بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ،لیکن حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے یہاں کے عوام انتہائی پسماندہ ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسےوسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ملک کا ’’عظیم صوبہ ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ معدنی دولت سے مالامال ہونے کی وجہ سے اس کا ڈھنڈورا دنیا بھر میں پیٹا جاتا ہے۔یہاں ترقیاتی اسکیمیں اور عوام کے رفاہ عامہ کے لیے منصوبوں کی سمری منظور ہوتی ہیں فزیبلٹی رپورٹ بنتی ہیں، کروڑوں اربوں روپے کی رقم کا بجٹ بھی مختص کیاجاتا ہے۔
لیکن ان’’ مبینہ منصوبوں‘‘کی تکمیل کے لیے ’’ نادیدہ لوگوں‘‘کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان منصوبوں کا ریکارڈ کاغدات پر تو ہوتا ہے لیکن یہ انسانی آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ان کے ثمرات سے عوام محروم رہتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ پر ان کی زبردست تشہیر کی جاتی ہے۔ صوبے کے عوام پینے کے پانی ، ذرائع نقل و حمل ، تعلیمی اور طبی سہولتوں سے محروم ہیں، جب کہ حکام کی طرف سے روزانہ نت نئے منصوبوں کا افتتاح کیا جاتا ہے، جن کی سرکاری سطح پر تشہیر کی جاتی ہے ۔ لیکن یہ بات رکھنی چاہئے کہ صرف کوئٹہ ،گوادر یا سی پیک پر ترقیاتی منصوبوں کو ہی صوبے کی ترقی یا خوش حالی کا پیمانہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
غربت، بے روزگاری ،بھوک افلاس کی وجہ سے صوبے کے زیادہ ترعلاقوں میں لاقانونیت کا راج ہے جب کہ یہاں اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ منشیات اور الیکٹرونکس اشیاء کے بعد ایرانی،پٹرول و ڈیزل کی دوسرے صوبوں کی جانب آزادانہ طور پر غیر قانونی نقل و حمل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروں افرادبے روزگاری سے تنگ آکر اسمگلروں کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں۔
اسمگلنگ خاص کر ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ حکومتی کی رٹ کے لیے سوالیہ نشان ہے، کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس ، کسٹم اور دیگر محکموں کی موجودگی کے باوجود اسمگلنگ کا کاروبار بلاروک ٹوک جاری ہے۔اس شاراہ پر قانون کی عمل داری، برائے نام ہے، ہائی وے پولیس کی لاپروائی کی وجہ سےاکثر و بیشتراندوہ ناک سانحےرونما ہوتے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی طرف سےاس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔
ایرانی ڈیزل کی غیرقانونی نقل و حمل کے دوران اب تک سیکڑوں افرادموت کے منہ میں جاچکے ہیں اورنہ جانے کتنی مائوں کی گود اجڑ چکی ہے، ہزاروں خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوچکے ہیں۔
گزشتہ ما ہ اسی ہائی وے پر اندوہ ناک سانحہ پیش آیا۔نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کمشنر مکران ڈویژن ،کیپٹن (ر) طارق زہری کوئٹہ میں سرکاری اجلاس میں شرکت کے بعد واپس تربت جارہے تھے کہ قلات کے علاقے بینچہ کے قریب سامنے سے آنے والی ایرانی پٹرول سے بھرا ہوا ٹینکر ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ دونوں گاڑیوں میں تصادم اتنا شدید تھا کہ آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی جس نے کمشنر مکران کی گاڑی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آگ کی تپش کی وجہ سے ، کھڑکی دروازے جام ہوگئے اور گاڑی میں بیٹھے زخمی افراد کو جان بچانے کے باہر آنے کا موقع نہیں مل سکا جس کی وجہ سے کمشنر مکران، طارق زہری ، ان کا ڈرائیوراور دو گارڈ آگ سے جھلس کر ہلاک ہوگئے۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور مرنے والوں کی لاشوں کو اسپتال پہنچایا جہاں سے پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائیوں کے بعد متوفیان کے آبائی علاقوں میں منتقل کردیا گیا۔ کیپٹن (ر) طارق زہری کوقلات میں میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد سپرد خاک کردیا گیاجس میں سوگوار خاندان کے علاوہ عزیز واقارب اورمعززین کی کثیر تعداد موجود تھی۔بعد ازاں ان کو ایصا ل ثواب کے لیے زہری ہاؤس قلات میں فاتحہ خوانی کی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایرانی پٹرول و ڈیزل کی اسمگلنگ کے دوران ٹینکر ڈرائیوروں کی لاپروائی اور تیز رفتاری کی وجہ سے اس شاہ راہ پر اکثر و بیشتر حادثات رونما ہوتے ہیں، جن میںاب تک لاتعداد انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس شاہ راہ پر جگہ جگہ چیک پوسٹس اور پولیس چوکیاں موجود ہیں لیکن اسمگلنگ کے سدّباب کے لیےٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے کیوں کہ ہر سطح پر کرپشن مافیا کا راج ہے جب کہ ڈیوٹی پر موجود افسران و اہل کاروں کومبینہ طور پر سیاسی دباؤ کا بھی سامنا رہتا ہے۔
ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے دوران ہونے والے خونی حادثات میں سانحہ گڈانی موڑ اور سانحہ بیلہ بھی شامل ہے جس میں آئل ٹینکر اور بسوں میں خوف ناک تصادم کے بعد بسوں میں آتش زدگی کی وجہ سے سیکڑوں افراد زندہ جل کرہلاک ہو گئے تھے، لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے کے سیمپلز بھجوائے گئے تھے لیکن وہ تجزئیے کے بعد اب تک واپس نہیں آئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان سے ایرانی تیل کی نقل و حمل پر پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے قوانین کو سخت کرنے علاوہ اسمگلنگ کی روک تھام کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام شروع کیا جائے تاکہ اہل کار اپنے فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں۔