• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اداروں میں خریداری کے ذریعےکرپشن معمول بن گیا ہے اس کے ذیل میں ہونے والی کرپشن کو وائٹ کالر کرائم میں سب سے عام قرار دیا جاتا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس طرح کے کیسز کو حل کرنے اور عمومی جرائم سے ہٹ کر کیے جانے والے جرائم کی بیخ کنی کے لیے اسپیشلائزڈ یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملک کا اہم قومی ادارہ جانا جاتا ہے۔9برس قبل سپریم کورٹ کے سوموٹو پر اسٹیل مل میں مالی بے ضابطگیوں پر ایف آئی اے کو تحقیقات سونپی گئیں، تاہم ابتداءمیں تحقیقات میں تیزی آنے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے تحقیقات متاثر ہونا شروع ہوئیں اور مختلف انکوائریوں میں بظاہر ملزم نظر آنے والوں کو سہولتیں مہیا کی گئیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں ۔

حکومتی دائرے میں کارپوریٹ سیکٹر سے اگر کرپشن کا خاتمہ نہیں ہورہا ہے تو اس کی بنایدی وجہ تحقیقااتی اداروں کی ملی بھگت کے سوا کیا قرار دی جاسکتی ہے۔جس کا ثبوت عدالتوں میں ان کے پیش کردہ چالان اورناکافی ثبوت ہوتے ہیں جن کی وجہ سے تمام ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں۔

اس طرح پاکستان اسٹیل مل میں کرپشن سے جڑا ایک اہم کیس ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں درج کرنے جارہی ہے ۔مذکورہ انکوائری میں سابقہ درج کیس میں ملزمان کو بچانے کے لیےکیس کے مدعی و گواہان کو ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

 ذرائع کے مطابق لگ بھگ ڈھائی برس سے جاری ایک طویل تحقیق و تفتیش کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ہاتھ سو روپے کی ادویات میں مبینہ گڑ بڑ کا ایک کاغذ ہاتھ لگا ہے ، جس کو ڈیڑھ کروڑ کی رقم تک کھینچا جا رہا ہے اور کیس درج کرنے کے لیے دن رات ایک کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل کے شعبہ میڈیکل کے زیر اہتمام 100بستروں(ہنڈریڈ بیڈ) کا اسپتال اسٹیل ٹاؤن میںکام کر رہا ہےجس میں 16 ہزار ملازمین کو طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

مالی بحران کا شکار پاکستان اسٹیل نے اپنے اسپتال کے لیے پیپرا قواعد کے مطابق مالی سال 2015-16کے لیے ادویات کی خریداری کا ٹینڈر جاری کیا جسے کم ترین ریٹ دے کر ایک نجی کمپنی نے حاصل کیا لیکن بعد ازاں وجہ بتائے بغیر اس ٹینڈر کو مسترد کر دیا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ نئے سرے سے ٹینڈر کیا گیا اس مرتبہ بھی کم ترین نرخوں کی بنیاد پر ٹینڈر سابقہ کمپنی نے حاصل کیاتاہم اس ٹینڈر کی کارروائی مکمل نہیں کی جاسکی اور اسپتال میں دوائوں کی قلت شروع ہونے کی وجہ سے ان ادویات کے لئے پاکستان اسٹیل مل کی انتطامیہ نے ازخود خریداری شروع کردی۔ قواعد کے برخلاف ادویات کی مذکورہ خریداری پر کرپشن کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ 

ٹینڈر میں کامیاب ہونے والی کمپنی نے اپنے ساتھ ناانصافی پر ایف آئی اے سے رجوع کیا اور کیس درج کرنے کی درخواست کی۔ تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان اسٹیل نے ادویات کی خریداری میں جو رسیدیں ظاہر کی ہیں ان کے مطابق ’’ہارڈ وئیر اسٹور ‘‘تے سے لاکھوں روپے کی دوائیں خردی گئی تھیں۔ مدعی کے مسلسل رجوع کرنے پر بالآخر تفتیش کے بعد ایف آئی اے نے 2016/16درج کیا۔ اس کیس میں اسٹیلل مل کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر نصرت اسلام بٹ ، سابق پرنسپل ایگزیکٹو افسر حامد پرویز ، چیف میڈیکل افسر و انچارج فیسلیٹیز سمیت اکاو نٹنٹ کو گرفتار کیا گیا۔ ان ملزمان کی گرفتاری کے باوجود عدالت میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کی جانب سے سے مقدمے کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ 

مدعی مدمہ سفیان احمد سے مقدمہ واپس لینے کی کوشش کی جاتی رہی اور مختلف حربوں سے دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ یہاںتک کہ اس مقدمے کے اہم گواہ ڈاکٹر نذیر جو چیف میڈیکل افسر پاکستان اسٹیل مل تھے، پہلے انہیں اس مقدمے میں شامل تفتیش کیا پھر ان کی گواہ کی حیثیت ختم کرکے انہیں ملزم قرار دیا گیا اور دوسری جانب عدالت میں جو چالان جمع کرایا گیا تو اس میں مرکزی کرداروں کو ملزم کی فہرست سے نکال دیا گیا ، جس پر عدالت نے اعتراض کردیا اور ایف آئی کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت میں ناکامی کے بعد ملزمان کو بچانے کے لیے سابقہ کیس کے مدعی کو نئے کیس میں پھنسانے کے لیے کام شروع کیا گیا۔ تین سال تحقیقات کے بعد یہ بات ڈھونڈی گئی کہ پاکستان اسٹیل کو 2013-14میں ٹینڈر جیتنے والی کمپنی نے یا تو جعلی ادویات فراہم کیں یاسرے سے ادویات کی فراہمی ہی نہیں ہوئی ہے۔ اس مقدمے کی تحقیقات کے دوران حاصل ہونے والے شواہد کے مطابق ریکارڈ میں موجود کئی رسیدیں اور وصولیابی کے فارم پر مجاز اتھارٹی کے دستخط اور تاریخیں موجود نہیں ہیں۔ 

اسی طرح جن کمپنیز کا ما ل پاکستان اسٹیل مل کو فراہم کیا گیاان دواساز کمپنیوں اور ان کے ڈسٹری بیوٹرز نے مذکورہ بلز کی تصدیق سے انکار کردیاتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو فراہم کردہ مذکورہ ادویات کہاں سے ، کس سے خریدی گئیں؟اس کے لیے بقول انسپکٹر شہباز یہ بات دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں سامنے آئی کہ پاکستان اسٹیل کو یا تو ادویات فراہم ہی نہیں کی گئیں یا کوئی کم تر کوالٹی کی یا جعلی ادویات فراہم کر دی گئیں، جن کی ادائیگی بھی کنٹریکٹر کو کر دی گئی۔

دوسری جانب انسپکٹر شہباز نے ریاض منگی نامی اسٹیل مل کے ایک افسر کا بیان بھی کیس میں منسلک کیا ہے میں کہا گیا کہ کسی بھی قسم کی ادویات کے سپلائر کےلیے لازم ہے کہ وہ ادویات اسٹیل مل کے ہی اسٹور میں پہنچائے گا اور وہیں سے ہی سپلائی کی گئی ادویات کے ریسیونگ رسید میٹریل ریسیونگ ریسپٹ (ایم ایم آر )فنانس ڈپارٹمنٹ کو قابل قبول ہوگی اور اسٹیل مل کے اسٹور میں کسی بھی قسم کی ادویات نہیں پہنچی ہے ،تاہم ریلائبل سروسز اور اسٹیل کے درمیان ہونے والے کے کانٹریکٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سپلائرتمام ادویات اسٹیل مل کے زیر انتظام ہینڈرڈ بیڈ اسپتال کے اسٹور میں پہنچائی جائے گی اور وہیں سے ایم ایم آر حاصل کی جائے گی،اس ضمن میں نمائندہ جنگ نے جب ریاض منگی سے رابطہ کیا تو اس کہا کہ ایف آئی اے افسرانسپکٹر شہباز کی جانب سے لکھے گئے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے ایف آئی اے افسر نے ہسپتال کے فوکل پرسن ہونے کی حیثیت سے ضرور بلایا تھا تاہم اس نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ 

اگر اس کے نام سے اایسا بیان ایف آئی اے افسر نے لکھا تو وہ عدالتمیں اس کی وضاحت کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھائی برس میں ایف آئی اے کو تمام ریکارڈ سے صرف ایک رسیدملی ہے جس میں صرف 110روپے مالیت کی 2دوائیں درج ہیں ،جن کے نیچے باقاعدہ سینئر میڈیکل افسر کے دستخط و مہر موجود ہے۔ایف آئی اے نے اس رسیدکی بنیاد پر اسے سال بھر کی دواؤںکی خریداری سے جوڑ دیا۔ اس کے علاوہ پورے سال کے دوران ادویات میں کمی یا کسی جعلی دوا کا کوئی کیس پاکستان اسٹیل ہسپتال کے مریضوں کی جانب سے درج ہونے کا ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس نہیںہے۔ صرف سو روپے کی رسیدکو بنیاد بنا کر وفاقی ادارے نے لاکھوں روپے اور ڈھائی سال ضائع کردیئے۔

درائع کا کہنا ہے کہ ریاض منگی اپنے کیرئیر کے دورا ن کبھی میڈیکل ڈپارٹ میں نہیں رہا اور اسے ادارے کی ایس او پی کابھی علم نہیں ہے۔ مجاز اتھارٹی کے دستخط کا فیصلہ خود ٹینڈر دستاویزات میں درج ہے اورادویات وصولی کی تمام کارروائی چیک بیلنس اسی کے عین مطابق مجاز افسر نے ہی انجام دیئے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ کوئی سو روپے کے اس مبینہ کرپشن کیس میں پاکستان اسٹیل کے مزید پانچ افسران کو شامل کیا جائے گا۔ اس صورتحال میں عین ممکن ہے کہ پاکستان اسٹیل میں ازخود ادویات خریداری کرپشن کے کیس نمبر16/2016کے با اثر ملزمان کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کیس کو آگے بڑھایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ثبوتوں کی روشنی میں کیا اب وفاقیتحقیقاتی ادارے محض 100روپے کی مبینہ کرپشن کے پیچھے ڈھائی تین سال لگائیں گے اور شفاف تحقیقات کے ذریعہ مدعی کو انصاف دلائیں گے ؟

تازہ ترین
تازہ ترین