مجھ سے متعلقہ دونوں ملکوں، امریکہ اور پاکستان میں غریب تو خیر پس ہی رہے تھے لیکن آج کل ارب پتی بھی تلملاہٹ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے ارب پتی تو گھبراہٹ میں آرمی چیف کے ہاں فریاد کناں ہوئے کہ ان کے بیٹھے بٹھائے مال بننے کی شرح میں کمی آگئی ہے لیکن امریکہ کے امیرترین کم از کم کھلم کھلا فوج سے مدد لینے نہیں جا سکتے اس لئے وہ میڈیا میں بیانات داغ رہے ہیں۔ امریکی ارب پتیوں کو زیادہ پریشان بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نہ صرف ملک کا شہنشاہ نما صدر ارب پتی ہے بلکہ حزب مخالف میں بھی اب امریکہ کے دو امیر ترین حضرات صدارتی امیدوار بن چکے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازو جیسے خیالات کے حامل لوگ غالب آتے جا رہے ہیں۔
اگر اس وقت امیروں پر ٹیکس بڑھا کر عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کے دعویدار الزبتھ وارن اور برنی سینڈرز کے پیروکاروں کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت بن جاتی ہے۔ اب جب صدارتی امیدوار الزبتھ وارن کے ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدوار بننے کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو امریکہ کے سب سے فراخ دل ارب پتی مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس بھی میڈیا پر آکر پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالانکہ معاملہ صرف اتنا ہے کہ بیچاری الزبتھ وارن امریکہ کے 0.02فیصد امیروں پردو فیصد ٹیکس بڑھانا چاہتی ہیں اور وہ بھی اس آمدنی پر جو صرف اسٹاک مارکیٹ وغیرہ میں بنائی جا رہی ہے۔ پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے ڈیموکریٹک پارٹی بھی امیروں کے چندوں پر منتخب ہو کر انہی کا دم بھرنے پر مجبور تھی لیکن برنی سینڈرز نے چار سال پہلے طرح ڈال دی تھی کہ صرف عوام کے چندوں پر بھی کامیابی سے الیکشن لڑے جا سکتے ہیں چنانچہ اب بائیں بازو کے ایجنڈے کا پرچار کرنے والے عوام سے اتنا چندہ جمع کر لیتے ہیں کہ ان کو امیروں کے تلوے چاٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گویا کہ اب امیروں کے رقیب ان کے پسندیدہ نہیں ہوں گے۔
مجھے پاکستان کی سیاست میں روز بروز ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کا کوئی زیادہ علم نہیں ہے اور ویسے وہاں کسی کو بھی علم ہو نہیں پاتا کیونکہ سب کچھ پس پردہ ہوتا ہے اور عوام میں صرف افواہیں اور سازشی نظریے گردش کرتے ہیں۔ اگر بھولے سے کسی کو کچھ معلوم ہو بھی جائے تو وہ اس کے دل کے اندر ہی دفن ہوجاتا ہے۔ اس عالمِ بےخبری میں یا تو افواہیں گھڑی جا سکتی ہیں یا پھر تاریخ کے مطالعے سے کوئی چھوٹا موٹا فارمولا بنایا جا سکتا ہے جس سے صرف مستقبل کی جہت کا اندازہ ہو سکے۔ ہم نے دوسرا راستہ اپناتے ہوئے موٹا سا یہ فارمولا بنایا ہے کہ اصل حکمران سیاسی مخالفوں کا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ امریکہ کے دیو مالائی جمہوری نظام میں کمیونسٹ اور سوشلسٹوں پر قانونی پابندیاں عائد رہی ہیں اور میکارتھی ازم کے تحت ان کو نیست و نا بود بھی کیا گیا۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے تو پاکستان نے بھی 1951میں نام نہاد کمیونسٹ سازشیوں کو جیلوں میں بند کردیا تھا۔ شدید غلط فہمی کا شکار ایوب خان کے لئے جماعت اسلامی بھی نا پسندیدہ رقیب تھی لہٰذا اس کی بھی شکنجہ کشی ہوئی لیکن باہر والوں کے کہنے پر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد یحییٰ خان کے زمانے سے لے کر آج تک، چند استثنائی واقعات کے علاوہ، مذہبی سیاسی پارٹیاں کبھی بھی ناپسندیدہ رقیب نہیں بن سکیں۔
پاکستان میں ستر کی دہائی کی طلبا سیاست میں سرگرم رہنے کی وجہ سے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت میں بھی بائیں بازو کے طالب علم اور مزدور رہنما جیلوں کی ہوا کھاتے تھے اور مذہبی شرپسندوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تعلیمی اداروں اور بالخصوص پنجاب یونیورسٹی میں مخصوص مذہبی گروہ مخالفین پر تشدد بھی کرتا تھا، روشن خیال اساتذہ کی بےحرمتی بھی کرتا تھا اور تھانوں میں مقدمات بھی تشدد کا شکار ہونے والوں پر ہی بنتے تھے اور گالیاں کھانے والے اساتذہ کو ہی دور دراز کالجوں میں دھکیل دیا جاتا تھا۔ آپ بھٹو عہد کے جیل جانے والوں کے اعداد و شمار جمع کر لیں تو آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ مرحوم جہانگیر بدر سے لے کر امتیاز عالم تک کوئی بھی جیل جانے سے نہیں بچا اور حفیظ خان سے کر جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ تک اس دور میں کسی نے جیل نہیں دیکھی۔ میں خود من گھڑت اور مضحکہ خیز مقدمات میں دو دفعہ جیل دیکھ چکا ہوں اور فوجی عدالتوں کے مقدمات بھگت چکا ہوں۔ خیر جب جاوید ہاشمی ن لیگ کے صدر کے طور پر ناپسندیدہ رقیب بنے تو دھر لئے گئے۔ اس ساری کتھا کے بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ آج بھی سیاسی رقیبوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور جن میں وہ اوصاف نہ ہوں ان کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور ان پر زندگی کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ مجھے کافی حد تک ذاتی علم ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو اس لئے امریکیوں نے واپس بھجوایا تھا کہ کہیں وکیلوں کی تحریک کے نتیجے میں ناپسندیدہ رقیب (خیالی بایاں بازو اور جہادی) ابھر کر سامنے نہ آجائیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور حکمران پاکستان کے ہوں یا امریکہ کے، سیاسی رقیبوں کے انتخاب پر بھی اتنی ہی توجہ دیتے ہیں جتنی مسندِ حکومت پر بٹھائے جانے والوں کے لئے۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں تو صرف اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں لیکن امریکہ کے بارے میں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ارب پتی زیادہ شدت سے دولت پر ٹیکس لگانے والوں کے خلاف صف آرا ہوں گے۔