عمارہ ارشد
جرأت(شاعر) نابینا تھے۔ ایک روز بیٹھے فکر سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟ جرأت نے کہا:کچھ نہیں۔ بس ایک مصرع ہوا ہے۔ شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔ انشاء نے عرض کیا:کچھ ہمیں بھی پتا چلے۔ جرأت نے کہا نہیں۔ تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔ آخر بڑے اصرار کے بعد جرأت نے بتایا۔ مصرع تھا:اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی انشاء نے فوراً گرہ لگائی:اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی جرأت لاٹھی اٹھا کر انشاء کی طرف لپکے۔ دیر تک انشاء آگے اور جرأت پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
٭… پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ ’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجئے۔
٭…ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کرتے ہوئے کہا:آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔ لیکن یہ چہرے سے جتنے بیوقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔ شوکت تھانوی نے فوراً کہا:جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بیوقوف ہیں، چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
٭…عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔ عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔ جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے:عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟
٭…جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جناب والا، میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔