بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے تعصب پر مبنی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کیا جائے جبکہ مسلمانوں (سنی وقف بورڈ) کو ایودھیا میں متبادل 5 ایکڑ زمین دی جائے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے شیعہ وقف بورڈز اور نرموہی اکھاڑے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے خارج کر دیں۔
بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد گرانا، اس میں بت رکھنا غیر قانونی ہے، مسلمانوں کے بابری مسجد اندرونی حصوں میں نماز پڑھنے کے شواہد ملے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب یا عقیدے پر بات کرے، عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ تمام مذاہب کے عقیدوں کی بات کرتا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں کیا گیا، بابری مسجد کے نیچے تعمیرات موجود تھیں جو اسلامی نہیں تھیں، تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے طویل تنازع کا فیصلہ آج سنایا ہے، جس سے پہلے ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔
بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے مندر مسجد کے اس طویل تنازع کا فیصلہ سنایا، رنجن گوگئی 17 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پانچوں ججز نے ایک ایک کر کے اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جسٹس نذیر اس بینچ میں واحد مسلمان جج ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بابری مسجد کیس کی 4 کے بجائے 5 گھنٹے سماعت کافیصلہ
6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019ء کو مکمل کی تھی۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کر کے متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی، کئی مقامات پر انسدادِ دہشت گردی دستے تعینات کیے گئے۔
ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کی تھی، ان کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں ایک مندر تھا، مسجد کی شہادت کے بعد الہٰ آباد ہائی کورٹ میں کیس چلا۔
ہائی کورٹ نے 30 ستمبر 2010ء کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایودھیا کی 2 اعشاریہ 7 ایکڑ زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک تہائی زمین رام لِلا مندر کے پاس جائے گی، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کو اور باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 14 اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019ء کو مکمل کی تھی، کیس کا فیصلہ آج سنایا گیا ہے۔
بابری مسجد، رام مندر تنازع کی تاریخ کیا ہے؟
بابری مسجد اور رام مندر تنازع ایک مذہبی، سیاسی اور تاریخی بحث ہے جو 27 سال سے بھارت میں جاری ہے جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ بابری مسجد کو ہندوؤں کے رام مندر کو گِرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد کو ایودھیا میں 1528ء میں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ ایک ہندو گروہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بابری مسجد کو رام مند ر کو منہدم کر کے تعمیر کیا گیا ہے۔
ہندو گروہ کے دعوے کے بعد 1853ء میں بابری مسجد کی جگہ پر مذہبی تنازع شروع ہوا۔
1859ء میں برطانوی انتظامیہ نے مسلم ہندو تنازع کو دیکھتے ہوئے اِس جگہ کےچاروں اطراف باڑ لگا دی تھی اور مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے لیے الگ الگ عبادت گاہوں کا نشان لگا دیا تھا اور تقریباً 90 برس ایسا ہی چلتا رہا۔
1949ء میں بابری مسجد کے اندر رام کے بتوں کو رکھنے کے بعد جائیداد کا یہ تنازع پہلی بار بھارتی عدالت میں گیا۔
اِس کے بعد 1984ء میں ہندو گروہ نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے 3 سال بعد ایک ضلعی عدالت نے تقریباً 5 دہائیوں کے بعد بابری مسجد کے دروازے کھولنے کا حکم دے دیا اور ہندوؤں کو مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
جِس کے بعد مسلم گروپس نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور 1989ء میں اُس زمین پر مندر کی بنیاد رکھی گئی۔
1990ء میں اُس وقت کے بی جے پی کے صدر ایل کے اڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے لیے حمایت حاصل کی اور وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے رضا کاروں کے ذریعے بابری مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا گیا۔
6 دسمبر 1992ء میں ہندو کارکنوں نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا جس کے بعد بھارت میں مذہبی فسادات شروع ہوگئے تھے۔
اِس واقعے کے 10 دن بعد لبرہان کمیشن کو واقعے کی تحقیقات کے لیے تیار کیا گیا اور اِس کمیشن نے اپنی انکوائری رپورٹ واقعے کے 17 سال بعد یعنی جون 2009ء میں جمع کروائی۔
ستمبر 2003ء میں بھارت کی عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ بابری مسجد کو مسمار کرنے کے معاملے میں بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے لیکن اِس فیصلے میں ایل کے ایڈوانی پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا جبکہ وہ اُس وقت کے نائب وزیرِ اعظم تھے۔
اِس کے ایک سال بعد اترپردیش کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ رہنماؤں کی جانب سے مانگی جانے والی معافی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
اپریل 2002ء میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ کے 3 ججوں کے بنچ نے بابری مسجد اور رام مندر کی جگہ کے مالک کا تعین کرنے کی سماعت شروع کی۔
ستمبر 2010ء میں الہٰ آباد کورٹ نے فیصلہ سُنایا جس میں کہا گیا کہ اِس جگہ کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس کے بعد ہندو گروپوں اور مسلم گروپوں نے ہائی کورٹ کو چیلنج کرتے ہوئےسپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
2011ء میں سپریم کورٹ نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کیس کی سماعت روک دی تھی اور ہائی کورٹ کا فیصلہ عجیب اور حیران کن قرار دے دیا تھا۔
رواں سال کے شروع میں بھارت کی سپریم کورٹ میں 5 ججوں کے آئینی بنچ نے 6 اگست سے روزانہ اِس کیس کی سماعت شروع کی اور یہ روزانہ کی سماعت 40 دن کے بعد 16 اکتوبر کو ختم ہو گئی، اس کیس کا آج (9 نومبر کو) فیصلہ سنایا گیا۔