لیڈی وارڈن تعینات ہوئی تھی ۔والد کے فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی ۔ انہوں نے کہا کہ قتل کی وجوہات سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔پولیس اس واقعے کی تفتیش کررہی ہے اور جلد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔
نمائندہ جنگ کے رابطہ کرنے پر ایس ایس پی لسبیلہ، رمضا ن علی نے واقعے کے بارے میں بتایا کہ اب تک کی پولیس تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ خواتین بیرک میں قید پانچ میں سے تین روسی خواتین ، خاتون وارڈن کے قتل کی واردات میں مبینہ طور سے ملوث ہیں۔ایس ایس پی کے مطابق ، اس واقعہ کے پیچھے مذہبی عناصربھی کار فرماہوسکتا ہے۔باوجود اس کے غیر ملکی خواتین نے اعتراف جرم کیا ہے مگر تفتیش میں ہر پہلو کا جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ اس قتل کے اصل محرکات سامنے آسکیں۔
جیل کی خاتون وارڈن ،کانسٹیبل زویا بنت یحییٰ کی نماز جنازہ گڈانی میں ادا کردی گئی، جس میں پولیس و جیل حکام کے علاوہ گڈانی کی سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔قتل کے اس دردناک واقعے نے جیل کے اندر حفاظتی اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔ دوسری جانب جیل کے عملے میں بھی خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے جیل کے اندر فول پروف سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔